"KMK" (space) message & send to 7575

پھر وہی کتاب اور کہانی …(1)

اب تو سرکاری محکموں کی حالتِ زار کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے خود کوفت ہوتی ہے کہ اداروں کی کارکردگی‘ میرٹ‘ وہاں تعینات افسروں کا رویہ‘ نیت اور اپنے کام سے عدم دلچسپی‘ غرض ایک طویل فہرست ہے جو سرکاری اداروں کی مسلسل روبہ انحطاط صورتحال اور زوال کا باعث ہے لیکن ان میں کبھی کبھار (اور شاید غلطی سے) کسی ایسے بندے کا انتخاب بھی ہو جاتا ہے جو ایک عرصے سے سوئے ہوئے‘ بلکہ بلامبالغہ وینٹی لیٹر پر پڑے ہوئے اس محکمے کو نہ صرف بستر سے اٹھا کر قدموں پر کھڑا کر دیتا ہے بلکہ اسے دلکی چال چلا کر دکھا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ خوش رکھے ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو‘ جنہوں نے نیشنل بک فاو ٔنڈیشن کو نہ صرف جگایا بلکہ بگٹٹ بھگا کر بھی دکھایا۔ بطور چیئرمین این بی ایف انہوں نے نہ صرف سٹوروں میں پڑی ہوئی کتابوں کو دیمک کا رزق ہونے سے بچایا بلکہ ریکارڈ تعداد میں نئی کتابیں چھپوائیں اور مارکیٹ میں مناسب قیمت پر بہترین کتب کی فراہمی کے ذریعے کتب بینی کی روایت کو نئی زندگی بخشی۔ ان کی کاوشوں کے طفیل جہاں ایک طرف قاری کو معیاری اور سستی کتاب میسر آئی تو دوسری طرف ایک عرصے سے خسارے کے شکار اس سرکاری محکمے کو منافع بخش بنایا۔ ریلوے سٹیشنوں پر غیر فعال بک سٹالز کو نئی آب و تاب بخشی اور اس دم توڑتے ہوئے کلچر میں نئی روح پھونکی۔ اسلام آباد میں اس شہر کی تاریخ کے سب سے بڑے کتاب میلے منعقد کروائے اور کتاب کے عاشقوں کو ہر سال تین دن کے لیے کتابوں کی دلدل میں دھنسا کر باقی دنیا سے بیگانہ کیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے ہوائی اڈوں پر پرواز کے انتظار میں بیکار بیٹھے ہوئے مسافروں کوریڈنگ روم اور کتاب جیسی نعمت سے روشناس کرایا۔ ابھی وہ اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ میرٹ کا جھنڈا اٹھا کر آنے والے ہی جب میرٹ کی نئی تفسیر کرتے ہوئے میرٹ کا تیاپانچہ کر دیں تو ادارے پھر پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد میں ویسا کتاب میلہ محض یادِ ماضی بن کررہ گیا ہے۔ بقول فیض احمد فیضؔ:
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
یہی حال پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز یعنی اکادمی ادبیات پاکستان کا ہے۔ پاکستان میں ادیبوں کی سرپرستی‘ دیکھ بھال اور مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ادب کے فروغ‘ ترویج اور حوصلہ افزائی کے اس مؤقر اور بڑے ادارے کی سربراہی کی ذمہ داری جہاں بہت سے نامور ادیبوں نے اٹھائی وہیں اس کی سربراہی کا تاج بہت سے جز وقتی بیورو کریٹس کے سر بھی ہما کی طرح بیٹھتا رہا۔ اس ادارے کی چیئرمینی کی مسند پر درجن کے قریب بیورو کریٹ بھی براجمان رہے یہ وہ لوگ تھے جنہیں ادب کی نہ الف کا علم تھا اور نہ ہی اس کی بے سے کوئی شناسائی تھی لیکن وہ صرف اپنے سرکاری عہدے کی بنا پر اس ادارے کی سربراہی تو کرتے رہے؛ تاہم عملی طور پر ادارہ اس دوران کومے کی حالت میں رہا۔
اس ادارے کی سربراہی گو کہ پاکستان کے نامور ادیبوں کے پاس بھی رہی؛ تاہم چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب لوگ عمر کے اس حصے میں تھے کہ پہلے سے انحطاط پذیر ادارے کو نئی زندگی بخشنے اور تازہ روح پھونکنے کے لیے جس توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم تھے‘ لہٰذا ان کی موجودگی ادارے کے ماتھے پر چمکتا ہوا جھومر تو ضرور رہی لیکن ادارہ اپنی تخلیق کا مقصد پورا کرنے میں مکمل ناکام رہا۔ گزشتہ پونے تین سال سے اس ادارے کی کارکردگی میں جو غیر معمولی اٹھان آئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس ادارے کی سربراہی نہایت فعال اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک کے پاس ہے۔ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے سابق پرو وائس چانسلر اور پروفیسر میریٹوریس نے گزشتہ پونے تین سال میں اس ادارے میں نئی جان ڈال دی ہے۔
اس سال پاکستان کی تخلیق کو پچھتر سال مکمل ہوئے ہیں اور اس ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے اکیڈمی نے کورونا کی پابندیوں کے باوجود پچھتر پروگرامز کروائے اور ریکارڈ تعداد میں کتابیں شائع کیں‘ جس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ 1976ء میں بننے والے اس خودمختار ادارے نے اپنی چوالیس سالہ زندگی میں کل 520 کتابیں شائع کیں جبکہ گزشتہ اڑھائی‘ پونے تین سال کے مختصر عرصے میں108 کتابیں طبع ہوئیں۔
گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات پاکستان نے ایک تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کروائی جس کا موضوع ''بچوں کا ادب‘ ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ تھا۔ اس تین روزہ کانفرنس کے کل ستائیس سیشن ہوئے اور ان میں جناب افتخار عارف‘ امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر فتح محمد ملک‘ محترمہ کشور ناہید‘ ڈاکٹر وحید احمد‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ پروفیسر جلیل عالی‘ محمد حمید شاہد اور ڈاکٹر احسان اکبر جیسے نامور ادیبوں کے علاوہ ایک سو پینتیس ادیبوں نے شرکت کی۔ شرکا میں سے بچوں کے ادب سے وابستہ جن لوگوں نے شرکت کی ان میں امان اللہ نیّر جیسے کہنہ مشق ادیب بھی تھے اور ملتان سے بچوں کے ادب سے وابستہ ڈاکٹر وحید الرحمن‘ ڈاکٹر فرزانہ کوکب‘ ڈاکٹر عذرا لیاقت کے علاوہ نوجوان لکھاری خواجہ مظہر صدیقی‘ علی عمران ممتاز‘ محمد عبداللہ‘ احتشام انور اور عرفات ظہور نے شرکت کی اور مختلف سیشنز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ جنوبی پنجاب کی بہترین نمائندگی تھی۔
اس کانفرنس میں جہاں میں نے پاکستان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا وہیں تیسرے دن کے چوتھے اجلاس میں‘ جس کی صدارت ڈاکٹر فتح محمد ملک کر رہے تھے ''بیرونی ممالک میں بچوں کا ادب‘ ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے حوالے سے ایران کے ڈاکٹر علی بیات اور ترکی سے پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کے مقالوں نے امکانات کی نئی شمع روشن کی۔ خاص طور پر ترکی میں تشکیل پانے والے بچوں کے ادب کے حوالے سے استنبو ل یونیورسٹی کے شعبہ اردو زبان و ادب کے سربراہ ڈاکٹر خلیل طوقار کے مقالے نے ترکی کے بچوں میں کہانی اور کتاب کی مقبولیت کو فروغ دینے کی حکومتی کاوشوں اور کتاب کو بچوں کی سطح پر مقبول بنانے کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ اور ثقافت کو نئی نسل تک منتقل کرنے کیلئے کیے جانے اقدامات روشنی ڈالی۔
اس کانفرنس کے انعقاد نے پاکستانی بچوں کی کہانی اور کتاب سے مسلسل بڑھتی ہوئی دوری کے حوالے سے بہت سی مفید تجاویز تو ضرور پیش کیں لیکن اس سلسلے میں سکولوں کی ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو کتاب اور کہانی سے جوڑے بغیر کسی قسم کی بہتری آنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوئی پیشرفت بھی نہیں ہو رہی کہ اسے امید کی کسی کرن سے تشبیہ دی جا سکے اور کوئی اچھی امید وابستہ کی جا سکے۔ اس قسم کی کانفرنسیں حکومت اور ذمہ داروں کو آئندہ کے لیے محض لائحہ عمل تو فراہم کر سکتی ہیں لیکن عملی اقدامات کی ذمہ داری جن فریقوں پر ہے‘ ان کا اس سلسلے میں عملی رول صفر ہے اور ایسی صورت میں کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔ میرے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور بہت ہی اہم موضوع پر ہونے والی کانفرنس تھی جس میں شرکت کرنے والوں نے حتی المقدور حد تک بہترین اور قابل عمل تجاویز دیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کانفرنس میں ہونے والی گفتگو اور پڑھے جانے والے مقالا جات کی روشنی میں سفارشات مرتب کی جائیں اور حکومت اس سلسلے میں اپنا کردار فعال طریقے سے سرانجام دے وگرنہ آئندہ نسل کہانی اور کتاب سے مزید دور ہو جائے گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں