"KMK" (space) message & send to 7575

وہ کام کریں جو کرنے والے ہیں

اب اس دوست کا نام کیا لکھنا؟ تاہم آپ یقین کریں یہ کوئی فرضی یا قلمی دوست نہیں جسے محض کالم بنانے یا کالم کا پیٹ بھرنے کیلئے خیالی طور پر تخلیق کیا ہو۔ یہ نہ صرف میرا دوست ہے بلکہ برطانیہ میں چند سب سے پرانے دوستوں میں سے ایک ہے اور بیرونِ ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کی طرح آج کل کے رواج کے عین مطابق پی ٹی آئی کا زبردست سپورٹر ہے لیکن اپنی باتوں میں وزن پیدا کرنے کی غرض سے منہ زبانی حساب سے غیر جانبدار ہے اور اس کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک بات دھیان میں رہے کہ اس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہ ہونے کے اعلان کا تعلق فی زمانہ اعلانِ لاتعلقی والی مہم سے ہرگز نہیں۔
وہ زبانی کلامی حساب سے تو قعطاً غیر جانبدار ہے تاہم اس غیر جانبداری کے خود ساختہ اعلان کے علاوہ اس کی ساری گفتگو‘ حرکتیں اور جذبات گوڈے گوڈے عمران خان کی محبت کے ''کھوبے‘‘ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ میرا اس سے پہلے روز معاہدہ ہوا تھا کہ ہم سیاسی گفتگو نہیں کریں گے مگر وہ ہر دو منٹ بعد کسی نہ کسی حوالے سے سیاست کو گھسیٹ کر گفتگو کا حصہ بنا لیتا ہے۔ اس کی گفتگو اور اس دوران اس کی سیاسی جُگتوں کو میں نظر انداز کرتا رہتا ہوں لیکن کبھی کبھی تنگ آکر اس کی (اپنی طرف سے) طبیعت صاف کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ نہ صرف یہ کہ چکنا گھڑا ہے بلکہ ہر دو منٹ بعد وہ اپنی بات سے یوٹرن لے کر اپنے غیر اعلان کردہ لیڈر کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
دو چار دن پہلے اس نے کسی بات پر پاکستان کے حالات کا سارا ملبہ یکطرفہ طور پر ایک ہی طرف پر ڈالنا شروع کر دیا۔ میری بلا سے‘ جس پر مرضی ڈالے مجھے کیا۔ میں اس کی ساری گفتگو مکمل طور پر نظرانداز کرتا رہا تو اس کو مزید تاؤ آ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ میں اس سے بحث کروں گا لیکن جب یہ اندازہ سو فیصد غلط ثابت ہوا تو وہ گول مول گفتگو کرنے کی بجائے باقاعدہ بازو چڑھا کر بڑے بڑے اعلان کرنے لگ گیا۔ کہنے لگا: میں حکومت پاکستان کے حالیہ اعلان کہ وہ سوشل میڈیا پر اداروں اور امپورٹڈ حکومت کے پول کھولنے والے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکیٹوسٹ اوورسیز پاکستانیوں کے خلاف ایکشن لے گی اور نہ صرف یہ کہ ان کے نائیکوپ کینسل کر دے گی اور پاکستان پہنچنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی بلکہ ان کو ضرورت پڑنے پر انٹر پول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستان لائے گی‘ بطور احتجاج اپنا پاکستانی پاسپورٹ جلا دوں گا۔ اس کے اس دعوے پر مجھے اپنی خاموشی ختم کرنی پڑی‘ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ کام کب کرے گا؟ میں نے جونہی یہ سوال کیا اس کی ہوا تھوڑی ڈھیلی ہوئی اور کہنے لگا کہ وہ اس سلسلے میں اپنے ہم خیال دوستوں سے مشورہ کرے گا اور پھر وہ سب لوگ اجتماعی طور پر لندن جا کر پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے اپنے پاسپورٹ اور نائیکوپ جلائیں گے۔ میں نے کہا: میں ابھی کچھ دن ادھر ہی ہوں اور مجھے اگر اس منظر کو دیکھنے کیلئے اپنی فلائٹ دو چار دن آگے بھی کروانا پڑی تو میں کروا لوں گا مگر اس تاریخی منظر کو دیکھنے کا موقع ضائع نہیں کروں گا۔ میرا اشتیاق اور ثابت قدمی دیکھ کر وہ کہنے لگا: ممکن ہے ہم پاسپورٹ نہ جلائیں کیونکہ ادھر پبلک میں اس طرح چیزوں کو اجتماعی صورت میں جلانے سے سیفٹی کے معاملات پیدا ہو سکتے ہیں‘ اس صورت میں برطانوی حکومت ہمیں دوسرے لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے جرم میں گرفتار کر سکتی ہے‘ ہم اس کی کوئی دوسری صورت بھی سوچ سکتے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ ادھر آپ کا قانون اتنا سخت ہے کہ وہ آپ کو اپنا ذاتی پاسپورٹ سر عام پبلک میں جلانے کی اجازت نہیں دیتا اور اوپر سے آپ بھی اتنے قانون پسند ہیں کہ بجائے حکومت سے یہ کہیں کہ ''میرا پاسپورٹ میری مرضی‘‘ آپ فوراً پُرامن اور قانون پسند شہری بن کر اپنی حکومت کے فضول سے قانون کو بھی توڑنے پر راضی نہیں اور دوسری طرف آپ نو مئی کو سرکاری املاک جلانے والوں پر ہونے والی قانونی کارروائی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہو۔ عجب منافقت ہے کہ آپ اپنی اس برطانوی شہریت کو تو خطرے میں نہیں ڈال رہے جو آپ کو اپنا ذاتی اور ایک ایسا پاسپورٹ بھی پبلک میں نہیں جلانے دیتی جو سرے سے برطانوی ہی نہیں؛ تاہم دوسری طرف آپ اپنی دوسری شہریت والا پاسپورٹ اس لیے جلانے کا اعلان کر رہے کہ پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ‘ لوٹ مار‘ توڑ پھوڑ اور سرکاری املاک کو جلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے۔ واہ جی واہ! قانون پسندی اور جمہوریت نوازی‘ شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے بارے میں آپ کے کیا عمدہ اور منافقت بھرے اصول ہیں۔
میری اس بات پر میرے اس دوست کو نہ تو کوئی جواب سوجھ رہا تھا اور نہ ہی کوئی جواز سجھائی دے رہا تھا۔ کہنے لگا: دیکھتے ہیں دوست کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے کہا: کل اتوار ہے اور چھٹی کا دن ہے‘ ایسا کرو سب دوستوں کا اجلاس بلا لو‘ ذرا میں بھی دیکھوں آپ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ویسے میرا مشورہ ہوگا کہ پاسپورٹ جلانے کے بجائے آپ اسے پھاڑ دیں۔ مقصد تو اس دوسری شہریت سے نجات حاصل کرنا ہے جس میں انسانی اور سیاسی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ کل آپ کوئی فیصلہ کر لیں اور پھر لندن اکٹھے چلتے ہیں۔ جب آپ پاسپورٹ پھاڑو گے‘ میں آپ کی وڈیو بناؤں گا۔ ظاہر ہے آپ بیک وقت دونوں کام تو نہیں کر سکیں گے۔ وہ آگے سے ایک دم پھٹ پڑا اور کہنے لگا: تم میرے دوست ہو یا دشمن؟ اگر یہ وڈیو وائرل ہو گئی تو مجھے پاکستان اترتے ہی ایف آئی اے پکڑ لے گی۔ میں نے کہا: آپ کی یادداشت شاید بالکل ہی خراب ہو چکی ہے۔ آپ تو اپنا پاسپورٹ پھاڑ چکے ہیں اور بغیر پاسپورٹ بھلا آپ پاکستان جائیں گے کیسے؟ اور جب جائیں گے نہیں تو پھر پکڑے کیسے جائیں گے؟
اگلے دو دن میں اس سے یہی پوچھتا رہا کہ وہ کب لندن جا رہا ہے۔ تیسرے دن تنگ آکر وہ کہنے لگا کہ آخر اسے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اسے کہا کہ میں اس کے جذبات کی قدر کرتا ہوں‘ مگر آپ لوگوں کو دو کام کرنے چاہئیں‘ پہلا یہ کہ پاکستان کی سیاست میں آنے والی انتہا پسندی اور وسیع ترین خلیج کو آپ پاکستان میں ہی رہنے دیں اور یہاں موجود پاکستانی کمیونٹی کو پاکستانی سیاست کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بجائے بطور پاکستانی‘ بھارتیوں کی طرح اکٹھے ہو جائیں۔ بھلے آپ پاکستان سے لوٹ مار کرکے آنے والوں کی دبا کر بے عزتی کریں مگر آپس میں دشمنی کی بنیاد نہ بنائیں۔ دوسری یہ کہ اپنی صلاحیتیں مقامی سیاست میں صرف کریں اور اب اس ملک میں اپنا نام پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے ملتان کے دوست طہٰ قریشی نے ادھر اپنی صلاحیتوں کے بل پر ممبر برٹش ایمپائر کا اعزاز حاصل کیا ہوا تھا اب اس سال شاہ چارلس نے ہمارے طالب علمی کے دوست اور میاں چنوں کے رہائشی احسان شاہد کو خیراتی کچن چلانے پر اور ہمارے ایک دوست عارف انیس‘ جو اپنی موٹیویشنل کارکردگی اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتے ہیں‘ کو ''ون ملین میل‘‘ نامی مہم کی کامیابی پر آرڈر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز بخشا ہے۔ ادھر بھارتی نژاد بندہ وزیراعظم بن گیا ہے اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اگر پاکستانی اپنے آپس کے اختلاف ختم کرکے سنگل کمیونٹی کے تحت برطانیہ کی سیاست میں حصہ لیں تو آپ برطانوی پارلیمنٹ میں تیس چالیس نشستیں لے سکتے ہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ وہ کام کریں جو کرنے والے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں