"KMK" (space) message & send to 7575

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا

بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ایک محاورہ ہے اور فی الوقت یہ محاورہ اس لئے یاد آیا ہے کہ اپنے پیارے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے بھاگوں جہانگیرترین کا چھینکا ٹوٹا ہے اور قریشی صاحب ناصرف خوشی سے بے حال ہیں بلکہ آج کل ان کی پھرتیاں بھی قابل دید ہیں۔ گزشتہ دنوں ملتان میں سینٹ میری چرچ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ عمران خان نے شوگر مافیا کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مزید دھمکی دیتے ہوئے فرمایاکہ فوجداری، ٹیکس چوری، ریگولیٹری اور کرپشن کی کارروائی شروع ہوگی‘ چینی مہنگی کرنے والوں کوجواب دینا ہوگا۔سچ پوچھیں تو میں کون ہوتا ہوں ان سے یہ پوچھنے والا کہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی اقدامات پر تو ان سے کچھ بن نہیں پا رہا اور ان کا سارا زور مقامی سیاست پر آن پڑا ہے‘ لیکن سوچنے پر تو پابندی عائد نہیں ہو سکتی۔
آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب خان کو تو چھوڑیں کہ وہ بہرحال وزیرخارجہ کے طور پر اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حوالے سے غیرمعمولی کارکردگی کے حامل لوگ تھے‘ درمیانے درجے کی کارکردگی کے مالک صدیق خان کانجو بھی بطور وزیر خارجہ اس قسم کے غیرمتعلق معاملات میں الجھنے اور اپنے محکمے سے ہٹ کر بیان بازی کرنے کے معاملے سے کوسوں دور رہتے تھے۔ لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت خارجہ بھگتانے والے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی اس وزارت کو اپنی صلاحیتوں کے مقابلے میں کافی کمتر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ یہ وزارت تو برسوں پہلے ہنڈا چکے ہیں۔ یہ جو پنجابی کا لفظ ہنڈانا ہے‘ اس کوکسی طور دیگر الفاظ میں سمجھایا نہیں جا سکتا‘ اس لئے فی الوقت اس لفظ کو چھوڑیں اور شاہ محمود قریشی کے حسنِ طلب پر غور کریں۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ اگر وزیراعظم پاکستان نہیں بھی بن سکتے تو کم از کم پنجاب کے وزیراعلیٰ تو بن جائیں۔ ویسے تو جب سے سید یوسف رضاگیلانی پاکستان کی وزارت عظمیٰ بھگتا کر فارغ ہوئے ہیں تب سے اپنے شاہ محمود قریشی روزانہ رات کو سونے سے قبل اپنا موازنہ یوسف رضا گیلانی سے کرتے ہیں اور بڑی سادہ سی Calculation کے بعد خود کو گیلانی صاحب سے بدرجہا بہتر، زیادہ پڑھا لکھا، انتخابی نتائج کے بہتر اعدادوشمار کا حامل اور رقبے کے حساب سے زیادہ بڑا زمیندار ہونے کے باعث اس پوسٹ کیلئے زیادہ موزوں امیدوار قرار دے کر بے قرار ہو جاتے ہیں کہ آخر ان میں کیا کمی تھی جو ان کو قدرت نے اس منصب کیلئے ابھی تک اذنِ قبولیت نہیں بخشا؟ وہ مشکل سے ابھی یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ شاید وزیراعظم نہ بن سکیں لیکن پھر کوئی نہ کوئی دانشور، اینکر، صحافی یہ بات چھیڑ دیتا ہے کہ اگر یہ گورنمنٹ مائنس ون کے فارمولے کے تحت تبدیل ہوئی تو وزیراعظم شاہ محمود قریشی ہوں گے۔ بس یہ سنتے ہی ان کے نیم جان خواب پھر سے زندہ ہو جاتے ہیں‘ لیکن اس بار تووہ ذہنی طور پر خود کو وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے ناصرف تیار کرچکے تھے بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اس کی خوشخبری بھی سنا چکے تھے مگر ان کے سارے خواب ایک نوآموز اور زندگی میں پہلا الیکشن لڑنے والے شیخ سلمان نعیم نے چکنا چور کردیئے۔ اس شکست کی بڑی کہانیاں ہیں‘ اور ہر کہانی ایک سے ایک دلچسپ اور مختلف۔ لیکن ان سب کہانیوں کا لب لباب یہ ہے کہ عمران خان بذات خود نہیں چاہتے تھے کہ شاہ محمود قریشی صوبائی اسمبلی میں آئیں اور ان کو وزارت اعلیٰ پنجاب کیلئے تنگ کریں۔ سو انہیں فائنل تک رسائی سے روکنے کیلئے کوالیفائنگ رائونڈ میں ہی فارغ کر دیا گیا۔ اس میں سلمان نعیم کی بھاگ دوڑ‘ خود شاہ محمود قریشی کی علاقائی سیاست میں دوستوں کوغچہ دینے کی عادت، ملتان میں ٹکٹوں کی تقسیم میں مختلف لوگوں سے وعدے وعید اور وعدہ خلافیاں، جہانگیر ترین کی اندرخانے کی جانے والی مخالفت اور بعض نہایت ثقہ راویان کے بقول خود عمران خان کی زبانی اور ایس ایم ایس کے ذریعے شاہ محمود قریشی کا پتا کاٹنے کی ہدایات۔ غرض یہ بات طے ہے کہ ایک طرف شاہ محمود قریشی کا شوقِ وزارتِ علیہ تھا تو دوسری طرف انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے روکنے کا سارا پیشگی بندوبست بھی پورے طمطراق سے کیاگیا۔ سو شوق پر منصوبہ بندی نے فتح حاصل کی اور قریشی صاحب کوالیفائنگ رائونڈ میں ہی ناک آئوٹ ہوگئے۔
ایک دوست نے بڑے مزے کی بات بتائی۔ ملتان کا پی ٹی آئی کا ایک عہدیدار جو پہلے خود شہر کے ساتھ والی قومی اسمبلی کی سیٹ کیلئے امیدوار تھا؛ تاہم اسے جب ٹکٹ نہ ملی تو اس نے پارٹی ڈسپلن کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لئے اور امیدواری سے دستبردار ہو گیا۔ یہ عہدیدار اب مرکزی سطح کے محکمے کا منیجنگ ڈائریکٹر ہے۔ اس نے اس سارے رولے سے قبل شاہ محمود قریشی کے خلاف پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ شاہ محمود کے ایک عزیز‘ جو کافی بااثر تھے‘ اس کے پاس گئے تاکہ اسے اس پریس کانفرنس سے روکا جا سکے۔ جواباً اس نے شاہ محمود قریشی کے اس عزیز کو ایک میسیج دکھایا کہ اسے اس پریس کانفرنس کے سلسلے میں عمران خان صاحب کی آشیرباد حاصل ہے۔ قریشی صاحب کے وہ عزیز یہ پیغام دیکھنے کے بعد خاموشی سے واپس آگئے۔ شاہ محمود شاید دل کو تسلی دے لیتے اور چین سے بیٹھ جاتے لیکن بھلا ہو عثمان بزدار کی کارکردگی کاکہ اسے دیکھ کر ان کے دل میں پھر سے وزارت عالیہ کی ہڑک اٹھتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہڑکے؟ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسی کارکردگی کے ساتھ کوئی شخص آخر کب تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ مذاق جاری رکھ سکتا ہے؟ انہیں علم ہونا چاہئے کہ یہ محیرالعقول مذاق تب تک چلے گا جب تک عمران خان چاہیں گے۔ اب اس چاہنے کے پیچھے کیا منطق ہے؟ یہ کسی بھی شخص کو نہیں پتا؛ تاہم قریشی صاحب مایوس نہیں اور اب بھی کچھ نہ کچھ حرکت برکت کرتے رہتے ہیں کہ کیا خبر کب لاٹری نکل آئے؟
اس رمضان میں کورونا کا دور دورہ تھا اور سماجی فاصلے کی پابندی کے باعث افطاریوں کا بازار بالکل ٹھنڈاتھا لیکن شاہ محمود قریشی نے اپنے اشتہاری سیل کو نئے سرے سے ہوشیار کیااور اس سیل کے سربراہ صوبائی وزیرڈاکٹر اخترملک کے ذریعے دو عدد افطاریوں کا بندوبست کروایا تاکہ مقامی سیاست کے منظرنامے میں اپنی موجودگی کا احساس دلا سکیں۔ جلالپور پیروالہ سے بظاہر آزاد رکن صوبائی اسمبلی قاسم لنگاہ اورملتان شہر سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے اسمبلی جاوید انصاری کے ہاں افطاریوں کا اہتمام کروالیا۔ ایک معتبر راوی‘ جوقاسم لنگاہ کی افطاری میں شریک تھا‘ نے بتایا کہ سماجی فاصلے کا خیال رکھا گیا تھا اور افطار پارٹی کو پرتکلف بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ شیخ رشید، فیصل وائوڈا اور فواد چودھری کے ساتھ اب شاہ محمود قریشی بھی ان وزرا کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں جنہیں اپنے محکمے سے زیادہ بیان بازی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ جیسے ہی جہانگیر ترین پر برا وقت آیا ہے قریشی صاحب بھی ڈنڈا سوٹا سنبھال کر میدان میں اپنے جوہر دکھانے کیلئے نکل آئے ہیں۔ رہ گئی وزارت خارجہ تو اب وزیر خارجہ اس بات سے بڑے مطمئن ہیں کہ بھلے وہ عالمی سطح یا او آئی سی کی حد تک کشمیر کیلئے کچھ نہیں کر سکے مگر چین نے بھارت سے ان کی خراب کارکردگی کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو ایک دوست نے سنایا تھاکہ ایک شخص کی کسی نے خوب ٹھکائی کی۔ کپڑے وغیرہ جھاڑکر فارغ ہونے کے بعد اس نے کسی کو بتایا ''میڈے مامے دا پوتر وڈا جناں جوان اے، جیں ویلے کئیں دی گسنی پکڑے تاں اوندی ایں ایں نکل ویندی اے‘‘ (میرے ماموں کا بیٹا بڑا تنومند جوان ہے اورجب وہ کسی کی کلائی پکڑتا ہے تو اس کی ایں ایں نکل جاتی ہے) سرائیکی وسیب کے اپنے دوست کی بات سے شاہ محمود قریشی کی خوشی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں