"KMK" (space) message & send to 7575

نادر شاہ کی تقلید میں

نوید اشرف سے دوستی تو امریکہ میں ہی ہوئی تاہم اب یہ کافی پرانی ہو چکی ہے۔ وہ ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں رہتا ہے۔ کبھی یہ شہر دنیا بھر میں موٹرسازی کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ گوکہ اب برے حالوں کا شکار ہے ا ور پہلے جیسی رونقیں نہیں رہیں تاہم اب بھی خوب شہر ہے۔ اوہائیو اور مشی گن آپس میں جڑی ہوئی ریاستیں ہیں۔ ڈیٹرائٹ اور پیریزبرگ کے درمیان سو کلومیٹر کے لگ بھگ فاصلہ ہے۔ ملتان کے ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر رائو خالد اور نوید اشرف کی محبت ہے کہ میں امریکہ جائوں تو وہ وقت نکال کر میرے پاس پہلے ٹولیڈو اور اب اس کے نوحی شہر پیریزبرگ میں چکر لگا لیتے ہیں۔ اس بار بھی خالد رائو اور نوید اشرف نے حسب سابق محبت کا مظاہرہ کیا اور میرے پاس پیریزبرگ آگئے۔ ان کے اس بار آنے میں خاص بات یہ تھی کہ صرف تین دن پہلے نوید اشرف کو دل کی شدید تکلیف ہوئی اور دو روز قبل اسے دل میں دو سٹنٹ ڈالے گئے تھے مگر وہ اللہ کا بندہ ہمت کرکے خالد رائو کے ساتھ مجھے ملنے کیلئے سو کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرکے آگیا۔ پوچھنے پر ہنس کر کہنے لگا کہ کوئی بات نہیں میرے ساتھ دل کا ماہر ڈاکٹر سفر کر رہا ہے‘ ان شا اللہ سب خیریت رہے گی۔
کیا شاندار شام تھی جو ہم نے ساتھ گزاری۔ دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ادب، مشاعرے، کورونا، پہلی پہلی ملاقات اور وہی ہم پاکستانیوں کی خاص علت، یعنی سیاست۔ میں عموماً سیاسی گفتگو سے پرہیز کرتا ہوں اور بیرون پاکستان تو اس احتیاط میں مزید اضافہ کرلیتا ہوں کہ خواہ مخواہ گفتگو کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے اور دوستوں سے اچھے بھلے تعلقات میں بال آنے کا اندیشہ بے مزہ کئے رکھتا ہے۔ کسی ایسے پاکستانی سے جو کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہو اور اوپر سے اپنے سیاسی لیڈر کی محبت میں جذباتی ہونے کی حد تک گرفتار ہو تو اس سے کسی قسم کی معقول گفتگو کی توقع رکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پہلے ہم دو قسم کے جذباتی سیاسی مقلدین میں پھنسے ہوئے تھے اب یہ تعداد بڑھ کر تین ہو گئی ہے۔ بھٹو اور میاں نواز شریف کے چاہنے والوں سے برسوں کی بے سود سیاسی بحثوں کے بعد جب پاکستان کے سیاسی افق پر تیسری سیاسی بٹالین کے رضاکاروں کا ظہور ہوا تو ہمیں امید پیدا ہوئی کہ شاید یہ پڑھے لکھے لوگ پہلے والی دو جذباتی برگیڈوں سے مختلف ثابت ہوں گے لیکن یہ ہماری خام خیالی ثابت ہوئی اور یہ پڑھی لکھی نئی سیاسی انٹری تو سابقہ والے دونوں اندھے مقلدین سے بھی دو قدم بڑھ کر نکلی اور اس نے کسی معقول سیاسی گفتگو کا دروازہ سرے سے بند ہی کردیا۔
نوید اشرف بھی جب آخری بار ملا تھا تو عمران خان کی محبت میں گوڈے گوڈے نہ سہی، مگر بہرحال محبت میں مبتلا ضرور تھا۔ میں محتاط رہاکہ ایک تو ہمارا دوست اتنی دور سے ملنے آیا ہے‘ دوسرا محض دو دن پہلے اپنے دل کی مرمت کروا کر فارغ ہوا ہے‘ ایسے میں اس سے سیاسی بحث نہایت ہی نامناسب حرکت تھی مگر تھوڑی دیر بعد اندازہ ہوا کہ نوید اشرف کافی معقول سیاسی گفتگو کر رہا ہے اور اس کی ساری گفتگو میں جذباتی پن اور اندھی محبت کی جگہ توازن نے لے لی تھی۔ اسی دوران پاکستان میں مہنگائی کی بات ہوئی تو نوید اشرف کہنے لگا کہ وہ گزشتہ کافی عرصے سے پاکستان نہیں گیا‘ اسے اس مہنگائی کا ذاتی طور پر نہ کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی درست اندازہ، مگر اسے اپنے پاکستانی دوستوں اور عزیزوں سے جو سننے کو مل رہا ہے اس کی روشنی میں اس نے یہی اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کا اثر پاکستانی عوام پر اس سے کہیں زیادہ اور شدید تر ہے جتنا ادھر امریکہ میں ہوا ہے۔ وہ کہنے لگا: دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک میں ہونے والی بے تحاشا مہنگائی کا سدباب کرنے کے بجائے وزیراعظم صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی ہے ہی نہیں اور پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ پھر وہ ہنس کر ازراہ مذاق کہنے لگا: میرا خیال ہے میں وزیراعظم عمران خان کو ایک پیغام بھیجوں کہ وہ اپنے دل کی حسرت نکال لیں اور ایک بار مہنگائی کرکے بھی دیکھ لیں‘ بھلا اب اس سے زیادہ وہ کیا کر لیں گے؟
میں نے کہا: عزیزم! آپ یہ بات مذاق میں بھی نہ کہیں۔ کبھی کبھی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور خان صاحب کا کیا پتا کہ وہ آپ کی بات سن کراس پر عمل کرنے ہی نہ چل پڑیں۔ پھر میں نے اسے کہا کہ ایک بار ایسا ہوا‘ جون ایلیا نے اپنے بارے میں لکھاکہ میں ایک ناکام شاعر ہوں۔ اس پر مشفق خواجہ نے انہیں مشورہ دیا: جون صاحب! اس قسم کے معاملات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ یہاں اہلِ نظر آپ کی دس باتوں سے اختلاف کرنے کے باوجود، ایک آدھ بات سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب بھلے کسی کی نہ سنتے ہوں مگر کیا خبر وہ آپ کی اس خواہش کو پذیرائی بخش دیں اور واقعتاً مہنگائی کرکے دکھا دیں۔ ویسے بھی وہ ہم مقامی ووٹروں سے تو مایوس ہیں اور اب ان کی اگلی ساری امیدیں آپ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کے ووٹوں پر ہیں۔ ممکن ہے وہ اپنے امکانی ووٹر کی خوشنودی کیلئے ملک میں مہنگائی کرکے بتائیں کہ اصل مہنگائی ایسی ہوتی ہے۔
اصل مہنگائی سے یاد آیاکہ نادر شاہ افشار کو دہلی پر قبضہ کیے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ شہر میں کسی نے افواہ پھیلا دی کہ ایک طوائف نے نادر شاہ کو قتل کر دیا ہے۔ دہلی والوں نے اس خبر سے شہ پا کر ایرانی فوجیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ تاریخ میں رقم ہے کہ ابھی سورج نکلا ہی تھا کہ نادر شاہ لال قلعے سے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلا اور چاندی چوک میں واقع مسجد روشن الدولہ کے صحن میں کھڑے ہوکر اس نے اپنی نیام میں سے تلوار نکال لی۔ یہ قتل عام کا اشارہ تھا۔
صبح نو بجے قتل عام شروع ہوا۔ لاہوری دروازہ، فیض بازار، کابلی دروازہ، اجمیری دروازہ، حوض قاضی اور جوہری بازار کے علاقے لاشوں سے پٹ گئے۔ ہزارہا عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ قزلباش سپاہیوں نے گھروں میں گھس کر لوٹ مار شروع کردی۔ اس روز بیس ہزار سے زائد ساکنانِ دہلی قتل ہوئے۔ اس قتل عام کی فکاہیہ منظر کشی کرتے ہوئے شفیق الرحمن اپنی کتاب مزید حماقتیں کے پہلے مضمون تزک نادری عرف سیاحت نامہ ہند میں لکھتے ہیں کہ اس قتل عام کو رکوانے کی غرض سے ایک بزرگ ہمارے (نادر شاہ کے) روبرو پیش ہوئے اور امیر خسرو سے منسوب ایک شعر پڑھا:
کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی
مگر کہ زندہ کنی خلق را و باز کشی
(اور کوئی نہیں بچا جسے تو اپنی تیغ ناز سے قتل کرے، سوائے اس کے کہ مردوں کوزندہ کرے اورپھر ان کو دوبارہ قتل کرے) یہ سن کر ہم نے قتل عام بند کرنے کی غرض سے اپنی تلوار نیام میں ڈالنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ہمارے ہاتھ میں تو شہباز خان (وزیر) کی تلوار ہے اور ہماری تلوار تو ہماری نیام میں ہی ہے۔ گویا سارا قتل عام ہی غلط ہوا تھا؛ چنانچہ اس مرتبہ دوسرا صحیح قتل عام شروع ہوا جو کافی کامیاب رہا۔ میں نے نوید اشرف کو کہا کہ وہ اپنی طنزیہ خواہش اپنے پاس رکھے۔ کہیں خان صاحب اس کی فرمائش سن کر نادر شاہ والے اصلی قتل عام کی مانند اصلی والی مہنگائی نہ کر دیں۔ خان صاحب سے کچھ بعید نہیں، وہ نادر شاہ کی تقلید میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں