"KMK" (space) message & send to 7575

ہماری موٹرویز اور نیا انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم

ماشاء اللہ نئے پاکستان میں اداروں کی بہتری اور نظام کی مرمت کا کام زوروشور سے جاری ہے۔ آج (مورخہ 3 فروری) علی الصبح سکھر روانگی سے قبل اخبار اٹھاکر گاڑی میں رکھ لیے کہ راستے میں ان سے اپنے تازہ ترین علم میں اضافہ کریں گے۔ اخبار میں ایک خبر موٹروے سے متعلق تھی اور موٹروے بھی ایم فائیو، یعنی ملتان تا سکھر والی موٹروے جس پر میں محو سفر تھا۔ خبر تھی کہ آج سے ایم فائیو پر جدید ترین انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم (آئی ٹی ایس) نے باقاعدہ طور پر کام شروع کر دیا ہے اور آج سے جرمانے شروع‘ اوورسپیڈنگ اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے شہریوں اور ٹرانسپورٹرز کو اس جدید نظام کے ذریعے ٹریک کرکے بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔ ایک بار سے زائد اوورسپیڈنگ کرنے والی گاڑیوں کو موٹروے سے اتار دیا جائے گا۔ اسی خبر میں تھاکہ آج آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس ایم فائیو کا دورہ بھی متوقع ہے۔
میں نے خبر ختم کرکے ابھی اخبار ایک طرف رکھا بھی نہیں تھاکہ کیا دیکھتا ہوں موٹروے پر ایک اچھے خاصے سائز کا کتا مٹر گشت کر رہا ہے۔ قارئین! یقین کریں میں یہ منظر کشی کالم برائے کالم کی غرض سے نہیں کر رہا۔ ویسے بھی یہ منظر میرے لیے قطعاً نیا یا حیران کن نہیں تھا کہ یہ منظر اب ہر موٹر وے پر نظر آ رہا ہے۔ کیا عبدالحکیم تا لاہور ایم تھری، ملتان تا پنڈی بھٹیاں ایم فور اور کیا لاہور تا اسلام آباد ایم ٹو۔ سب کی سب موٹرویز اسی قسم کا منظرنامہ پیش کر رہی ہیں۔ ہر سفر میں کم از کم دو تین جگہوں پر کچلے ہوئے جانور نظر آتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ کچلے ہوئے جانور یا تو کتے ہوتے ہیں یا جنگلی گیدڑ۔ لیکن یہ بات تو بہرحال طے ہے کہ مرنے سے قبل وہ اپنے پائوں پر چلتے ہوئے برضا و رغبت اور بلا جبر و کراہ اس موٹروے پر آئے اور کسی گاڑی کا ''کونڈا‘‘ کرنے کے بعد اس خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے۔ یہ موٹروے پر آ کر چہل قدمی کرنے والے انہی آزاد منش جانوروں کی لاشیں ہوتی ہیں۔
موٹروے پر زندہ گھومتے ہوئے کتے اور مرے ہوئے جانوروں کی لاشیں یہ ثابت کرنے کے لیے بہرحال کافی ہیں کہ ان جانوروں کو موٹروے پر آنے کی حد تک تو کھلی چھوٹ اور آزادی ہے۔ اگر کسی گاڑی سے ٹکرا کر کوئی کتا یا گیدڑ مر جائے تو یہ اس کی اپنی بد قسمتی ہے وگرنہ اس میں کسی جدید آئی ٹی ایس کا نہ تو کوئی قصور ہے اور نہ ہی کوئی عمل دخل۔
تین ہفتے قبل ہم چند دوست ایک جگہ اکٹھے بیٹھے تھے۔ شفقت بلوچ نے بتایا کہ کل موٹروے سے واپسی پر عبدالقادر کی نئی سپورٹیج گاڑی شورکوٹ کے قریب حادثے کا شکار ہو کر تباہ ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے تو چھوٹتے ہی میں نے پوچھا کہ قادر وغیرہ تو ٹھیک ہیں نا! شفقت نے بتایا کہ اللہ نے بڑا کرم کیا اور وہ لوگ بالکل محفوظ رہے؛ البتہ گاڑی کا انجن، ریڈی ایٹر، بمپر، ایئر کنڈیشننگ سسٹم اور سسپینشن تباہ ہو گئے اور مرکزی فریم سارا ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا: حادثہ کیسے ہوا۔ شفقت نے بتایا کہ وہ لوگ شور کوٹ انٹرچینج کے قریب اپنی مقررہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رہے تھے کہ بالکل اچانک ایک طرف سے ایک بہت بڑے سائز کا کتا عین ان کی گاڑی کے سامنے آ گیا۔ انہوں نے بریک لگانے کی بھی پوری کوشش کی اور یہ بھی کہ گاڑی اس پر الٹ ہی نہ جائے۔ اسی دوران ان کی گاڑی اچھی خاصی رفتار سے کتے سے ٹکرائی، کتا اس خود کش حملے میں گاڑی کو پوری طرح برباد کرنے کے بعد ہلاک ہو گیا۔ یہ ہے ساری کہانی۔
صبح والی خبر میں سارا زور بھاری جرمانے پر اور ایک سے زائد بار اوور سپیڈنگ کرنے والے کو موٹروے سے اتارنے پر تھا۔ اس سارے آئی ٹی ایس میں کسی موٹروے پر گاڑی اور گاڑی چلانے والے کی حفاظت کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ موٹروے کے ناقص حفاظتی انتظامات کے باعث گاڑی کو ہونے والے مالی اور ڈرائیور کو ہونے والے کسی قسم کے جسمانی اور جانی نقصان کی Compensation کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اوورسپیڈنگ پر موٹروے سے گاڑی کو اتارنے کا ذکر تو ہے لیکن کتوں اور گیدڑوں کو موٹروے پر آنے سے روکنے کا کوئی طریقہ کار طے نہیں کیا۔
اسی خبر میں موٹروے کے ایم فائیو سیکشن پر ٹیکس اور جرمانہ جمع کرنے کی غرض سے مزید گاڑیوں کے علاوہ ستر افراد کی نفری بھرتی کرنے کا ذکر تھا‘ اور اس نفری کو عنقریب نوے تک پہنچانے کے عزم کا اظہار بھی، لیکن موٹروے پر گھومتے ہوئے اردگرد کے دیہات کے نوجوانوں کو روکنے کا کوئی ضابطہ نہیں تھا۔ آج صبح ملتان سے سکھر آتے ہوئے گدو انٹرچینج کے قریب تین لڑکے موٹروے کے ہارڈ شولڈر پر سیلفی لینے میں مصروف تھے۔ اس پورے نئے انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم میں ایسی کسی ذمہ داری کا ذکر نہیں تھا جس سے موٹر وے پر سفر کرنے والوں کے نقصان کو تحفظ دیا گیا ہو۔ اس سارے سسٹم کا واحد کام یہی نظر آ رہا تھا کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ جرمانے کی رقم وصول کی جا سکتی ہے۔
موٹروے پر ٹال ٹیکس دراصل آپ کو فراہم کی جانے والی تمام تر سہولتوں کا عوضانہ ہوتا ہے۔ اس میں جنگلے کی حفاظت کا خرچہ اور سڑک کو ہموار اور آرام دہ رکھنے کا خرچہ بھی شامل ہے۔ محفوظ سفر کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات اور راستے میں آنے والی آرام گاہوں پر فراہم کی گئی سہولیات بھی اس ٹال کی رقم میں شامل ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ٹال کی رقم تو پوری کاغذی سہولیات کو مد نظر رکھ کر وصول کی جا رہی ہے اور حقیقت میں دی جانے والی سہولیات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ راستے میں ایک جگہ رک کر ناشتہ کیا تو دو عدد پراٹھے، دو پلیٹ چنے، ایک کافی اور دو چائے کا بل ایک ہزار روپے سے زائد بنا اور ناشتے کے معیار کے بارے اس لیے کچھ نہیں کہا کہ رزق کے بارے میں منفی گفتگو کرنے پر دل نہیں مان رہا۔ اعظم پور کے ریسٹ ایریا میں رک کر واش روم گئے تو پانی ندارد۔ مسجد کے ساتھ والے واش رومز بند تھے۔ وہاں لگے ہوئے ایک پینافلیکس پر دیے گئے نمبروں پر اس سروس ایریا کے آپریٹر سے بات کی تو اس نے کہا کہ چینیوں نے یہ کام کرنا تھا اور وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسرا نمبر پروجیکٹ ڈائریکٹر کا تھا۔ اسے فون کیا تو موصوف فرمانے لگے کہ وہ اس وقت کسی میٹنگ میں مصروف ہیں اور مجھے کہا کہ دوبارہ کسی وقت ان کو فون کروں۔ میں نے کہا: جناب! یہ آپ کی ڈیوٹی کے بارے میں فون ہے، کیا مناسب نہ ہوگا کہ جب بھی آپ کے پاس وقت ہو مجھے جوابی فون کریں؟ اپنی جان چھڑواتے ہوئے کہنے لگے: اچھا جی! کر دوں گا۔ اب دن ڈھلے یہ کالم لکھ رہا ہوں مگر پروجیکٹ ڈائریکٹر صاحب شاید میٹنگ سے ابھی تک فارغ نہیں ہوئے۔
اصولی طور پر موٹر وے انتظامیہ عبدالقادر کی گاڑی کی تباہی کی براہ راست ذمہ دار ہے اور اس کی گاڑی کو ورکشاپ والے ٹوٹل ڈیمیج کی کیٹیگری میں ڈال چکے ہیں اور اس کے تمام تر نقصان کی ادائیگی کرنا موٹر وے انتظامیہ کی اخلاقی نہیں بلکہ قانونی ذمہ داری ہے اور صرف عبدالقادر کی گاڑی ہی کیا؟ موٹروے پر حفاظتی انتظامات کی عدم فراہمی کے باعث تمام گاڑیوں کو پہنچنے والے تمام تر نقصانات کی ادائیگی کی ذمہ داری موٹروے انتظامیہ پر ہے کہ وہ ان کے عوض ہر گاڑی سے ٹال ٹیکس وصول کرتی ہے اور یہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد اس گاڑی کو کم از کم موٹر وے پر آوارہ پھرتے ہوئے جانوروں سے ٹکرانے کے باعث ہونے والے نقصان کی ادائیگی وصول کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ لیکن یہ مہذب ملکوں کا شیوہ ہے اور شاید ہم ابھی ایسی فہرست میں شامل نہیں جنہیں مہذب ممالک کا درجہ حاصل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں