"KMK" (space) message & send to 7575

ساڈا چہرہ پڑھ‘ حالات نہ پُچھ

آپ یقین کریں سفر میرا شوق بھی ہے اور دل لگانے کا بہانہ بھی‘ لیکن موجودہ حالات میں کم از کم اس کا مجھے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ ملکی سیاست پر کڑھنے سے بچ جاتا ہے۔ دورانِ سفر کوشش کرتا ہوں کہ جس ٹینشن زدہ سیاست کو پیچھے چھوڑ کر آیا ہوں اس سے اس دوری کے طفیل دامن بچائے ہی رکھوں مگر کیا کروں۔ جب میرا کالج اور یونیورسٹی فیلو (خواہ مجھ سے بہت جونیئر ہی کیوں نہ تھا) عثمان بزدار جیسا قطعاً غیرسیاسی بندہ بھی تونسہ سے بھاگ کر کوئٹہ پہنچ جائے اور سیاست سے دستبرداری والی وبا کا شکار ہو کر اس سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دے جو اس بے چارے بھولے سائیں نے کبھی کی ہی نہیں تھی تو بندہ بھلا اس قسم کے سیاسی مظالم پر لکھنے سے کیسے باز رہ سکتا ہے؟
عثمان بزدار بے چارے نے تو اپنی وزارتِ علیا کا سارا وقت صرف اور صرف لوگوں کو راضی کرنے میں گزار دیا۔ احسن جمیل گجر‘ فرح خان‘ بشریٰ بی بی‘ چودھری پرویز الٰہی اور سب سے سے بڑھ کر عمران خان صاحب کو خوش رکھنے میں مصروف رہے۔ رواداری‘ انکسار اور دل کی نرمی کا یہ عالم تھا کہ اس عاجز کی گستاخیوں‘ بدتمیزیوں اور مسلسل تنقید کے باوجود ہمیشہ اپنا سینئر سمجھا اور مختلف دوستوں کے ذریعے نہایت دل لبھانے والی اور طبیعت کو للچانے والی پیشکش کر دیتے۔ جب بندہ ہر طرف سے تنقید کرنے والوں کو‘ حاسدوں کو‘ ناکام امیدواروں کو‘ مربیوں کو‘ پارٹی کے لیڈر کو‘ لیڈر کے پیاروں کو‘ آگے سے ان پیاروں کے پیاروں کو‘ بیورو کریسی کو اور حصہ داروں کو راضی کرنے میں‘ خوش رکھنے میں لگا رہے تو بھلا اس نے اور کیا کرنا ہے؟ ایسے میں اگر اس کے بھائی‘ دوست‘ رشتہ دار اور حصہ دار لوٹ مار کا بازار گرم کر دیں اور ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''انّی ڈال دیں‘‘ تو بھلا ہر فریق کو راضی رکھنے میں مصروف وزیراعلیٰ اکیلا کیا کر سکتا ہے؟ ویسے بھی بندے کے بھائی اور دوست وغیرہ عرصے سے دل میں دبی ہوئی خواہشات کو پورا کرنے میں اگر وزیراعلیٰ کی عزت کا خیال نہ رکھیں تو با مروت وزیراعلیٰ بھلا کیا کر سکتا ہے؟ یہ تو لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے تھا‘ ان کی بندہ پروری اور اقربا پروری کا یہ عالم تھا کہ بھائی عمر بزدار اور دوست طور خان کی چیرہ دستیوں پر دل ہی دل میں کڑھنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکے اور بزرگوں کے ادب کا یہ عالم تھا کہ ان سے اپنے محترم پھوپھا امیر تیمور بزدار کی پولیس سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بے کاری نہ دیکھی گئی تو انہوں نے ان کے لیے ڈائریکٹر سپیشل برانچ جنوبی پنجاب کا ایک نیا عہدہ تخلیق کیا اور ان کو اس پر کنٹریکٹ پر لگا کر اپنے باادب بانصیب ہونے کا ثبوت بھی دیا۔
عالم یہ ہے کہ اب ایسے مرنجاں مرنج شخص کو بھی جو نو مئی کو تونسہ کے بزدار ہائوس میں مزے سے سویا ہوا خواب میں پنجاب کی اگلی وزارتِ اعلیٰ کے لیے چودھری پرویز الٰہی سے ملاکھڑا لڑنے میں مصروف تھا اور اس دوران اکھاڑے کے باہر بیٹھے ہوئے سپورٹرز جن میں بشریٰ بی بی‘ فرح خان اور احسن جمیل گجر بھی شامل تھے‘ ان کی ڈھارس بھی بندھا رہے تھے اور حوصلہ بھی دے رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نو مئی کو تونسہ کے بزدار ہائوس میں سوئے ہوئے بھولے سائیں کا بھلا نو مئی کو ہونے والے جناح ہائوس کے سانحے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ کیا آئندہ وزارتِ عالیہ کے خواب دیکھنا اتنا بڑا جرم ہے کہ بندے کو سیاست سے ہی اس طرح آئوٹ کیا جائے کہ اس کی آئندہ لاٹری نکلنے کے امکانات ہی ختم ہو جائیں؟
میں نے فون پر شاہ جی سے پوچھا کہ اس عمر میں چودھری پرویز الٰہی بہادری کا کون سا کشتہ کھاتے ہیں کہ وہ اس سارے ہنگامہ ہائے دار وگیر میں ثابت قدمی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں اور برسر عام للکارے جا رہے ہیں کہ ان پر سو کیس بھی بنا دیے جائیں تو بھی وہ عمران خان اور تحریک انصاف کو نہیں چھوڑیں گے۔ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے کہ تم یا تو واقعی بھولے آدمی ہو یا پھر بن رہے ہو۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ کو یہ نامعقول قسم کا شبہ کیسے پیدا ہوا؟ شاہ جی کہنے لگے: تم چودھری پرویز الٰہی کی ثابت قدمی کے بجائے ان کے دھڑا دھڑ بری ہونے پر غور کرو‘ حکومت ان کا عدالت میں ریمانڈ لینے جاتی ہے اور عدالت ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ سنانے کے بجائے ان کو سرے سے ہی بری کردیتی ہے۔ کم از کم میری یادداشت میں تو ایسا کوئی کیس نہیں ہے جس میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی بندہ بری ہو جائے۔ یعنی نہ ریمانڈ ہوا‘ نہ تفتیش ہوئی‘ نہ گواہ لگے‘ نہ بحث ہوئی‘ نہ ثبوت ملے اور نہ عدم ثبوت کا مرحلہ درپیش آیا۔ استغاثہ نے کہا کہ برآمدگی اور تفتیش کرنا ہے‘ ریمانڈ دیں۔ عدالت نے چالان مکمل ہونے اور تفتیشی افسر کو مثل مکمل کرنے کا کوئی موقع فراہم کیے بغیر کیس کا فیصلہ ہی کر دیا۔ یہ تاریخِ عالم کا سب سے جلد ملنے والا انصاف ہے۔ اللہ کرے کہ جلد انصاف فراہم کرنے کی روایت قائم رہے اور اس ملک کے مجبور اور مقہور بے نوائوں کو بھی یہ سہولت مل سکے۔ ادھر اپنے شاہ محمود قریشی بھی اب باہر آگئے ہیں اور دو چار دن بعد وہ بلی بھی تھیلے سے باہر آجائے گی جو اس ڈیل میں طے ہوئی ہے۔ اگر آپ دماغ پر تھوڑا زور دیں تو چودھری پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی والا پزل حل کرنا زیادہ مشکل نہیں۔
میں نے برطانیہ میں مقیم بلکہ زیادہ مناسب الفاظ میں پناہ گزین اپنے ملتان کے ایک ایم پی اے دوست کو ادھر سے فون کرنے کی کئی بار کوشش کی ہے مگر اس کا فون مسلسل بند ہے‘ مجھے اس کا فون بند ملنے پر رتی برابر الجھن یا تنگی نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے احتیاط علاج سے بدر جہا بہتر ہے۔ ویسے بھی پریس کانفرنس کرنے کے لیے کسی ہوٹل یا پریس کلب میں جانے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ کہیں اور منہ کر جائے۔
ہمارے ایک دوست کا ہمیشہ سے یہ کہنا تھا کہ جب بھی ملتان سے باہر چلا جائوں ملتان کے حالات بہتر ہو جاتے ہیں اور جب ملک سے باہر چلا جائوں تو ملک کے حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ میں نے ہزار بار یہ کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو میں ملتان اور پاکستان سے جتنا باہر رہتا ہوں‘ ادھر کے حالات تو نہایت ہی آئیڈیل ہونے چاہئیں مگر وہ جواباً کہتا ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو تو حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کل میں نے اسے فون کر کے پوچھا کہ کیا تم اب بھی یہی کہو گے کہ پاکستان کے حالات میرے باہر جانے سے بہتر ہو جاتے ہیں؟ وہ آگے سے نہایت ڈھٹائی اور اعتماد سے کہنے لگا کہ تمہارے باہر جانے کی برکت ہے کہ ملک آہستہ آہستہ سیاسی نظر بٹوئوں سے پاک ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا اسے یقین ہے کہ تائب ہونے کا اعلان کرنیوالے سارے پریس کانفرنس زدہ سیاستدان الیکشن کا اعلان ہوتے ہی اپنے قائد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یوٹرن نہیں لیں گے؟ وہ کہنے لگا: اس وقت تک یہ سارے پنچھی کسی نہ کسی ڈالی پر بیٹھے چہچہا رہے ہوں گے۔ میں نے کہا کہ عمران خان ان سب کی مجبوریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور صرف وہی کیا‘ سب کو پتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پریس کانفرنس کرنے والوں کی شکلیں دیکھو تو شاکر شجاع آبادی کا دو ہڑا یاد آ جاتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ
اساں اجڑے لوک مقدراں دے
ویران نصیب دا حال نہ پُچھ
توں شاکرؔ آپ سیانا ایں
ساڈا چہرہ پڑھ‘ حالات نہ پُچھ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں