"KMK" (space) message & send to 7575

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے

چند روز قبل دبئی میں ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری میں بہت اہم ملاقات ہوئی اور اس میں ایک اطلاع کے مطابق ملک کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے علاوہ آئندہ ہونے والے الیکشن اور اس کیلئے قائم ہونے والی عبوری حکومت کے بارے میں بہت سے معاملات زیر غور آئے اور اس سلسلے میں اہم امور پر اتفاقِ رائے بھی ہوا۔سچ پوچھیں تو یہ خبر میرے لیے حیرانی سے زیادہ پریشانی کا باعث ہے ۔ میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوں کہ ان دونوں حضرات کا نگران حکومت بنانے میں کیا آئینی کردار ہے جس کے تحت یہ دونوں حضرات دبئی میں بیٹھ کر پاکستان کے آئندہ الیکشن کیلئے نگران سیٹ اَپ کے بارے میں فیصلے فرما رہے ہیں؟
آئین کے آرٹیکل (1A)224 کے تحت یہ اختیار فراغت پانے والی اسمبلی کے وزیراعظم اور قائدِ حزب اختلاف کو تفویض کیا گیا ہے کہ وہ باہمی مشاورت سے یہ فریضہ سرانجام دیں اور اگر وہ دونوں اس معاملے میں کوئی مشترکہ فیصلہ نہ کر سکیں تو پھر یہ فریضہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آ جاتا ہے۔ ان ساری آئینی تصریحات کی روشنی میں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کہاں سے آ گئے؟ موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف بے شک میاں نوازشریف کے حکم کے پابند برادرِ خورد ہیں اور جیسا کہ میں پہلے اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ قومی اسمبلی کے موجودہ لیڈر آف دی اپوزیشن راجہ ریاض موجودہ حکومت کیلئے قائد حزب اختلاف کم اور ان کی پاکٹ یونین زیادہ ہیں۔ یہ ایسی یونین ہوتی ہے جو مزدوروں کے مفادات کے بجائے اپنے آقائے ولی نعمت کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے اور اس کے عوضانے میں اپنی جیب گرم رکھتی ہے۔ یہ مالکان یا انتظامیہ کی جیب میں پڑی ہوتی ہے ‘اسی لئے اس کو پاکٹ یونین کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس قسم کا پاکٹ یونین ٹائپ لیڈر آف دی اپوزیشن ہماری نظر سے نہیں گزرا جیسا اپنے راجہ ریاض صاحب ثابت ہوئے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک اسمبلی کی مدت میں توسیع کے بارے میں کوئی بات نہیں کی لیکن یکطرفہ تعاون کے شوق میں گوڈے گوڈے پھنسے ہوئے راجہ ریاض از خود ہی آفر کئے جا رہے ہیں کہ اگر حکومت نے اسمبلی کی مدت میں توسیع کی قرارداد پیش کی تو وہ اس کی حمایت کریں گے۔ ظاہر ہے وہ اپنی لیڈری اور اسمبلی کی سیٹ کی مدت کو جتنا لٹکا لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ ان کے اسمبلی میں دوبارہ رونق افروز ہونے کے امکانات خود ان پر بھی واضح ہیں۔
ادھر دبئی میں نوازشریف اور آصف علی زرداری نگران وزیراعظم کے نام پر غور کر رہے ہیں اور اُدھر ملتان میں ایک متوقع نگران وزیراعظم کیلئے مبارکباد کے اشتہار زوروں پر ہیں۔ یہ متوقع نگران وزیراعظم ہمارے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے چچا شوکت حسین گیلانی کے فرزند ارجمند سید تنویر گیلانی ہیں۔ تنویر گیلانی 1990ء میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 116ملتان III سے آئی جے آئی کی طرف سے پی ڈی اے کے امیدوار ملک مختار اعوان کو شکست دے کر رکنِ قومی اسمبلی بنے تھے۔ یہ اُن کی پہلی اور آخری سیاسی کامیابی تھی۔ جیتنے کے بعد وہ کسی ہوا میں آ گئے اور اس وقت کے اپنے پارٹی لیڈر اور وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف آئی جے آئی میں ہونے والی اُس بغاوت کا حصہ تھے جو بُری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ آٹھ دس لوگوں پر مشتمل اس ناکام بغاوت میں ان کے ساتھ ملک غلام مرتضیٰ کھر اور میر بلخ شیر مزاری وغیرہ بھی شامل تھے۔
بعد ازاں 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت رخصت کر کے اسمبلیاں توڑ دیں۔ نگران وزیراعظم کے طور پر سردار بلخ شیر مزاری نے حلف اٹھا کر اپنی کابینہ تشکیل دی تو تنویر گیلانی مورخہ 27 اپریل سے لے کر تین مئی تک مبلغ چھ دن پارلیمنٹری افیئرز اور مورخہ تین مئی سے لے کر 26 مئی تک 23 دن نگران وفاقی وزیر برائے یوتھ افیئرز رہے۔ یہ اُن کی آخری سیاسی رونمائی تھی۔ تاہم اس میں سب سے غور طلب چیز یہ ہے کہ دبئی میں میاں نوازشریف اور زرداری صاحب کی ہونے والی میٹنگ میں کیا سید تنویر گیلانی کا نام زیر غور آیا ہوگا؟ میں نے یہ سوال شاہ جی سے کیا تو وہ ہنسنے لگ گئے۔ کہنے لگے: آپ میاں صاحب کی دل میں کینہ رکھنے والی عادت سے تو بخوبی آگاہ ہوں گے۔ بھلا جس بندے نے ان کے خلاف بغاوت کی کوشش کی ہو‘بے شک وہ ناکام ہی کیوں نہ ہو۔ میاں صاحب اسے اپنے دل سے نہ تو کبھی بھلا سکتے ہیں اور نہ ہی معاف کر سکتے ہیں۔ پھر مزید ہنس کر کہنے لگے :بعض لوگ کس قدر احمق ہوتے ہیں کہ محبت میں بندے کا مزید پٹڑا کر دیتے ہیں۔ سید تنویر گیلانی کی بطورنگران وزیراعظم کی اس متوقع تقرری کی جو سرے سے نہ تو کہیں زیر بحث ہے اور نہ ہی زیر غور ہے پر مبارکباد والے اشتہار میں ان کے چاہنے والے نے جنرل (ر) فیض حمید کی تصویر بھی لگا دی ہے۔ آج کل جنرل فیض حمید کی تصویر لگانا اور نو مئی کے واقعات کی تعریف و توصیف کرنا ایک جیسی بڑی حماقت ہے جس کا خمیازہ بھگتے بغیر کسی کی خلاصی نہیں ہو سکتی۔
میں نے کہا: شاہ جی! ممکن ہے سید تنویر گیلانی کا نام بطور نگران وزیراعظم اپنے گرائیں سید یوسف رضا گیلانی نے زرداری صاحب تک پہنچایا ہو اور زرداری صاحب نے لاعلمی میں نوازشریف کے سامنے انکا نام بطور متوقع نگران وزیراعظم دے دیا ہو۔ شاہ جی یہ سُن کر پہلے سے بھی زیادہ زور سے ہنسے اور کہنے لگے: پاکستان میں کوئی سیاستدان اپنے کسی رشتے دار یا عزیز کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ آپ کو شاید گیلانی خاندان کے اندر موجود چپقلش اور گروہ بندی کا علم نہیں۔ گیلانی خاندان میں سید موسیٰ پاک شہید کے دربار کی گدی نشینی پر آپس میں زوروں کی سرد جنگ جاری ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ سرد جنگ باقاعدہ گرم جنگ میں بھی بدل جاتی ہے‘ جیسا کہ تھوڑا عرصہ پہلے تجمل حسین گیلانی کی تدفین کے وقت پھڈا پڑا تھا۔ میں نے پوچھا :شاہ جی! یہ تدفین پر کیسا پھڈا پڑا تھا؟شاہ جی کہنے لگے: آپ تو ہمہ وقت کسی نہ کسی مخدوم یا گدی نشین کا سلسلۂ اراضی و جائیداد انگریزوں سے جوڑنے اور ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں‘ آپ کو مخدوموں کی خاندانی اور گدی نشینی کی مشکلات اور مسائل کا کیا اندازہ؟ موسیٰ پاک شہید کے دربار کی گدی نشینی محمد غوث ثالث‘ شیخ عبدالقادر سادس المعروف سید ولایت شاہ‘ خان بہادر مخدوم محمد غوث رائع المعروف سید صدر الدین اور مخدوم غلام مصطفی سے ہوتی ہوئی سید شوکت حسین گیلانی تک تو بلا کسی تنازع چلتی رہی مگر اس کے بعد خاندان میں گدی نشینی پر پھڈا پڑ گیا۔ مخدوم شوکت گیلانی کے بعد گدی نشینی سید وجاہت گیلانی کو ملی جو یوسف رضا گیلانی کے برادرِ نسبتی بھی ہیں۔ اسی پر تجمل گیلانی ناراض ہو گیا اور ایسا پہلی بار ہوا کہ دربار کے باہر دو مخدوم اپنی اپنی بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ گدی نشین تو مخدوم وجاہت گیلانی تھے مگر پیری مریدی زیادہ مخدوم تجمل گیلانی کی چلتی تھی۔ مقبرے کے اندرونی کمرے میں صرف گدی نشین کی تدفین ہوتی ہے جبکہ دیگر خاندان کے لوگوں کو دربار کے احاطے میں دفن کیا جاتا ہے۔ تجمل گیلانی کی وفات پر ان کے ورثاکا اصرار تھا کہ انہیں اندر والے کمرے میں دفن کیا جائے۔ سارا گیلانی خاندان تجمل گیلانی کے ورثاکے ساتھ تھا جبکہ یوسف رضا گیلانی اکیلے ایک طرف تھے۔ بڑی بدمزگی کے بعد تجمل گیلانی کو تقریباً زبردستی کمرے کے اندر دفن کیا گیا۔اب جس قسم کی افواہیں تنویر گیلانی کے نگران وزیراعظم کیلئے اُڑ رہی ہیں ایسی افواہیں ان کے چچا سید حامد رضا گیلانی کے بارے میں بھی اُڑتی تھیں‘ بلکہ وہ اڑوایا کرتے تھے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں