"KMK" (space) message & send to 7575

حالیہ سیاسی بندوبست اور مارک ٹوئین کا جملہ

میں برطانیہ سے امریکہ پہنچ گیا ہوں مگرادھر چلنے والی ہوا کا رُخ بہرحال تبدیل نہیں ہوا۔اوورسیز پاکستانیوں میں عمران خان سے محبت تو خیر کیا کم ہوگی اب وہ عمران خان کو خوارکرنے کا ملبہ جس فریق پر ڈالتے ہوئے اس کے خلاف جن جذبات کا اظہار کرنے لگ گئے ہیں اس کو ضبطِ تحریر میں لانا بعدازاں پریس کانفرنس کرکے جان چھڑوانے والے حالات کی طرف لے جاتا ہے‘ اس لیے سمجھداروں سے درخواست ہے کہ وہ تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں اور خط کو تار تصور کرتے ہوئے شتابی سے نتائج اخذ کرلیں۔رہ گئے بے وقوف! تو ان کو کیونکہ سمجھانے سے بھی کوئی فائدہ یا افاقہ نہیں ہوتا اس لیے اس عاجز کو ان کی قطعاً کوئی فکر نہیں ہے۔
عمران خان کی بیرونِ ملک مقبولیت کا گراف گزشتہ کئی سال میں اونچا نیچا ہوتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس عرصے میں سنگل موسٹ پاپولر پاکستانی لیڈر کے سنگھاسن پر بہرحال براجمان رہا ہے۔ جب وہ اپنی کم ترین مقبولیت کی سطح پر بھی آیا تھا تو وہ تب بھی میاں نوازشریف یا آصف علی زرداری وغیرہ سے کہیں زیادہ مقبولیت کے درجے پر تھا۔ مولانا فضل الرحمن وغیرہ تو ادھر کسی شمار قطار میں نہیں آتے۔ لیکن فرق یہ آیا ہے کہ پہلے لوگ عمران خان کی محبت میں چار کلمات ادا کرنے کے بعد پرانے پاپی سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے تھے‘ آج کل یہ دوسرا حصہ تبدیل ہوگیا ہے اور اس تبّرے میں پاپی سیاستدانوں کی جگہ کسی اور نے لے لی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص عمران کے دیوانے کو اس کی خامیوں اور غلطیوں سے آگاہ کرتا تھا تو وہ لاجواب ہو کر یہ سوال داغ دیتا تھا کہ کیا آپ نواز شریف اور زرداری کو عمران خان سے بہتر سمجھتے ہیں؟ یہاں آ کر سوال کرنے والا خود لاجواب ہو جاتا تھا‘ تاہم اب لاجواب ہونے کے بعد وہ موازنے کیلئے میاں نواز شریف اور زرداری کا نام لینے کے بجائے اپنا رخ کسی اور طرف موڑ لیتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو سوال کرنے والا اس بار بھی لاجواب ہو جاتا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوررس نتائج کا تو اس عاجز کو علم نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ پریس کانفرنس فی الوقت ایسے لطیفے کی شکل اختیار کر چکی ہیں جن پر ہنسی کم اور رونا زیادہ آتا ہے کہ لوگ ان پریس کانفرنسوں میں ہونے والے لاتعلقی اور مذمت کے بیانات پر یقین اور اعتبار کرنے کے بجائے ان پریس کانفرنسوں کا اہتمام کرنے والوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے۔ حالیہ سیاسی موسم کی آمد سے قبل اس قسم کی باتیں کرنے والے محض چند لوگ تھے اور عوام کی اکثریت ان کو ملک دشمن اور غدار سمجھتی تھی ‘مگر اب یہ حال ہے کہ کل تک جو لوگ ایسی گفتگو کرنے والوں کے بارے میں غداری کے فتوے تقسیم کیا کرتے تھے اب خود وہی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ماضی کے رویے پر پریس کانفرنس کیے بغیر شرمندہ ہیں اور اپنے سابقہ نظریات سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے پھر رہے ہیں ‘تاہم جذباتیت کا عالم وہی پرانا ہے جب وہ فتوے بانٹ رہے تھے تب بھی وہ عقلیت یا دلیل سے بات کرنے اور سننے سے انکاری تھے اور آج جب وہ اپنے سابقہ مؤقف سے مکمل طور پر دستبردار ہو چکے ہیں عقل کو تکلیف دینے کی زحمت گوارا کرنے سے یکسر منکر ہیں۔ یہ ہم پاکستانیوں کا سیاسی طرئہ امتیاز ہے۔
خالد منیر نے مجھ سے پوچھا کہ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو کیا نتائج آئیں گے؟ میں نے کہا: وہی نتائج آئیں گے جو فی الوقت دکھائی دے رہے ہیں۔ اکنامکس میں جب کسی مسئلے پر بات کی جاتی ہے تو اس میں ایک مفروضہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دیگر سب عوامل یکساں یعنی جوں کے توں رہیں‘ تو اگر موجودہ حالات کو سامنے رکھیں اور یہ فرض کریں کہ دیگر تمام سیاسی وغیر سیاسی اور زور آوری والے عوامل جوں کے توں رہیں گے تو مجھے یہ دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کی نسبت سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی‘ تاہم وہ اکیلی حکومت بنانے کی اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی کہ اسی قسم کا بندوبست کیا گیا ہے۔ وہ بھی ایک آدھ مستعار عطا کی گئی طفیلی پارٹی کے طفیل حکومت بنا پائیں گے اور محکومانہ اقتدار سے لطف اندوز ہوں گے۔ خالد منیر پوچھنے لگا :آپ کی دیگر عوامل کے جوں کا توں رہنے سے کیا مراد ہے؟میں نے کہا :اس سے میری مراد یہ ہے کہ عمران خان جیل میں رہے‘ پریس کانفرنسیں چلتی رہیں۔ خان سے علیحدگی اختیار نہ کرنے والے سارے پی ٹی آئی لیڈر ایک کے بعد ایک اور مقدمے میں حوالۂ زنداں ہوتے رہیں۔مفرور اور زیرزمین جانے والے اسی طرح غائب رہیں۔ متوقع امیدواروں کی ''ڈھبری ٹائٹ‘‘ کردی جائے۔ کسی کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ لینے دیا جائے اور ان چند معمولی ''انتخابی اصلاحات‘‘ کے علاوہ باقی سارا الیکشن مکمل طور پر آزادانہ اور شفاف کروادیا جائے تو نتائج تقریباً وہی آئیں گے جس طرح کے نتائج کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ یہ بندوبست برصغیر میں ہونے والے شیرشاہ سوری کے پہلے بندوبستِ اراضی اور اکبر کے زمانے میں راجہ ٹوڈرمل کے زیرانتظام ہونے والے دوسرے بندوبستِ اراضی کے بغیر تیسرا سب سے جامع اور زور زبردستی والا بندوبست ہے‘ تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ شیرشاہ سوری اور ٹوڈرمَل والا بندوبستِ اراضی گزشتہ کئی صدیوں سے پٹواریوں کیلئے سہولت اور آسانی کا باعث ہے جبکہ یہ والا بندوبست پٹواریوں کیلئے شاید چند ماہ سے زیادہ سہولت کا باعث نہ بن سکے گا۔
صورتحال ابھی صاف نہیں اور ہرطرف شکوک و شبہات کے ساتھ ساتھ وسوسوں نے مستقبل کے منظر نامے کو ایک ایسی بجھارت بنا کررکھ دیا ہے کہ کسی کو کچھ سوجھ نہیں رہا۔ ہاں‘ خواہشات کی بات اور ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر اس ساری مارا ماری میں‘ جب ہرطرف ہر طریقے سے پی ٹی آئی کو رگڑا جا رہا ہے ابھی تک اس کے ووٹ بینک میں کوئی خاص دراڑ نہیں ڈالی جاسکی۔ اگر اس میں کسی کو شک ہے تو پھرصرف اتنا کیا جائے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے تک ضمانت پر رہا کردیا جائے۔ مفروروں کو تب تک امان دے دی جائے۔ بلے کا انتخابی نشان الاٹ کردیا جائے اور پولنگ سٹیشنز پر ایجنٹ بٹھانے دیے جائیں۔ بھلے سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے بعد سب کو پکڑ کر دوبارہ حوالۂ زنداں کر دیا جائے اور ایک آخری بات کہ نتائج کا اطلاق واقعتاً ووٹ گن کر کیا جائے تو سب کو پتا چل جائے گا کہ آٹا ‘ دال کس بھاؤ بکتا ہے۔
حالانکہ میری باتیں ناممکن العمل ہیں اور ان کا اطلاق اس مملکت ِخداداد میں نہ کبھی پہلے ہوا اور نہ ہی شاید آئندہ‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جو ہو رہا ہے یہ بھی اس مملکتِ خداداد میں کم از کم ہماری یادداشت کے مطابق پہلے کبھی نہیں ہوا۔ چلیں ساری سہولتیں چھوڑیں صرف آدھی سہولتیں دے دیں اور ووٹ گننے میں صرف اتنی ڈنڈی ماریں جتنی کہ ماضی میں ماری جاتی رہی تو بھی سب کو اپنی عددی اوقات کا پتا چل جائے گا‘ لیکن جس قسم کا بندوبست کیا جا رہا ہے اس میں ویسے ہی نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے جیسا کہ بندوبست کیا جا رہا ہے۔ مارک ٹوئین نے اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ وہ لوگ جو اس قسم کی کتابوں کو پسند کرتے ہیں ‘ اس کتاب کو ویسا ہی پائیں گے جس قسم کی کتابیں وہ پسند کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں