"KMK" (space) message & send to 7575

ووٹ کو تو اب بڑی عزت مل رہی ہے

میاں نوازشریف واپسی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں مگر ہمارے شاہ جی کا اب بھی یہی اصرار ہے کہ چائے کے کپ کو میز سے اُٹھا لینے سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ آپ اسے پی بھی لیں گے۔ کپ کو میز سے اٹھا کر اس میں سے چائے کا گھونٹ بھرنے تک کے درمیان جو مرحلہ ہے‘ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن میں نے شاہ جی کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میاں صاحب کے گزشتہ بیانیے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا تو خیر سے بری طرح دھڑن تختہ ہو چکا ہے‘ اب وہ کون سا نیا بیانیہ لے کر آ رہے ہیں؟
شاہ جی کہنے لگے: بیانیے پر لعنت بھیجو‘ اس قوم کو اپنے اپنے لیڈر سے غرض ہے۔ ورکر کو اس سے قعطاًکوئی غرض نہیں کہ اس کا لیڈر کیا کہہ رہا ہے۔ اسے تو صرف یہ معلوم ہے کہ اس کا لیڈر جو کہہ رہا ہے‘ وہ اس کے لیے حرفِ آخر ہے اور اس پر ایمان لانا اس پر فرض ہے۔ ورکروں کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اپنے لیڈر کی ایسی باتوں پر بھی یقینِ کامل رکھتے ہیں جن کو عام تام پاگل بھی سُنے تو اس کی ہنسی نکل جائے ‘لیکن کوئی ورکر اپنے لیڈر کی بات کو عقل سے پرکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔ اس لیے اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ کون سا لیڈر اس بار کون سے بیانیے کا چورن بیچنے کے لیے مارکیٹ میں لا رہا ہے۔ لیڈر‘ مارکیٹ میں جس چیز کی ڈیمانڈ ہوتی ہے‘ اس کی مارکیٹنگ کرنا شروع کرتا ہے اور ورکر اس پر فوراً ایمان لے آتا ہے۔ اب میاں صاحب مہنگائی اور غربت کے خلاف بیانیہ لا رہے ہیں اور اس بیانیے پر سارے (ن) لیگئے فوراً ایمان لے آئیں گے۔ کوئی شخص یہ سوال نہیں کرے گا کہ جس مہنگائی اور غربت کے خلاف آپ بیانیہ لے کر آئے ہیں اس میں آپ کے برادرِ خورد کی قیادت میں قائم پی ڈی ایم کی سولہ ماہی حکومت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ملتان کی حد تک میاں نواز شریف کے سابقہ بیانیے کا جس بری طرح مسلم لیگ (ن) نے تیا پانچہ کیا ہے‘ اور ووٹ کی عزت جس طرح تار تار ہوئی ہے‘ اس طرح کا سلوک تو پینجہ مشین روئی کے ساتھ بھی نہیں کرتی۔ ووٹ کو عزت دینے کا یہ عالم ہے کہ ضلع ملتان کی چھ عدد قومی اسمبلی کی نشستوں پر آئندہ انتخابات میں چار عدد نشستوں پر گمان‘ تاہم تین عدد نشستوں پر طے ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ پی ٹی آئی کے منحرفین کو اول تو ٹکٹ دے گی ورنہ اس حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ ملتان کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154سے الیکشن 2018ء میں پی ٹی آئی کی طرف سے جیت کر مزے کرنے اور عمران خان کے اقتدار کے آخری دنوں میں وفاداری تبدیل کرکے نام نہاد اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی سربراہی میں قائم پی ٹی آئی کے باغی گروپ میں شامل ہو کر دوبارہ مزے کرنے والے احمد حسین ڈیہڑ اب اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہوں گے۔ یعنی پرانے مسلم لیگیوں میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ اسے اس حلقے سے پارٹی کی ٹکٹ دی جائے۔ مسلم لیگ (ن) کا ملتان کے حلقہ این اے 154سے امیدوار پی ٹی آئی کا سابقہ بھگوڑا ایم این اے ہوگا۔ اسے کہتے ہیں ''ووٹ کو عزت دو‘‘۔
ضلع ملتان کے دوسرے حلقے یعنی این اے 155‘ ملتان iiسے پی ٹی آئی کی طرف سے عامر ڈوگر جیتا تھا۔ عامر ڈوگر سے اختلافات کے باوجود اس عاجز کا یہ ماننا ہے کہ عامر ڈوگر میں وہ تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں جو فی زمانہ الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لیے درکار ہیں۔ شہر بھر میں لوگوں کی غمی خوشی میں شریک ہونے‘ ان کے ساتھ ہمہ وقت تھانے کچہری میں جانے کے لیے تیار اور دستیاب عامر ڈوگر نے نو مئی کے واقعہ کے سلسلہ میں کافی دن جیل میں گزارے۔ اس دوران کئی بار افواہ اُڑی کہ عامر ڈوگر عنقریب پریس کانفرنس کرنے والا ہے مگر ایسا نہ ہوا۔ کافی دنوں کے بعد بالآخر ڈوگر کی ضمانت ہو گئی۔ اس کے سارے کاروبار جس میں سرفہرست اس کا ویگن کا اڈا تھا‘ بند کر دیے گئے تھے‘ وہ بھی کھل گئے۔ سب حیران تھے کہ ایسا کیسے ہو گیا کہ نہ صرف ضمانت ہو گئی ہے بلکہ سارے مقفل کاروبار بھی دوبارہ کھل گئے اور اسے مزید کسی مقدمے میں بھی اندر نہیں کیا گیا تو اس میں کیا راز ہے؟ اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس نے پریس کانفرنس کیے بغیر آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کی طرف سے امیدوار نہ بننے کی یقین دہانی کروا دی ہے اور طے یہ پایا ہے کہ وہ اس حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے گا اور مسلم لیگ (ن) اس حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ اسے کہتے ہیں ''ووٹ کو عزت دو‘‘۔
ضلع ملتان سے قومی اسمبلی کے تیسرے حلقے این اے 156سے ہمارے جگر جانی شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن جیتے تھے۔ ان کے نیچے تقریباً تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ ان تین میں سے ایک حلقہ پی پی 215سے جاوید اختر انصاری‘ پی ٹی آئی سے جیتا تھا۔ ویسے تو اس حلقے کی تینوں نشستیں ہی پی ٹی آئی کے پاس تھیں جن میں سے ایک شاہ محمود قریشی کے فرزندِ ارجمند زین قریشی کے پاس تھی۔ جاوید انصاری نے نو مئی کے بعد پریس کانفرنس کے ذریعے تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اب شنید ہے (اس سیٹ پر ابھی صرف قیاس آرائیوں کی حد تک بات ہو رہی ہے) کہ اس قومی حلقہ پر اب پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے جاوید انصاری مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار ہوں گے‘ یہ بھی ووٹ کو عزت دینے والا معاملہ ہے۔
ضلع ملتان کی قومی اسمبلی کی چوتھی نشست یعنی حلقہ نمبر این اے 157سے الیکشن 2018ء میں شاہ محمود قریشی کا فرزند زین قریشی کامیاب ہوا‘ تاہم بعد ازاں ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 217پر ہونے والے ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گیا جس پر پیپلز پارٹی کا امیدوار علی موسیٰ گیلانی جیت گیا۔ یہ ملتان کی واحد قومی اسمبلی کی سیٹ ہے جس پر مسلم لیگ (ن) کے پاس انتخابی حوالے سے مضبوط امیدوار غفار ڈوگر موجود ہے۔
ضلع ملتان کی قومی اسمبلی کی پانچویں نشست این اے 158پر پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر ابراہیم خان جیتا تھا؛ تاہم وہ بھی اب پریس کانفرنس کرکے پاک صاف ہو چکا ہے۔ اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کے پاس دو مناسب امیدوار موجود ہیں ایک ان کے شکست خوردہ امیدوار جاوید علی شاہ اور دوسرا حلقہ پی پی 221سے جیتا ہوا رکنِ صوبائی اسمبلی رانا اعجاز نون ہے۔
ملتان کی قومی اسمبلی کی چھٹی نشست این اے 159سے پی ٹی آئی کا منحرف اور آخری دنوں میں غچہ دینے والا رانا قاسم نون بھی اب مسلم لیگ (ن) کا امیدوار ہے۔ یعنی ضلع ملتان کی چھ قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے کم از کم تین نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف‘ باغی‘ مفرور یا مجبور اراکینِ اسمبلی کو ٹکٹ دیا جا رہا ہے جبکہ چوتھی پر شنید ہے۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ووٹ کو کتنی عزت دے رہی ہے۔
میری ساری گفتگو سننے کے بعد شاہ جی کہنے لگے کہ پی ٹی آئی کے منحرف‘ باغی‘ مفرور اور مجبور سابقہ ارکان اسمبلی کو اپنا امیدوار بنا کر مسلم لیگ (ن) نے اپنے ووٹ کو عزت دینے والے بیانیے کے ساتھ جو حشر کیا ہے وہ اپنی جگہ تاہم انہوں پی ٹی آئی کے ان لوگوں کو اپنا امیدوار بنا کر نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ 2018ء میں پی ٹی آئی نے کم از کم ملتان کی حد تک یہ نشستیں زورِ بازو سے جیتی تھیں اور یہ تمام لوگ سلیکڈ نہیں بلکہ پکے پکے الیکٹڈ ارکان اسمبلی تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں