"KMK" (space) message & send to 7575

برطانوی عجائب گھروں میں لوٹ مار کا مال … (2)

پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹش میوزیم کے نوادرات کو جرمن طیاروں کی بمباری سے محفوظ رکھنے کی غرض سے انڈر گراؤنڈ ریلوے کے ایک سٹیشن پر پہنچا دیا گیا۔ لندن کا انڈر گراؤنڈ ریلوے نظام اپنی نوعیت کا بڑا حیران کن نظام ہے۔ گیارہ لائنوں اور 402کلو میٹر لمبے ریلوے ٹریک کا یہ نظام‘ جس کا تقریباً 55فیصد حصہ زمین کے اوپر ہے؛ تاہم یہ انڈر گراؤنڈ ریلوے ہی کہلاتا ہے‘ 272 سٹیشنوں پر مشتمل ہے۔ اس ٹرانسپورٹ سسٹم پر روزانہ تقریباً 18 لاکھ اور سالانہ اوسطاً 30 کروڑ کے لگ بھگ لوگ سفر کرتے ہیں۔ 10 جنوری 1863ء کو قائم ہونے والے اس نظام کو اگلے سال یعنی 2023ء میں 10 جنوری کو160 سال مکمل ہو جائیں گے۔ میں نے زیرِ زمین جس سب سے زیادہ گہرائی میں واقع سٹیشن پر بارہا سفر کیا ہے‘ وہ برٹش میوزیم کے قریب ترین واقع رسل سکوائر کا سٹیشن ہے اور اس میں نیچے ٹرین کے پلیٹ فارم تک جانے کے لیے تین بڑی بڑی لفٹیں لگی ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک کی گنجائش پچاس افراد ہے؛ تاہم ان لفٹوں پر مصروف اوقات میں قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ اس کے پلیٹ فارم کے ساتھ دیوار پر ایک انتباہی تحریر ہے کہ سوائے ایمرجنسی کے سیڑھیوں کا استعمال نہ کریں کیونکہ اوپر سطح زمین تک جانے کے لیے 176سیڑھیاں ہیں۔ اس سے آپ اس سٹیشن کی گہرائی کا اندازہ لگا لیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران انڈر گراؤنڈ ریلوے کی یہ سرنگیں جرمن طیاروں کی بمباری کے دوران بطور پناہ گاہ استعمال ہوتی رہی تھیں۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی تاہم میرا خیال ہے کہ میرے قارئین میری اس بری عادت سے کسی حد تک سمجھوتا کر چکے ہوں گے۔ کوشش تو کرتا ہوں کہ موضوع پر ہی رہوں مگر یہ قلم بعض اوقات میری نہیں سنتا اور ضمنی چیزوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ 2003ء میں مصر کی سپریم کونسل برائے نوادرات کے جنرل سیکرٹری نے مصری اور عالمی میڈیا میں روزیٹا سٹون کی مصر کو واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری مصری پہچان کی تمثیل ہے۔ نوادرات کی ڈکیتیوں سے بھرے ہوئے ماضی کے غاصب ممالک کے تقریباً سارے عجائب گھر اس بات کی مخالفت کر رہے ہیں کہ نوادرات ان کے اصل وارث ممالک کو واپس کیے جائیں۔ کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر یہ روایت شروع ہو گئی تو وہ تمام اقوام اور ممالک جو ابھی واپسی کے اس مطالبے میں شریک نہیں‘ وہ بھی واپسی شروع ہوتی دیکھ کر اس مطالبے میں شامل ہو جائیں گے اور اگر یہ سب کچھ اس طرح واپس جانا شروع ہو گیا تو ان کے پاس باقی کیا بچے گا؟ 2002ء میں دنیا کے 30 سب سے نامور‘ مشہور اور بڑے عجائب گھروں نے‘ جن میں برٹش میوزیم‘ پیرس کا لوور میوزیم‘ برلن کا پیرگامون میوزیم اور نیو یارک کا میٹرو پولیٹن میوزیم شامل ہیں‘ ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ میوزیم کسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ ہر قوم کی خدمت میں مصروف ہیں‘ اس لیے پرانے زمانے میں حاصل کردہ نوادرات کو پرانے زمانے کی اقدار کی روشنی میں پرکھا جائے۔ یعنی ایک حساب سے اسے صاف انکار ہی سمجھا جائے۔
برٹش میوزیم میں دوسرا سب سے متنازع آرٹیکل ایلجین ماربلز (Elgin Marbles) یا پارتھینون ماربلز ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل مسیح کے یہ سنگ مرمر کو کھود کر بنائے گئے مجسمے مشہور یونانی ماہر تعمیرات اور مجسمہ ساز ''فیڈیاس‘‘ کی زیر نگرانی بنائے گئے تھے۔ پارتھینون کے ایکروپولس سے لائے گئے یہ پتھر برٹش میوزیم میں ایک خصوصی طور پر بنائی گئی Duveen Gallery میں لگے ہوئے ہیں۔ سنگ مرمر کی سلوں پر کھدے ہوئے مجسموں کی مجموعی لمبائی 70 میٹر یعنی 246 فٹ ہے۔ ایک پوری گیلری ان کے لیے مختص ہے۔ 1801ء سے 1812ء کے دوران ایلجین کے ساتویں ارل تھامس بروس نے بطور برطانوی سفارتی ایجنٹ بارتھینون‘ پروپیلیا اور ایریکتھیون سے یہ مجسمے اس وقت یونان پر حکومت کرنے والی سلطنت عثمانیہ سے منسوب ایک فرمان کی رو سے برطانیہ منتقل کر دیے؛ تاہم تحقیق کے مطابق ایسا کوئی فرمان سلطنت عثمانیہ کے فرامین کے آرکائیوز میں موجود ہی نہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بحث کے دوران لارڈ بائرن نے اس کو ارل ایلجین کی لوٹ مار اور غارت گری قرار دیا؛ تاہم پارلیمنٹ نے ارل ایلجین کو اس الزام سے بری کر دیا لیکن ان مجسموں کو 1816ء میں سرکارِ برطانیہ نے خرید کر برٹش میوزیم کی تولیت میں دے دیا۔
1684-99ء کے دوران ہونے والی عثمانی وینیٹین جنگوں کے نتیجے میں یونان پر ترکوں نے قبضہ کر لیا۔ اسی سلسلے میں ہونے والی چھٹی عثمانی وینیٹین جنگ کے دوران ترکوں نے دفاعی نقطۂ نظر سے ایکروپولس کو قلعے جبکہ پارتھینون کو حصار میں بدل دیا اور بارود خانہ بھی وہیں منتقل کر دیا۔ 26ستمبر 1687ء کو وینیٹین توپ خانے کا ایک گولہ سیدھا بارود خانے کو جا لگا۔ بارود ایک دھماکے سے پھٹا اور اس کے نتیجے میں شہر کا ٹیمپل منہدم ہو گیا۔ اگلے کئی عشروں تک لوگ اس ملبے سے قیمتی پتھر اور مجسمے نکال کر لے جاتے رہے۔ نومبر 1798ء میں ارل آف ایلجین کو ترکی کے بادشاہ سلیم سوم کے دربار میں برطانیہ کی جانب سے سفارتی ایجنٹ بنا کر بھیجا گیا۔ ارل نے پہلے پہل پارتھینون کے ان مجسموں کی نقلیں بنوانے کے لیے کھدائی کی اجازت لی؛ تاہم 1801ء میں اس نے پارتھینون اور دیگر علاقوں سے کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات غتر بود کر لیے اور انہیں جزیرہ مالٹا بھجوا دیا جو تب برطانوی باجگزار جزیرہ تھا۔ یہ نوادرات وہاں کئی سال پڑے رہے اور 1812ء میں اس نے انہیں برطانیہ بھجوا دیا۔
ارل ان مجسموں کو اپنی ذاتی رہائش گاہ بروم ہال ہاؤس سکاٹ لینڈ میں لگانا چاہتا تھا لیکن شومیٔ قسمت سے اسے اپنی بیوی کو طلاق دینا پڑ گئی اور اس مہنگی طلاق کے کیس میں اس نے یہ مجسمے تب 35 ہزار برطانوی پاؤنڈز کے عوض حکومت برطانیہ کو بیچ دیے۔ اس کھدائی پر اس کا خرچہ 75ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ ہوا‘ یعنی اسے اپنی لاگت سے نصف رقم ملی۔ میں یہ گیلری دیکھ چکا ہوں اور ان مجسموں میں پائی جانے والی خوبصورتی‘ صفائی‘ باریکی‘ اعضا کا تناسب اور مجسمہ ساز کی مہارت پر حیران رہ گیا۔ بہت سے مجسموں کے بعض اعضاء جیسے بازو‘ ٹانگیں یا چہرے کے خدوخال ٹوٹے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ سلیں خوبصورت مجسمہ سازی کا شاہکار ہیں۔
یونان آرٹ کے اس نادر نمونے کی واپسی کے لیے کوشاں بھی ہے اور دعویدار بھی کیونکہ ان کی تحقیق کے مطابق ایلجین نے سنگ مرمر کے یہ مجسمے اور سلیں جس عثمانی فرمان کے مطابق یونان سے برطانیہ منتقل کیں وہ فرمان اصلی نہیں ہے۔ اس فرمان میں استعمال کی گئی زبان عثمانی سلطانوں کے فرامین سے قطعاً میل نہیں کھاتی۔ مزید براں جو فرمان اس منتقلی کے حق میں موجود ہے‘ وہ بھی اپنی اصل زبان کے بجائے اٹالین زبان میں ہے جو اس کی صداقت اور اعتبار کو مشکوک ثابت کرتا ہے۔ ان مجسموں کی یونان واپسی کے سلسلے میں کافی قانونی بحث اور دعویداری سے ہٹ کر 2002ء میں عوامی رائے عامہ جانچنے کی لیے شہرہ آفاق برطانوی فرمIpsos MORI نے ایلجین ماربلز کے مستقبل پر ایک عدد سروے کیا جس کے مطابق 56فیصد لوگوں نے ان کی یونان واپسی کے جبکہ محض 7فیصد نے اسے برٹش میوزیم میں رکھے رہنے کے حق میں اپنی رائے کا استعمال کیا۔ اس ناجائز لوٹ مار اور دھونس دھاندلی کے خلاف یونان ابھی تک اپنے آرٹ کے ان نمونوں سے دستبرداری پر تیار نہیں ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں