"KMK" (space) message & send to 7575

پانچ چھ دن کا میلہ

میرا خیال تھا کہ چولستان جیپ ریلی پر ایک کالم کافی ہو گا لیکن کئی قارئین نے بذریعہ ای میل اس کی مزید کچھ تفصیلات کے بارے میں لکھا اور اس سلسلے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سے اکثر اصحاب نے دراوڑ پہنچنے کا طریقہ، راستہ، رہائشی سہولیات اور ریلی کے بارے میں مزید باتیں معلوم کی ہیں۔
یہ ریلی ماہ فروری کے وسط میں ہوتی ہے جب صحرا میں دن گرم ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن رات بدستور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ ریلی بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے لگ بھگ پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر قلعہ دراوڑ کے قریب ہوتی ہے۔ قلعہ دراوڑ کا قدیم نام ڈیراور ہے لیکن یہ دراوڑ کے نام سے مشہور ہے۔ دراوڑ جانے کا راستہ احمد پور شرقیہ سے جاتا ہے اور احمد پور شرقیہ پہنچنے کیلئے دو راستے مستعمل ہیں‘ ایک بذریعہ ملتان سکھر موٹروے اور دوسرا بہالپور تا رحیم یار خان نیشنل ہائی وے کے ذریعے سے۔ بذریعہ موٹروے جائیں تو اس کیلئے آپ جھانگڑہ انٹرچینج سے اتر سکتے ہیں اور اُچ شریف انٹرچینج سے بھی اتر سکتے ہیں۔ گزشہ سال میں جھانگڑہ انٹرچینج پر اترکر احمد پور شرقیہ پہنچا تھا؛ تاہم راستے کی سڑک خاصی خراب تھی اس لیے انس خان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں اس بار اچ شریف انٹرچینج پر اترا تھا اور یہ راستہ نسبتاً کافی بہتر تھا۔ لاہور اور ملتان کی سمت سے آئیں تو جھانگڑہ انٹرچینج پہلے آتا ہے۔ وہاں سے ہتھیجی اور پھر احمد پور شرقیہ پہنچ جائیں گے۔ یہ راستہ تقریباً تیس کلومیٹر ہے لیکن سنگل سڑک اور آبادیوں کی وجہ سے وقت زیادہ لگ جاتا ہے۔ جھانگڑہ کے بجائے اچ شریف انٹرچینج پر اتریں تو موٹروے کا راستہ تقریباً پچیس کلومیٹر مزید بڑھ جاتا ہے اور وہاں سے احمد پور شرقیہ آگے پچیس کلومیٹر ہے‘ یعنی براستہ اُچ شریف راستہ تقریباً بیس کلومیٹر زیادہ ہے لیکن وقت کے حوالے سے یہ راستہ زیادہ مناسب ہے۔
احمد پور شرقیہ سے دراوڑ جانے کیلئے عام دنوں میں تو شاید اجنبی کو راستہ دریافت کرنا پڑے، لیکن ریلی کے دنوں میں احمد پور شرقیہ سے ہی استقبالی بورڈ رہنمائی والے سائن اور تہنیتی ہورڈنگز راستے کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔ احمد پور شر قیہ سے کنڈے والی پل، وہاں سے قلعہ دراوڑ اور پھر سمجھ لیں کہ آپ ریلی کے عین درمیان میں پہنچ چکے ہیں۔ پہلے یہ ریلی قلعہ دراوڑ کے سامنے میدان سے شروع ہوتی تھی، لیکن شرکا کی تعداد بہت زیادہ ہو جانے کے باعث سٹارٹنگ پوائنٹ اور کوالی فائنگ رائونڈ یہاں سے شفٹ کرکے دل وش سٹیڈیم کے پاس لے گئے ہیں۔ یہ سٹیڈیم احمد پور شرقیہ سے آتے ہوئے دراوڑ سے چھ سات کلومیٹر پہلے برلبِ سڑک واقع ہے۔ بظاہر تو اس ریلی کا سٹارٹنگ پوائنٹ دل وش سٹیڈیم میں ہے لیکن حقیقتاً اصلی والا سٹارٹنگ پوائنٹ اس سے تیس چالیس کلومیٹر دور صحرا کے اندر ہے اور یہ صرف عوام کی جانب سے کی جانے والی مسلسل بے احتیاطی، بدانتظامی اور بدنظمی ہے‘ جس کے باعث یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
موج میلے کے لیے آنے والے ارد گرد کے دیہاتی تو ایک طرف رہے، اچھے خاصے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی بدنظمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی جان داؤ پر لگاتے ہیں بلکہ ریلی کے ڈرائیوروں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہوئے ان کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اونچے نیچے اور ریتلے راستے پر انتہائی تیز رفتاری سے چلنے والی ریس کی گاڑیوں کے لیے سٹارٹنگ پوائنٹ پر موجود شتر بے مہار ہجوم کو تو کسی نہ کسی طرح پولیس کے ذریعے بمشکل قابو کر لیا جاتا ہے لیکن سارے ٹریک پر جو گزشتہ سالوں میں کل ملا کر پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ لمبا بنتا تھا، لوگ باگ اپنی موٹر سائیکلیں، کاریں اور جیپیں دوران ریلی بھگاتے رہتے ہیں اور کئی بار حادثات کا باعث بن چکے ہیں، اس بار یہ ٹریک تھوڑا فاصلہ کم کرکے چار سو کلومیٹر کے لگ بھگ بنایا گیا تھا۔ اب ظاہر ہے اس سارے ٹریک کو جو پورے صحرائے چولستان سے گزرتا ہے ان دخل در معقولات کرنے والے شوقیہ خطروں کے کھلاڑیوں سے محفوظ رکھنا ممکن ہی نہیں، سوائے اس کے کہ لوگ خود اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور بے مقصد ایڈونچرز کے باعث سارے حفاظتی انتظامات کو تباہ نہ کریں۔
ریس میں حصہ لینے والی گاڑی خواہ تیار شدہ ہو یا سادہ گاڑی‘ اس کے اندر حفاظتی جنگلہ یعنی رول کیج لگانا لازمی ہے۔ گاڑی کے الٹنے یا کسی اور حادثے کی صورت میں سٹیل پائپ سے بنا ہوا یہ اندرونی حفاظتی فریم ڈرائیوروں کی حفاظت میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ خصوصی سیٹ بیلٹس اور ڈرائیور و معاون ڈرائیور کیلئے حفاظتی لباس اور ہیلمٹ پہننا لازمی ہے۔ سمجھدار ڈرائیور ریلی سے پہلے روٹ پر ریکی کرتے ہیں اور راستے میں آنے والی مشکل اور خطرناک جگہوں کو ذہن نشین کر لیتے ہیں۔
گزشتہ سال اس ریلی کا کل روٹ پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ لمبا تھا؛ تاہم کورونا کی وجہ سے حفاظتی نقطہ نظر کے تحت اس سال یہ روٹ کم کرکے تقریباً چار سو کلومیٹر کر دیا گیا تھا۔ یہ ریلی دو مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلے دن یہ قلعہ دراوڑ سے شروع ہوئی اور مڈ بریک (درمیان میں چند منٹ کے وقفے کا مقام) جام گڑھ (ضلع بہاولنگر) سے ہوتی ہوئی دوبارہ قلعہ دراوڑ پر آ کر ختم ہوئی۔ دوسرا مرحلہ تیسرے دن تھا اور یہ بھی قلعہ دراوڑ سے (بظاہر) شروع ہوا اور سوڈکا سے ہوتا ہوا دوبارہ قلعہ دراوڑ پر ختم ہوا۔ اصل سٹارٹنگ پوائنٹ صحرا کے اندر ہے اور ظاہر ہے وہاں کاروں اور موٹرسائیکلوں پر پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے‘ اس لیے ڈرائیور حضرات اصل دوڑ وہاں سے شروع کرتے ہیں۔ جیپ ڈرائیور بھی آسانی میں رہتے ہیں اور عام لوگ بھی اس جعلی سٹارٹنگ پوائنٹ پر اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں۔ تیار شدہ اور سادہ گاڑیوں کی چار چار کیٹیگریز ہیں جن کو پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں میں مزید منقسم کیا گیا ہے۔ تیار شدہ اور عام سادہ ڈیزل گاڑیوں میں اٹھارہ سو سی سی تک ڈی، اٹھارہ سو ایک سے ستائیس سو سی سی تک سی، ستائیس سو ایک سے پینتیس سو سی سی تک بی اور پینتیس سو سی سی سے اوپر کسی حد کے بغیر اے کلاس ہوتی ہے۔ اسی طرح تھوڑے سے فرق سے پٹرول گاڑیوں میں یہی چار کلاسیں ہیں۔
رہائش کیلئے پی ٹی ڈی سی ریلی کے دنوں میں یہاں ''ٹینٹ سٹی‘‘ کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دراوڑ میں ان کے پختہ کمرے بھی ہیں جو ظاہر ہے سال میں ایک بار ہونے والے اس ایونٹ کو نہیں سنبھال سکتے۔ انکی بکنگ ویب سائٹ پر کروائی جا سکتی ہے‘ لیکن ظاہر ہے شرکا کی تعداد کے مقابلے میں محدود تعداد میں یہ کمرے نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ہر شخص انکا کرایہ بھی ادا نہیں کر سکتا۔ بے شمار لوگ رہائش کیلئے اپنے خیمے ہمراہ لاتے ہیں جو دوسے لے کر پندرہ بیس تک افراد کیلئے کافی ہوتے ہیں؛ تاہم ریلی کے دنوں میں بنیادی مسئلہ پانی اور واش رومز کا ہے جو ہر خیمے والے کو چاہیے ، لیکن میسر نہیں۔ شوقین لوگ ان برے حالات میں بھی جوق در جوق آتے ہیں اور ہر طرح کی تکلیف اٹھانے کے باوجود خوشی خوشی اگلے سال پھر آ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹی ڈی سی پی کو مغربی ممالک کی طرح یہاں ازخود ٹینٹ لگانے کے ساتھ ساتھ کیمپنگ سائٹ بنانی چاہیے جہاں ٹوائلٹس، باتھ رومز اور بجلی میسر ہو تو دور دراز سے آنے والے شرکا بہتر طریقے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اس سائٹ کو استعمال کرنے والوں سے معقول کرایہ بھی لیا جائے تو فریقین اس سے بخوشی بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ آنے والے ٹینٹ، سلیپنگ بیگ اور کپڑے ساتھ لائیں اور اس ایونٹ کو انجوائے کریں۔ کھانے پینے کے سلسلے میں ان دنوں بہت سی دکانیں سج جاتی ہیں، جن میں مشہور ریسٹورنٹس بھی شامل ہیں۔ اگر حکومت تھوڑی سی سہولیات کا بندوبست کردے تو پانچ چھ دن پر مشتمل یہ ''میلہ‘‘ عالمی سطح پر لوگوں کو متوجہ کر سکتا ہے اور اپنی جانب کھینچ بھی سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں