"KMK" (space) message & send to 7575

سردار عثمان بزدار کا شکریہ

شاہ جی بادشاہ ہیں‘ دل کرے تو کسی کا تختہ کردیں اور دل میں آئے تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیں۔ طبیعت رواں ہو توکسی کے پرخچے اڑادیں۔ طبیعت میں ٹھہراؤ آ جائے تو اس کے سارے قصور نہ صرف معاف کردیں بلکہ بونس میں بے تحاشا نمبر بھی عطا کردیں۔ کئی بار مجھے حکومت کے خلاف اکساتے ہوئے پکڑے گئے اوربے تحاشا دفعہ میرے سابقہ کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے عثمان بزدار کے بارے میں تصدیق شدہ باتوں کی مخبری کرکے مجھے کالم لکھنے پر مجبور کرنے کے جرم دار ٹھہرے۔ یہ میں نے جو ''کالم لکھنے پر مجبور کرنے‘‘ والا جملہ لکھا ہے تو اس سے خدانخواستہ یہ مراد ہرگز نہیں کہ شاہ جی مجھے سردار عثمان بزدار کے خلاف کالم لکھنے کی فرمائش کرتے رہے ہیں بلکہ وہ بات ہی ایسی بتاتے تھے کہ بندہ از خود کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ مثلاً پھوپھا جی کے ساتھ ان کی درست رشتہ داری بتانے کا کریڈٹ بھی شاہ جی کے سر جاتا ہے وگرنہ کئی مستند صحافیوں نے ان کے انگریزی والے رشتے ''انکل‘‘ کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلیٰ کا چچا بنا دیا جبکہ حقیقت میں وہ ان کے پھوپھا تھے۔ پھر اس پھوپھا کے بارے میں والی بال کے کھلاڑی والی بات بھی شاہ جی نے بتائی۔ ان کے کھلاڑی ہونے کی بنیاد پر بطور اے ایس آئی بھرتی والی کہانی بھی شاہ جی کی مرہونِ منت ہے۔ اور کیا بتاؤں؟ سینکڑوں باتیں ہیں‘ کس کس کو یاد رکھوں اور کس کس کا ذکر کروں؟
ابھی گزشتہ سے پیوستہ روز ملے تو بتانے لگے کہ ملتان پبلک سکول پر ایک بہت بڑی کوٹھی‘ بلکہ اسے انگریزی والا ''Villa‘‘ ہی کہیں‘ اس کا سودا ہونے جا رہا ہے۔ یہ چار ایکڑ کے لگ بھگ رقبے پر مشتمل نہایت ہی شاندار قسم کی محل نما عمارت ہے۔ نقشے کے بارے میں شنید ہے کہ کسی باہر والے ملک سے بن کر آیا ہے اور حسین و جدید طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ آج کل کسی سودے کی فواہوں کی زد میں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ایک ارب روپے سے زیادہ کا سودا ہوتے ہوتے صرف اس بات پر تاخیر کا شکار ہو گیا ہے کہ مشتری اس کا کاغذوں میں اندراج پچیس کروڑ میں کرنا چاہتا ہے لیکن بائع اس بات پر مان نہیں رہا۔ معاف کیجئے گا۔ میں نے مشتری اور بائع کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ شاہ جی نے عین اسی طرح مخبری کی تھی۔ جائیداد کی خریدوفروخت میں کاغذات میں خریدار کے لیے مشتری اورفروخت کرنے والے کیلئے بائع کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا: شاہ جی! مشتری کون ہے اور بائع کون ہے؟ کہنے لگے: تم ایک بے صبرے‘ ہلکے پیٹ کے اور نہایت ہی غیر ذمہ دار آدمی ہو۔ ادھر میں نے نام لیا اور اُدھر تم نے چھاپ دینا ہے۔ ابھی سودا درمیان میں ہے۔ اللہ جانے ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ ممکن ہے بات بھی نہ بنے اور تم اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کی غرض سے لکھ کر سب کچھ چوپٹ کردو۔ ابھی ادھر چھوٹے مکان کی ملکیت کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا اور تم اس بڑے گھر کے بارے میں پوچھ رہے ہو۔ میں نے کہا :شاہ جی! آپ بتائیں تو سہی‘ پھر میری رازداریاں دیکھیں۔ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے :تم یہ چکر کسی اورکو دینا۔ تمہاری آنکھوں کی چمک‘ کھچروں والی مسکراہٹ اور طبیعت کی بے چینی ظاہر کررہی ہے کہ تم کس واردات پر ہو۔ میں تمہیں خوب جانتا ہوں اور تمہارے چکر میں کسی صورت نہیں آنے والا۔ سمجھ آئی؟
مزید کیا بتاؤں؟ یہی کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو غیرفعال کرنے کا نوٹیفکیشن بھی مجھے شاہ جی نے واٹس ایپ پر بھجوایا اور غضب خدا کہ دو تین دن بعد پہلے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے والا نوٹیفکیشن بھی شاہ جی نے ہی مجھے بھجوایا اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ دراصل وزیراعلیٰ کوتوکچھ معلوم ہی نہیں تھایہ تو بیوروکریسی نے بالا ہی بالا جاری کردیا تھا۔ جونہی وزیراعلیٰ کو اس نوٹیفکیشن کے بارے میں علم ہوا انہوں نے فوری طور پر نہ صرف اسے معطل کردیا بلکہ اسے جاری کرنے والے سیکرٹری کو بھی اس نوٹیفکیشن کی طرح معطل فرما دیا۔ پھر مجھے کہنے لگے: یہ ہوتی ہیں ''ایفی شینسیاں‘‘۔میں ہنس پڑا اور کہا: شاہ جی! خیر ہے آپ وزیراعلیٰ کے بارے میں بڑے رطب اللسان ہورہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: وہ تو تم ہر بات کو دوسری طرف لے جانے کے فن میں اپنی مہارت کے طفیل میری باتوں کو مثبت رخ سے دیکھنے کے بجائے منفی پہلو کو نمایاں کرکے ساری بات کو اُلٹ دیتے ہو وگرنہ میرا تو مطلب بالکل ہی مختلف ہوتا ہے۔ میں تو تمہیں وزیراعلیٰ کی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے بارے دلچسپی کا عالم بتا رہا ہوں کہ انہوں نے بیوروکریسی کی حرکت پر کیسا سخت ایکشن لیا اور کس برق رفتاری سے ان کی چال الٹ کر رکھ دی۔ میں نے پوچھا: شاہ جی! اتنا بڑا قدم جو مسلسل دو سال کی بحث وتمحیص اور بڑی لے دے کے بعد بمشکل طے ہوا تھا اور ابھی اس پر پوری طرح عملدرآمد بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ بیوروکریسی نے بالا ہی بالا سارا نوٹیفکیشن ہی معطل کردیا اور وزیراعلیٰ کو خبر ہی نہیں ہوئی؟ حالانکہ رولز آف بزنس کے تحت یہ تو اکیلے وزیراعلیٰ کااختیار ہی نہیں تھا بلکہ کابینہ کی منظوری والے زمرے میں آتا تھا اسے ایک سیکرٹری نے ازخود کیسے معطل کردیا؟ شاہ جی کہنے لگے :یہ دراصل سیدھی سیدھی ''کلیریکل مسٹیک‘‘ تھی۔ میں نے کہا: شاہ جی! کچھ خدا کا خوف کریں‘ میں علمی اور دفتری اصطلاحات سے بہت زیادہ واقف تو نہیں لیکن میرا خیال ہے کلیریکل مسٹیک یعنی کلرکوں والی غلطی سے مراد گرائمر کا غلط استعمال‘ ہجوں کی یعنی سپیلنگ کی غلطی‘ جملے کی بناوٹ میں سقم اوراسی قسم کی چھوٹی موٹی Punctuation کی غلطیاں کلیریکل مسٹیک کہلاتی ہیں۔ یہ پورے کا پورا نوٹیفکیشن معطل کرنے والا ایک اور مکمل نوٹیفکیشن کلرکانہ غلطی تو نہیں ہوسکتی۔ یہ تو کمزور انتظامی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر بیوروکریسی اس حد تک خود سر ہو جائے تو قصور بیوروکریسی کا نہیں منتظم کا ہے۔ یہ تو سیدھا سادا انتظامی کمزوری‘ نالائقی‘ نااہلی‘ کام پر گرفت میں ناکامی اور اپنے اختیارات سے لاعلمی والا معاملہ ہے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ کو گڈگورننس اور بیڈگورننس میں فرق محسوس نہیں ہوتا تو آپ کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
شاہ جی کہنے لگے: آپ کو کسی بندے میں کبھی کوئی خوبی بھی نظر آئی ہے؟ میں نے کہا :شاہ جی آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔ میں تو ہمہ وقت کھلے دل کے ساتھ کسی کی بھی اچھائی اور خوبی کو بیان کرنے کیلئے تیار رہتا ہوں لیکن آپ کوئی خوبی بتائیں تو سہی۔ پرسوں ایک بڑے سرکاری افسر دوست نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا تو میں نے انہیں کہا کہ چلیں مجھے تو کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی یہ میری نالائقی ہے آپ ہی کوئی خوبی بتا دیں۔ یہ سن کر وہ دوست کہنے لگا: ابھی فون بند کر رہا ہوں ایک ملنے والا آگیا ہے پھر دوبارہ فون کروں گا۔ پرسوں سے آج اڑتالیس گھنٹے گزر گئے ہیں ابھی تک تو اس کا فون نہیں آیا۔
لیکن آج ایک بڑا مزیدار واقعہ ہوا اور میں کئی اصولی اختلافات کے باوجود کم از کم وزیراعلیٰ کی ایک خوبی کا تو معترف ہوگیا ہوں۔ کھانے پر عمران خان کے ایک بڑے زبردست حامی‘ سپورٹر اور معتقد دوست سے موجودہ حکومت کی کارکردگی‘ حکومی ٹیم اور دیگر معاملات پر بحث ہورہی تھی اور وہ دوست پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہا تھا اورکسی طور قابو نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کہا: چلیں ایک بات بتا دیں میں آپ کا قائل ہو جاؤں گا‘ سردارعثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانے کی کوئی ایک حکمت‘ منطقی دلیل یا خوبی بیان کردیں میں آپ سے متفق ہو جاؤں گا۔ وہ دوست ایسا خاموش ہوا کہ لطف سے زیادہ اس پر ترس آنے لگ گیا۔ اس عاجز نے یہ ملاکھڑا اپنے پیارے عثمان بزدار صاحب کے زور پر جیت لیا۔ اس پر ان کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔ شکریہ سردار صاحب! شکریہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں