"KMK" (space) message & send to 7575

سینیٹ کا الیکشن اور سید یوسف رضا گیلانی کا لٹمس پیپر

جس طرح اس ملک کے کسی عام آدمی کو سینیٹ کے حالیہ الیکشن سے براہ راست کچھ لینا دینا نہیں ہے، اسی طرح مجھے بھی اس سارے معاملے سے کچھ مطلب نہیں؛ تاہم، جہاں باقی قوم اس معاملے پر چسکے لے رہی ہے، میرے لیے کون سی پابندی ہے؟ نہ مجھے غیب کا علم ہے اور نہ ہی میں نے سینیٹ کے لیے درکار ووٹوں کے حساب سے کسی کی جیت یا ہار کا اندازہ لگایا ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ ملک عزیز میں وہی سب سے زیادہ شور مچاتا ہے جسے مستقبل میں کچھ خراب ہوتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہے۔ فی الوقت سب سے زیادہ جوش و خروش اور گرمی پی ٹی آئی کو چڑھی ہوئی ہے اور اس کا سارا زور صاف اور شفاف اوپن بیلٹ الیکشن پر ہے۔ مطالبے سے تو مجھے رتی برابر اختلاف نہیں؛ تاہم ماضی کے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہمارا سارا سیاسی کلچر ذاتی مفادات کے گرد گھومتا ہے اور اس میں اخلاقیات، قانون، قاعدہ، ضابطہ اور آئین اپنی زبانی کلامی موجودگی کے علاوہ عملی طور پر کبھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہی حال اس وقت سینیٹ کے آئندہ انتخابات کے معاملے میں نظر آ رہا ہے۔
جب پی ٹی آئی نے سینیٹ کے الیکشن آئین سے ہٹ کر اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا شوشہ چھوڑا تھا، میرا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ بارہ مارچ 2018ء کو جب صادق سنجرانی، محیرالعقول طور پر ٹھیکیداری کرتے کرتے اچانک سینیٹ کے چیئرمین بنے تب تو کسی کو اوپن بیلٹ کا خیال نہیں آیا تھا‘ لیکن اس بات کو چھوڑ دیں کہ تب عملی طور پر پی ٹی آئی کے پاس نہ تو حکومت تھی اور نہ ہی سینیٹ میں اکثریت تھی کہ وہ اس الیکشن کو اپنی مرضی سے کروانے پر قادر ہوتی، لیکن جب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تب تو تحریک انصاف حکومت میں تھی۔ آخر انہیں تب اوپن بیلٹ کے ذریعے یعنی شو آف ہینڈ سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا خیال کیوں نہ آیا؟ اس کی صاف وجہ یہ تھی کہ تب (اور اب بھی) حکومتی اتحاد کو ایک سو چار ارکان کے ہائوس میں صرف تینتالیس ارکان کی حمایت حاصل تھی جبکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس اکسٹھ ارکان تھے۔ ظاہر ہے اوپن بیلٹ ہوتا تو صادق سنجرانی کی چیئرمینی کا دھڑن تختہ ہو جاتا۔ تحریک انصاف نے تب اخلاقیات، اعلیٰ روایات اور ہارس ٹریڈنگ جیسی لعنت کا ذکر تو کیا، اشارہ تک بھی نہ کیا۔ تب اپوزیشن شور مچاتی رہی کہ شو آف ہینڈ کروایا جائے مگر تب حکومت نے کان لپیٹ لیے اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے اپوزیشن کے کیمپ میں موجود چونسٹھ کی یقینی تعداد کو گھسیٹ کر نیچے لاتے ہوئے پچاس کر دیا اور اس میں سے بھی پانچ ووٹ تکنیکی طور پر اپنے ہی حق میں استعمال کروا لیے۔ ان پانچ مسترد ووٹوں کے بعد تحریک عدم اعتماد والوں کو پینتالیس ووٹ ملے اور یہ معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔
سینیٹ کے کل ایک سو تین ووٹوں میں سے تین غیر حاضر رہے، پانچ مسترد ہو گئے اور پینتالیس ووٹ سنجرانی کے خلاف پڑے۔ اگر پانچ مسترد ووٹ بھی سنجرانی کے خلاف تصور کیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنجرانی مخالف اتحاد میں سے چودہ ووٹ کھسکا لیے گئے۔ یہ صاف صاف ہارس ٹریڈنگ تھی اور اس کی واحد وجہ خفیہ ووٹنگ تھی‘ لیکن تب عمران خان صاحب کو شو آف ہینڈ یاد نہ آیا اور اب وہ اعلانیہ ووٹنگ کو عین جمہوریت قرار دینے پر تلے کھڑے ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس بار حکمران پارٹی کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ہاتھ دکھانے کے چکر میں ہیں۔ اگر اس بار بھی خان صاحب کو یہ یقین ہوتا کہ وہ مخالفین کے بندے توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یقینا وہ حسب سابق خفیہ ووٹنگ کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیتے مگر اس بار صورتحال مختلف ہے اور تحریک انصاف والوں کو اپنے ووٹ ٹوٹنے کا خوف لاحق ہے، لہٰذا اب انہیں ہارس ٹریڈنگ کا بھی خیال آ رہا ہے اور شو آف ہینڈ کی خوبیاں بھی نظر آ رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں میں دوستوں کی محفل میں تھا۔ وہیں میری ملاقات وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری سے ہوئی۔ وہ بڑے مزے کے آدمی ہیں اور شاندار گفتگو کرتے ہیں۔ ان سے پرانی یاداللہ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا: قاری صاحب! ماشاء اللہ آپ وفاق المدارس کے مدارالمہام ہیں اور بلاشبہ دیوبندی مکتب فکر کی نمائندہ تنظیم کے گزشتہ بائیس سال سے جنرل سیکرٹری ہیں‘ یہ بات سو فیصد واضح ہے کہ وفاق المدارس العربیہ دیوبندی مکتب فکر کے مدارس پر مشتمل تنظیم ہے اور مولانا فضل الرحمن اب دیوبندیوں کے غیر متنازعہ لیڈر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور وفاق المدارس العربیہ یعنی دیوبندی سیاست اور مدارس بظاہر ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہیں‘ ان کے جلسوں اور جلوسوں کی تمام تر رونق انہی مدرسوں کے طلبہ اور اساتذہ کی مرہون منت ہے۔ ایک صاحب کہنے لگے، آپ کے یہ کہنے سے کیا مراد ہے کہ مولانا فضل الرحمن دیوبندیوں کے غیر متنازعہ لیڈر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں؟ میں ہنسا اور کہا کہ قاری صاحب کو میری بات خوب اچھی طرح سمجھ آ گئی ہے۔ اب وہ لوگ بھی مولانا صاحب کے آگے سرنڈر کر چکے ہیں جو کبھی ان کو دیوبندیوں کا قائد تصور نہیں کرتے تھے۔ اب ان کا نام کیا لینا‘ لیکن میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو کبھی ان کے ناقد ہوتے تھے اور اب دل میں موجود اپنے تحفظات کے باوجود ان کی قیادت پر متفق ہو چکے ہیں، خواہ بادل نخواستہ ہی سہی، مگر اب وہ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
خیر میں نے قاری صاحب سے پوچھا کہ سنا ہے مولانا فضل الرحمن وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی صدارت کے امیدوار ہیں۔ کیا یہ سچ ہے؟ قاری صاحب جواباً صرف مسکرا کر بات کو ٹال گئے۔ پھر کہنے لگے: ویسے اس میں حرج ہی کیا ہے؛ تاہم اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کی بات کی تصدیق کر رہا ہوں۔ میں بھی جواباً ہنسا اور انہیں کہا: ویسے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ میں آپ کی بات سے مطمئن ہو گیا ہوں۔ میرا دل کیا‘ ان سے پوچھوں کہ مولانا اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، نظام کو الٹانے کے درپے ہیں اور اپنے بھائی عطاالرحمن کو سینیٹ میں بھیجنے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وہ خود سینیٹ کا الیکشن کیوں نہیں لڑ لیتے؟ اس طرح ان پر اقتدار سے دوری کے باعث جو صدماتی کیفیت طاری ہے وہ بھی دور ہو جائے گی مگر میں نے یہ سوال اس لیے نہ پوچھا کہ وہ تو وفاق المدارس کی صدارت پر کوئی بیان نہیں دے رہے، سینیٹ کے معاملے میں کیا بتائیں گے؟
ادھر ملتان میں ایک افواہ بڑی گرم تھی کہ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کا الیکشن لڑنے والے ہیں اور وہ پی ڈی ایم کی طرف سے سینیٹ کے اگلے چیئرمین کے امیدوار ہوں گے؛ تاہم شاہ جی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بلکہ زرداری صاحب نے انہیں اسلام آباد سے نامزد کر کے ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ کر لیا ہے۔ پہلا یہ کہ انہیں تحریک عدم اعتماد کے لیے درکار ووٹوں کے بارے میں حقیقی صورتحال کا اندازہ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ انہیں یہ پتا چل جائے گا کہ گھوڑے ہانکنے والے کوچوان کس کے ساتھ ہیں۔ میں نے کہا: شاہ جی! اس بات سے آپ کی کیا مراد ہے؟ شاہ جی نے پہلے مجھے خفگی سے گھورا اور پھر کہنے لگے: بھائی صاحب! زیادہ بھولا بننے کی ضرورت نہیں، حفیظ شیخ جن کے بندے ہیں اس کا سب کو اندازہ ہے اور تمہیں بھی علم ہے۔ اب تم یوں سمجھو کہ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے الیکشن میں زرداری صاحب کے لیے لٹمس پیپر کے فرائض سرانجام دیں گے۔ تم نے تیزاب اور الکلی کی پہچان کرنے والے نیلے اور گلابی رنگوں والے لٹمس پیپر کا نام تو سنا ہی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں