شاید ہمارا مقدر ہی خراب ہے۔ اس ہمارے سے مراد ہم جنوبی پنجاب والے ہیں۔ تخت لاہور والے ہماری سنتے نہیں اور اگر اس علاقے کا کوئی تمندار، کوئی گدی نشین یا وڈیرا براجمان بھی ہو جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنے علاقے کی خبر نہیں لیتا بلکہ باعث بدنامی الگ سے بن جاتا ہے۔ ملک غلام مصطفی کھر نے مظفر گڑھ کی ایک سڑک بھی نہ بنوائی۔ اپنے دور میں پنجاب کے تگڑے ترین گورنر رہے، وزیراعلیٰ رہے مگر مظفر گڑھ کی قسمت نہ بدل سکی۔ فاروق خان لغاری ملک کے صدر رہے مگر ماسوائے ڈیرہ غازی خان کے ہوائی اڈے کے کوئی کام نہ کروا سکے۔ ہوائی اڈہ بھی اس طرح بنوایا کہ وہ ڈیرہ غازی خان شہر سے دور اور ان کے رہائشی قصبے چوٹی زیریں سے زیادہ قریب تھا۔ اپنی آسانی کے لیے ہوائی اڈہ ایسی جگہ بنوایا جہاں زیر زمین پانی کڑوا تھا اور ہوائی اڈے کی پینے والے پانی کی ضروریات پورا کرنے کی غرض سے پانی کے ٹینکر ڈیرہ غازی خان سے آتے تھے۔
سید یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم رہے۔ ان کے دور اقتدار میں ملتان شہر میں ترقیاتی کام ضرور ہوئے، لیکن ان ترقیاتی کاموں کی کہانیاں ایسی ہیں کہ بندہ سنے تو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ جتنے فلائی اوور بنے اتنی کہانیاں۔ ہر کہانی کے مزید دو حصے ہیں۔ ایک حصہ کرپشن کا اور دوسرا حصہ ہر فلائی اوور کی تعمیر میں تکنیکی کمپرومائز کا۔ کرپشن کی کہانیوں کا آخری سرا ایک ڈاکٹر صاحب پر جا کر ختم ہوتا تھا‘ اور احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران اپنا آدھا وقت وزیراعظم ہائوس میں گزارنے والے ڈاکٹر موصوف کی سید یوسف رضا گیلانی سے اچھی خاصی ان بن ہو گئی؛ تاہم بعد ازاں آپس میں صلح ہو گئی۔ ایک رازدار نے بتایا کہ دونوں کے پاس صلح کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کے راز تھے۔ ہر فلائی اوور کا ڈیزائن دوستوں اور فنانسروں کی خوشنودی کی خاطر اس بری طرح تبدیل کیا گیا کہ عوامی سہولت کا اصل مقصد فوت ہو گیا؛ تاہم کمیشن بذریعہ ترقیاتی کام کا مقصد ضرور پورا ہو گیا۔ ان فلائی اوورز کی تعمیر میں کیا کیا نامعقول تبدیلیاں کی گئیں اور کیوں کی گئیں یہ معاملہ ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے؛ تاہم ان کی وجہ سے خاصے شرمندہ بھی ہوتے رہے، خصوصاً جب ترکی کے صدر طیب اردوان کی بیگم صاحبہ کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے عطیہ کیا جانے والا ہار غتربود کر لیا گیا اور بمشکل برآمد کروایا گیا۔ اور اب عثمان بزدار۔ تاہم عثمان بزدار میں ایک خصوصیت اضافی ہے کہ ان کی نااہلیت کی شہرت بہرحال ان سے منسوب دوسری کہانیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ جب لوگ باگ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور اہل اقتدار کے بارے میں منفی بات کرتے ہیں تو اس سے اتفاق کرنے کے باوجود دل پر ایک چوٹ سی ضرور لگتی ہے‘ خواہ وہ میرے مادرِ علمی فیلو عثمان بزدار ہی کیوں نہ ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنے وسیب سے تعلق رکھنے والے کے بارے میں دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں اور یہ کوئی برائی یا عیب نہیں لیکن یہ بات بھی ہے کہ لکھتے ہوئے الحمدللہ کبھی ڈنڈی بھی نہیں ماری کہ لفظ و حرف اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ دل کا نرم گوشہ اپنی جگہ پر اور کالم کے حرفوں کی حرمت اپنی جگہ پر۔ سو معاملات اسی طرح چل رہے ہیں جیسے نواب زادہ نصراللہ خان کی زبانی ریاض خیر آبادی کا شعر سنا تھا؎
جام مے توبہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
دل کا ملال بھی چل رہا ہے اور معاملات پر لکھنا بھی چل رہا ہے۔ نہ دل پر قابو ہے اور نہ حرف و قلم سے سمجھوتہ ممکن ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس لکھنے کا کوئی اثر ہوتا ہے؟ جواب اس کا بہت سادہ ہے کہ ہم عاجز بندے بھلا اپنے فرض سے بڑھ کر اور کیا کر سکتے ہیں؟ اور ہمارا فرض کیا ہے؟ محض لکھنا اور بس۔ یہی ہمارا دائرہ کار ہے اور روز قیامت اسی کے بارے میں سوال ہوگا۔ میرا مالک رحیم و کریم میری اوقات سے بڑا سوال اور میرے اختیار سے بڑھ کر ذمہ داری عائد نہیں کرے گا۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا؟
ایک دوست نے سوال کیا کہ تم ہر چار چھ کالموں کے بعد سردار عثمان بزدار کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھ مارتے ہو‘ کیا اس سے عثمان بزدار کی صحت پر کوئی اثر پڑنے کی توقع ہے؟ میں نے کہا: سچ پوچھیں تو ہرگز نہیں‘ بالکل بھی نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر قطعات کوئی امید نہیں کہ میرے لکھنے کا وزیر اعلیٰ پر یا ان کو بٹھائے رکھنے والوں پر رتی برابر بھی کوئی اثر ہوتا ہو گا لہٰذا ان کے اِدھر اُدھر ہونے کا کوئی فوری امکان کم از کم مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔ ''سہاگن وہ جو پیا من بھائے‘‘ لہٰذا جب تک عثمان بزدار کو عمران خان کی آشیرباد حاصل ہے وزارت علیا کا ہما ان کے سر پر بیٹھا رہے گا اور ہم جیسے لکھتے لکھتے بھلے ''پھاوے‘‘ ہو جائیں عثمان بزدار کی وزارت علیا کو قطعاً کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ وہ بھی اپنی کرسی پر بیٹھے رہیں گے اور ہم بھی لکھتے رہیں گے۔ بقول شاعرع
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں، میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں، میں اپنا کام کرتا ہوں
شاہ جی سدا سے شرپسند ہیں۔ مجھ سے کہنے لگے: یہ نیب نے تمہارے بزدار صاحب سے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: کرنا کیا ہے؟ فاؤل پلے کیا ہے بلکہ سراسر فائول پلے کیا ہے۔ شاہ جی نے حیران ہوکر پوچھا: فاؤل پلے کیا ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! آپ ایمانداری سے بتائیں کسی کی دکھتی جگہ پر چوٹ مارنا فائول پلے نہیں تواور کیا ہے؟ اب کسی سرکاری ادارے سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک معزز شخص کی دکھتی رگ دبائے اور کمزور جگہ پر چوٹ مارے۔ شاہ جی کہنے لگے: ایسا کرناتو نہیں چاہیے لیکن میرے دو سوال ہیں‘ پہلا یہ کہ آخر آپ کو بزدار صاحب سے اتنی محبت اور ہمدردی کیوں ہورہی ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ نیب نے کیا فائول پلے کیا ہے اور عثمان بزدار صاحب کی کون سی دکھتی جگہ پر چوٹ ماری ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ آخر سردار عثمان بزدار میرے کالج اور یونیورسٹی فیلو ہیں۔ بھلے جونیئر ہیں لیکن وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Alma mater یعنی تعلیمی ادارہ جہاں ہم زیر تعلیم رہے ہوں، وہ تو ایک ہے۔ ہمارا وسیب ایک ہے۔ ہماری محرومیاں ایک تھیں گوکہ اب ایک نہیں رہیں؛ تاہم اتنا کچھ کامن ہوتو دل میں ایک دوسرے کے محبت اور ہمدردی تو پیدا ہوہی جاتی ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب نیب کو پتا ہے کہ اپنے بزدار صاحب کا ہاتھ سوال و جواب کے سلسلے میں تنگ ہے تو پھران کو تنگ کرنے کی غرض سے اڑھائی صفحات پر مشتمل سوالنامہ بھیجنا فائول پلے نہیں تواور کیا ہے؟ آپ کو تو پتا ہے کہ اپنے بزدار صاحب پہلے بھی ایک بار لکھے ہوئے سوالات بھیجنے کے باوجود ان کے جوابات دینے سے انکاری ہو گئے تھے اور طے شدہ انٹرویو پر نہیں آئے تھے اب انہیں پھر سوالات کی لمبی فہرست پکڑانا ناانصافی، ظلم اور فائول پلے نہیں تو اور کیا ہے؟ بھلا شرفا کے ساتھ ایساکیا جاتا ہے؟ شاہ جی یہ بات سن کر مجھ سے متفق ہوگئے۔ ایک عرصے بعد ایسا ہوا ہے کہ شاہ جی اور میں ایک پیج پر ہیں۔
یہ تو ایسا ہے کہ جیسے چاند دیکھنے کا معاملہ ہو اور فواد چودھری اور مفتی منیب الرحمن ایک پیج پر ہوں۔