"KMK" (space) message & send to 7575

گندم کی فصل، اسلام آبادی نہلے اور لاہوری دہلے

ملتان سے موٹروے پر اچ شریف تک عموماً اور احمد پور شرقیہ سے دراوڑ تک خاص طور پر سڑک کے دونوں طرف لہلہاتی فصلوں نے جی خوش کر دیا۔ کنڈے والے پل سے دل وش سٹیڈیم تک تو گویا سبزے کی ایک چادر تھی جو حد نگاہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں عموماً ان دنوں میں رایا اور توریا کی فصل بکثرت کاشت ہوتی تھی، لیکن اس بار بیشتر زمین پر گندم کاشت ہوئی تھی اور اللہ نظر بد سے بچائے بڑی شاندار اور بھرپور فصل کی اٹھان دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ گزشتہ سال گندم کے کاشتکار کو کسی ذلت اور خواری کے بغیر اس کی فصل کی کسی حد تک مناسب قیمت مل گئی تھی‘ جس سے کاشتکار کا حوصلہ بڑھا اور اس سال اس نے گندم کی فصل پر اپنی بھرپور صلاحیتیں صرف کر دی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس سال مجھے اپنے مالک کے گھر سے یقین ہے کہ گندم کی بمپر کراپ حاصل ہوگی۔
سڑک کے دونوں طرف گندم کے پودے کا قدوقامت اور خوشے بتا رہے تھے کہ یہ اگیتی کاشت کی فصل ہے۔ گو کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سڑک کے کنارے کھلے ہوئے پیلے پھولوں کی بہار یہ بتا رہی تھی کہ یہاں کے کاشتکاروں نے اپنی روایتی فصل رابا اور توریا بھی کافی رقبے میں کاشت کی ہے مگر اس کا گندم سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ سرسبز، بھرپور، قدآور۔ اوپر سے فی ایکڑ پودوں کی مقدار بھی خوب تھی۔ فصل کی شکل بتا رہی تھی کہ کاشت کرنیوالے نے اس پر جان تو خیر سے ماری ہی‘ اچھا خاصا خرچہ بھی کیا ہے۔
سب سے پہلی بہتری تو یہ نظر آتی ہے کہ کاشتکار نے بیشتر گندم بروقت، یعنی ماہ نومبر میں کاشت کر لی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گندم کی بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے لیے اسے یکم نومبر تا تیس نومبر (پنجاب میں) کاشت کر لیا جائے۔ بصورت دیگر یعنی تاخیر ہونے پر نہ صرف یہ کہ اس کی پیداوار دس من فی ایکڑ تک کم ہو سکتی ہے‘ فی ایکڑ بیج بھی پچاس کے بجائے ساٹھ کلوگرام ڈالنا پڑے گا۔ پاکستان میں گندم کا کل کاشتہ رقبہ دو کروڑ پینتیس لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ ہے جس میں سے صرف پنجاب میں ایک کروڑ اسی لاکھ ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے۔ اگر گندم بروقت کاشت ہو، بیج اچھا ہو، کسی قدرتی آفت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پیداواری مداخل پورے ڈالے جائیں تو گندم کی پیداوار پچاس من فی ایکڑ کے لگ بھگ آنی چاہیے لیکن آج بھی ہماری ملکی اوسط پیداوار اٹھائیس سے تیس من فی ایکڑ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار جھوٹ کے پلندے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
پاکستان میں گندم کے علاوہ دیگر فصلات کی اوسط پیداوار بھی زرعی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم دالیں، کپاس، چینی اور خوردنی تیل کے علاوہ بسا اوقات گندم تک درآمد کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے گندم کی درآمد پر جتنی فالتو رقم صرف کی اگر اس کا آدھا بھی براہ راست پاکستانی کاشتکار کو دے دیتے تو وہ اس ملک کو گندم میں خود کفیل کر دیتا، لیکن یہ رقم اپنے کاشتکار کو دینے کے بجائے یوکرائن کے کاشتکاروں کی جیب میں ڈال دی گئی۔ گزشتہ سال یوکرائن سے تقریباً بارہ لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی۔ اس درآمد کردہ گندم کی اوسط قیمت 238 ڈالر فی ٹن تھی یعنی یہ گندم تقریباً ساڑھے پندرہ سو روپے من خرید کی گئی۔ نقل و حمل کا خرچہ اس کے علاوہ تھا، جبکہ ملک میں گزشتہ سال گندم کی خرید کا سرکاری ریٹ 1350 روپے فی من تھا۔ یہ ریٹ نومبر 2020 میں بڑھا کر 1650 روپے فی من کر دیا گیا‘ مگر وہی معاملہ کہ جل چکا جب کھیت، مینہ برسا تو پھر کس کام کا؟ اس بے وقت کی راگنی کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ کاشتکار تب تک دیگر فصلات کی کاشت مکمل کر چکے تھے۔ اس بار بھی حکومت نے وہی حماقت کی اور گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 1650 روپے فی من سے 1800 روپے فی من تو کر دیا لیکن یہ کام ایک بار پھر غلط وقت پر کیا۔ گندم کی کاشت نومبر میں ہو چکی تھی اور امدادی قیمت میں اضافے کا اعلان دو ہفتے قبل مورخہ تیرہ فروری 2021 کو کیا‘ یعنی جب گندم کی فصل کو کاشت ہوئے اڑھائی ماہ گزر چکے تھے، حکومت پنجاب کو خیال آیا کہ ریٹ بڑھا دیا جائے۔ اگر یہی ریٹ نومبر میں گندم کاشت ہونے سے پہلے بڑھا دیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ گندم کا کاشتہ رقبہ بڑھ جاتا بلکہ اچھی قیمت کے باعث کاشتکار پیداواری مداخل بھی بڑھا دیتا جس کا نتیجہ گندم کی ملکی پیداوار میں اضافے کی صورت میں نکلتا‘ مگر خدا جانے یہ کون عقلمند ہیں جو اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور انہیں یہ تک علم نہیں کہ گندم کی فصل کب کاشت ہوتی ہے اور اس کے کاشتکاروں کو ترغیب دینے کیلئے قیمت میں اضافے کا اعلان کب کیا جانا چاہیے۔ صورتحال یہ ہے کہ گندم و دیگر فصلات کی سپورٹ پرائس بڑھانے کا اختیار ای سی سی کے پاس ہے اور اس میں نیشنل فوڈ سکیورٹی کے وفاقی وزیر سید فخر امام کی نہیں چلتی بلکہ سارا اختیار رزاق دائود اور حفیظ شیخ اینڈ کمپنی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے‘ جنہیں یہ تک علم نہیں کہ بیر کا سر کس طرف ہوتا ہے اور پائوں کدھر ہوتے ہیں۔
فی الوقت صورتحال بہت اچھی ہے۔ رقبہ بھی ٹھیک ٹھاک کاشت ہوا ہے، محنت بھی بھرپور کی گئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسی پچاسی فیصد گندم بروقت یعنی نومبر کے دوران کاشت ہوئی ہے اور اگیتی فصل ہونے کے باعث وہ اب تک اپنی شکل و صورت اور رنگ روپ نکال چکی ہے‘ جو بہت ہی حوصلہ افزا ہے اور میں امید کر سکتا ہوں کہ اس سال شاید ریکارڈ پیداوار حاصل ہو جائے کہ ابھی تک گندم کی پیداوار کو نقصان پہنچانے والی بیماری RUST کا کہیں بھی شدید دبائو نظر نہیں آیا۔ گندم کی نئی ورائٹیوں نے اس بیماری کے خلاف بھرپور مدافعت کا ثبوت دیا ہے لیکن صرف ایک بات کا ڈر ہے اور وہ ہے موسم۔
اس سال فروری کے آخر میں ہی موسم خلاف معمول جلد گرم ہو گیا ہے اور اب سارا دارومدار مارچ کے مہینے کے دوران درجہ حرارت پر ہے۔ اگر (خدانخواستہ) موسم گرم ہو گیا تو گندم کی Lodging ہو سکتی ہے یعنی گندم کا پودا اپنے پائوں پر کھڑا رہنے کے بجائے گر جائے یا لیٹ جائے تو پیداوار میں قابل ذکر کمی ہو جاتی ہے اور زیادہ گرمی یا طوفانِ بادوباراں کی صورت میں گندم کی فصل گر جاتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ کاشتکار کی محنت اکارت نہ جائے‘ یوں اس کی بھرپور فصل جہاں اس کے گھر کا خرچہ چلانے میں ممدومعاون بنے گی‘ وہیں بائیس کروڑ لوگوں کو ان کی خوراک کی بنیادی جنس میسر آئے گی اور ملک کا زرمبادلہ بھی بچے گا۔
لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ملک سے گندم سمگل نہ ہو جائے۔ گزشتہ سال یہ عالم تھاکہ پنجاب کے اندر سیڈ کمپنیاں اپنا گندم کا بیج کھیت سے گوداموں تک لانے کیلئے ڈپٹی کمشنر کے ترلے لیتی رہیں اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی منتیں کرتی رہیں‘ لیکن پنجاب سے خیبرپختونخوا اور وہاں سے افغانستان گندم کے سمگلروں کی موجیں لگی ہیں‘ اور کسی مائی کے لعل میں اتنی جرأت نہ ہوئی کہ ان کو روکنا تو کجا، ان سے پوچھ تاچھ ہی کر سکتا۔ اب اس سال کیا پنجاب حکومت یہ سمگلنگ روک پائے گی؟ جب میں صبح اخبار میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی فوٹو دیکھ کر خود سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ بندہ یہ کام کر پا ئے گا؟ یقین کریں میرا اپنے اس سوال پر ازخود ہاسا نکل جاتا ہے۔ میں نے ایک دو بار دل کو دم دلاسا دینے کی کوشش کی ہے کہ کوئی مثبت جواب مل جائے مگر سارا دم دلاسا بے کار چلا گیا۔ سرکار نے اسلام آباد میں نہلے اور لاہور میں دہلے بھرتی کر رکھے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں