مسافر کی ''وِش لِسٹ‘‘ میں تین یورپی شہر عرصہ دراز سے شامل تھے۔ پراگ‘ بوڈاپسٹ اور ویانا۔ کئی بار ارادہ بھی کیا اور رختِ سفر بھی باندھا مگر عالمِ اسباب میں مسافر کی ایک نہ چلی۔ ایک بار تو ہم چار دوستوں نے مکمل پروگرام بناکر پاسپورٹ ویزہ لگنے کیلئے جمع کروا دیے۔ میرا ارادہ تھا کہ پہلے یورپ جاؤں گا پھروہاں سے آگے امریکہ چلا جاؤں گا۔ لیکن ہمارے چاروں پاسپورٹ اکٹھے جمع ہوئے تھے۔ سفارت خانے کی طرف سے کبھی ایک دوست کیلئے مزید کاغذات جمع کروانے کی فرمائش آ جاتی اور کبھی دوسرے دوست کیلئے کسی دستاویز کی ضرورت پڑ جاتی۔ اسی کھینچا تانی میں اتنے دن گزر گئے کہ جب پاسپورٹ واپس آئے تبھی میری امریکہ روانگی کا وقت ہو گیا‘ میں امریکہ چلا گیا اور باقی تینوں دوست دل ہی دل میں مجھے گالیاں دیتے ہوئے یورپ روانہ ہو گئے۔ ویسے تو انہیں یہ گالیاں باآواز دینی چاہئے تھیں مگر کیونکہ تینوں عمر میں مجھ سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے احترام کرتے تھے لہٰذا انہوں نے لحاظ اور مروت سے کام لیا۔
دوسری بار ویزہ لگوا کر نہ صرف سامان باندھ لیا بلکہ ٹکٹ بھی لے لی مگر روانگی سے دو چار روز پہلے کورونا کے پیش نظر ہدایت آئی کہ فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر سات روز کیلئے ہوٹل میں قرنطینہ کرنا پڑے گا۔ مزید یہ کہ پراگ کیونکہ جرمنی میں نہیں اس لیے عین ممکن ہے کہ وہاں پہنچ کر دوبارہ قرنطینہ میں جانا پڑے اور یہی کچھ ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ اور پھر آسٹریا کے شہر ویانا میں دہرایا جائے۔ مجھے تو یاد نہیں کہ کبھی ٹک کر سات دن گھر میں گزارے ہوں کجا کہ پردیس میں جا کر کسی ہوٹل کے کمرے میں یہ قیدِ تنہائی بھگتی جاتی‘ لہٰذا اس ذلت سے زیادہ مناسب سمجھا کہ گھر بیٹھا رہوں۔
پراگ سے بوڈاپسٹ کا فاصلہ تقریبا ًساڑھے پانچ سو کلو میٹر ہے اور ٹرین پر لگ بھگ سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ٹرین کا روٹ یورپ کے سب سے پررونق اور خوبصورت دریا ڈینیوب کے تقریباً ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ کہیں کہیں دریا ریلوے کی پٹڑی کے ساتھ آ جاتا ہے۔ ڈینیوب ویانا اور بوڈاپسٹ شہروں کے اندر سے گزرتا ہے۔ جرمن زبان میں اسے ''دوناؤ‘‘ کہتے ہیں۔ بوڈاپسٹ کی آدھی سے زیادہ خوبصورتی اسی دریا کے کنارے پر ہے۔ نہایت عالی شان اور خوبصورت ہنگیرین پارلیمنٹ ڈینیوب کے پسٹ والے کنارے پر واقع ہے۔ بوڈاپسٹ دراصل ایک شہر کے دو حصوں کے نام ملا کر بنتا ہے۔ دریا کے ایک طرف بوڈا ہے اور دوسری طرف پسٹ ہے اور یہ دونوں حصے مل کر بوڈاپسٹ بناتے ہیں۔
روس کے دریائے وولگا کے بعد ڈینیوب یورپ کا دوسرا طویل ترین دریا ہے۔ جرمنی کے بلیک فاریسٹ سے نکلنے والا ڈینیوب دو ہزار آٹھ سو پچاس کلو میٹر کا سفر طے کر کے بلیک سی (بحیرہ اسود) میں اپنا سفر ختم کرتا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ممالک کی سرحدوں کا فریضہ سرانجام دیتا ہوا اپنا سفر پورا کرتا ہے۔ اس دوران یہ جرمنی‘ آسٹریا‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ یوکرین‘ سربیا‘ بلغاریہ‘ سلواکیہ اور کروشیا سے گزرتا ہے۔ اس دریا کے کنارے بلغراد‘ اُلم‘ انگلسٹیڈ‘ پساؤ‘ لنز‘ بریٹسلاوا‘ ریجنسبرگ‘ نووی سیڈ‘ ویانا اور بوڈاپسٹ کے علاوہ درجن بھر شہروں سے گزرتا ہے۔ ادھر بواڈپسٹ میں ڈینیوب ہے اور یہ مسافر ہے۔
بوڈاپسٹ ہنگری کا دارالخلافہ ہے اور ہنگری والے ڈینیوب کو ''دونا‘‘ کہتے ہیں۔ ہنگری 1541ء میں ترک سلطان سلمان عالی شان نے فتح کیا۔ ترکوں نے ہنگری کے سارے علاقے پر 1541ء سے 1699ء تک‘ یعنی 158سال حکومت کی ہے۔ پاکستان میں چلنے والی ڈب شدہ ترک تاریخی ڈرامہ سیریل کے طفیل ہماری نئی نسل کو ہندوستان کی مغلیہ تاریخ سے واقفیت ہو یا نہ ہو مگر ارطغرل‘ عثمان اور سلیمان کے بارے میں خاصی معلومات ہیں۔ ہنگری 1699ء میں ترکوں کی ''عظیم ترک جنگ‘‘ میں شکست کے نتیجے میں آزاد تو ہوا مگر اس جنگ کے بعد ہونے والی Treaty of Karlowitzکے چکر میں آسٹریا کے حصے میں آ گیا جہاں اس وقت ہاسبرگ خاندان برسراقتدار تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی آزادی کے سلسلے میں ترک خاصے وسیع القلب اور روشن خیال تھے اس لئے اس ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے کی حکومت کے دوران کسی پر کوئی مذہبی دباؤ نہ تھا‘ اس لئے اس علاقے میں عیسائیت ہی غالب مذہب رہا؛ تاہم اس مذہبی رواداری اور آزادی کا یہ اثر ہوا کہ آسٹریا کے ہاسبرگ اور ہنگری کے شاہی خاندان کے مذہبی جبر سے نکلنے کے بعد یہاں پروٹیسٹنٹ عیسائیت کو بہت فروغ حاصل ہوا اور آج اس ملک کی نوے فیصد آبادی پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کے Calvinistعقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر بندے نے پراگ نہ دیکھا ہو تو اسے بوڈاپسٹ بڑا خوبصورت شہر لگے گا‘ جو کہ وہ ہے بھی‘ لیکن یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ تقابلی جائزہ لیتا ہے۔ ممکن ہے یہ دیکھنے والے کی آنکھ پر بھی منحصر ہو کہ وہ کس چیز کو کس زاویے اور نقطہ نظر سے دیکھتی ہے‘ تاہم اس مسافر کو جتنا لطف پراگ میں آیا بوڈاپسٹ میں نہیں آیا۔مگر یہ صرف پراگ سے تفابلی حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ بصورت دیگر بوڈاپسٹ ایسا شہر ہے جسے موقع ملے تو زندگی میں کم ازکم ایک بار ضرور دیکھنا چاہئے۔ پراگ کا سب سے بڑا مزہ یہ ہے کہ تقریباً سب کچھ آپ کی پیدل دسترس میں آ جاتا ہے۔ اگر مناسب جگہ پر رہائش مل جائے‘ جیسا کہ اس مسافر کو میسر آئی تھی تو تقریباً سارے قابلِ ذکر اور قابلِ دید مقامات پیدل دس سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر موجود ہیں جبکہ بوڈاپسٹ میں چیزیں تھوڑی بکھری ہوئی ہیں اور ڈاؤن ٹاؤن جسے ہم اپنی دیسی زبان میں اندرون شہر کہہ سکتے ہیں شہر کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے مرکزی حیثیت حاصل نہیں کر سکا بلکہ شہر کے دونوں حصوں میں کوئی باقاعدہ ڈاؤن ٹاؤن سرے سے موجود ہی نہیں۔ شہر کے ماحول میں وہ قدامت بھی مفقود ہے جو پراگ میں دکھائی دیتی ہے۔
بوڈاپسٹ کی پسٹ سائیڈ میں ہنگیرین پارلیمنٹ‘ سینٹ سٹیفن بیسلیکا‘ چین برج‘ سنٹرل مارکیٹ ہال اور شوز آن ڈینیوب بینک قابل ذکر مقامات ہیں۔ شوز آن ڈینیوب بینک دراصل اسی یہودی پراپیگنڈے کا حصہ اور حوالہ ہے جو یورپ میں بڑی شدو مد کے ساتھ عام کیا گیا ہے۔ یہ دھات سے بنے ہوئے دو اڑھائی درجن جوتوں کے جوڑے ہیں جن میں زنانہ‘ مردانہ اور بچگانہ جوتے شامل ہیں۔ ان جوتوں کے بارے میں قصہ یہ ہے کہ 45-1944ء میں ہنگری کی ایرو کراس پارٹی نے اپنے مخالفین کو ختم کرنے کی مہم کے دوران اسی مقام پر جو ہنگیرین پارلیمنٹ کی عمارت سے تین سو میٹر جنوب میں دریائے ڈینیوب کے کنارے پر ہے تقریباً تین ہزار پانچ سو افراد کو دریا کے کنارے پر کھڑا کر کے گولی ماری اور انہیں دریا میں پھینک دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایرو کراس پارٹی کے فائرنگ سکواڈ والوں نے گولی مارنے سے قبل تمام افراد کے جوتے جو اس زمانے میں مہنگی چیز تصور ہوتے تھے اس مقام پر اتروا لیے تاکہ یہ قیمتی شے ضائع نہ ہو جائے۔ 16 اپریل 2005ء کو ان مرنے والوں کی یاد میں اسی جگہ پر دھات سے بنے ہوئے یہ جوتے رکھے گئے ہیں جو اسی زمانے کے ڈیزائن کے ہیں۔ مقامِ حیرت یہ ہے کہ اس جگہ کل 3500افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے 800 یعنی کل مرنے والوں کا23 فیصد یہودی تھے‘ لیکن پروپیگنڈے کی مضبوطی کا یہ عالم ہے کہ مرنے والے دیگر 2700افراد کے بارے میں تاریخ اور تاریخ دان خاموش ہیں جبکہ 800 یہودیوں کا قتل دیگر ستتر فیصد قتل ہونے والوں پر غالب آ گیا ہے۔ ان جوتوں کے اوپر نیلے رنگ کے ڈیوڈ سٹار والے کاغذی پرچم لگے ہوئے تھے۔