سراج نارسی پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹر ہیوسٹن کا صدر ہے۔ اسے ڈاکٹر آصف قدیر کی زبانی جب میری ہیوسٹن آمد کی خبر ملی تو اس نے اسے موقع غنیمت جانتے ہوئے میرے لیے فوری طور پر ایک تقریب کا اہتمام کر دیا۔ اس تقریب میں ہیوسٹن کے تقریباً سبھی دوستوں سے ایک ساتھ ملاقات ہو گئی۔ صرف غضنفر ہاشمی سے ملاقات نہ ہونے کا ملال ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ غضنفر ہاشمی خود ایک دو تقریبات میں شرکت کی غرض سے پاکستان گیا ہوا تھا۔
سراج نارسی بتانے لگا کہ ادھر ہیوسٹن میں ایک عدد پاکستان ہاؤس ہے جو ایسوسی ایشن کی ملکیت ہے۔ یہ جگہ خاصی قیمتی ہے اور اس کی کمرشل ویلیو بھی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کبھی اس علاقے میں بہت سے پاکستانی حضرات رہائش پذیر تھے اور ان کی وجہ سے یہ جگہ نہ صرف مصروف رہتی تھی بلکہ پاکستانی کمیونٹی کو بھی اس کی وجہ سے مختلف تقریبات منعقد کرنے میں بڑی آسانی رہتی تھی مگر پھر یہ ہوا کہ پاکستانی کمیونٹی کے بیشتر لوگ بہتر اور نئی آبادی کی طرف منتقل ہو گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ اس سارے علاقے سے وہ پاکستانی جو اِن تقریبات کے حوالے سے سرگرم رہتے تھے یا ان میں شرکت کرتے تھے‘ دوسرے علاقوں کی طرف جا چکے ہیں اور جو پاکستانی فی الوقت ادھر رہائش پذیر ہیں ان میں سے اکثر لوگ تو ایسے ہیں جو اپنے روزگار کے حوالے سے جن پیشوں سے وابستہ ہیں ان کے لیے اس قسم کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ قیمتی پراپرٹی اس طرح استعمال نہیں ہو پا رہی جس طرح کہ اس سے کام لیا جا سکتا ہے اور پاکستانی کمیونٹی اس سے مستفید ہو سکتی ہے۔
میں نے سراج نارسی سے کہا کہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ جگہ بھی قیمتی ہے اور اس کی کمرشل ویلیو بھی ہے تو آپ اسے فروخت کرکے کسی ایسی جگہ پر اس قسم کا کوئی مرکز کیوں نہیں بنا لیتے جہاں پاکستانی کمیونٹی کی رسائی آسان ہو اور وہ اس مرکز سے فائدہ اٹھا سکے۔ نارسی کہنے لگا کہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے اور ہم خود بھی انہی خطوط پر نہ صرف غور کر چکے ہیں بلکہ اس بات سے متفق بھی ہیں کہ یہ جگہ جو گئے گزرے حساب سے بھی تین ملین ڈالر سے زائد مالیت کی حامل ہے اور اس میں سے بینکوں کو ادائیگی کے بعد بھی بائیس لاکھ ڈالرز سے زیادہ رقم مل سکتی ہے اور اُن نئے علاقوں میں جہاں پاکستانی کمیونٹی کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے‘ اتنی ہی اچھی اور اتنے ہی رقبے پر مشتمل جگہ مل سکتی ہے مگر اس میں جو مسائل ہیں وہ ہر پاکستانی ایسوسی ایشن کو ہر جگہ پر درپیش ہیں۔
کہنے لگا کہ پہلا تو یہ ہے کہ مالی معاملہ ہے اور آپ جتنی چاہیں ایمانداری سے کام لیں چند لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کا کام صرف اعتراض کرنا اور شکوک پھیلانا ہے۔ آپ بھلے جتنی ٹرانسپیرنسی سے کام لیں آپ الزامات سے نہیں بچ سکتے۔ تاہم زیادہ مسئلہ ایسے لوگ ہیں جو نہ خود کوئی کام کرتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کام کرنے اور خود کریڈٹ لینے سے نہ کوئی غرض ہے اور نہ ہی کوئی شوق‘ لیکن ان کی زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا کسی اچھے کام کے حوالے سے کوئی کریڈٹ نہ لے جائے۔ اب بھلا ان حالات میں بندہ کیا کر سکتا ہے؟
آپ یقین کریں اس مسافر کو بیرونِ پاکستان کسی بھی پاکستانی تنظیم یا ایسوسی ایشن سے سابقہ پڑا تو تقریباً اسی قسم کے مسائل سننے کو ملے۔ ایک گروپ جیت گیا تو دوسرا اس کی مدد کرنے اور دست و بازو بننے کے بجائے اس کا مقابل اور دشمن بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ نہ خود کام کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کرنے دیتا ہے۔ چلیں یہ رویہ پاکستان میں تو سمجھ آتا ہے کہ ساری قوم کا ہی یہی رویہ ہے لیکن ان ممالک میں وہ سب کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہوتا ہے تو آپ کا ٹانگیں کھینچنے کا رویہ بظاہر سمجھ نہیں آتا۔ ایک دوست سے اس بارے میں استفسار کیا تو وہ کہنے لگا مسئلہ ماحول کا نہیں بلکہ شاید یہ ہمارے جین (Gene) کا مسئلہ ہے اور تمہیں تو علم ہی ہے کہ جین دراصل ہماری موروثی عادات کو نسل در نسل منتقل کرنے والا نسبہ ہے اور اس سے نجات حاصل کرنا ایک دو نسلوں کا کام نہیں۔ میں نے ہنس کر اپنے اس دوست سے کہا کہ تارکینِ وطن کی جس نسل کو پاکستان سے محبت ہے وہ اسی جین کی حامل ہے اور دو تین نسلوں کے بعد اگر یہ موروثی خرابی والا جین ان پاکستانیوں میں ختم بھی ہو گیا تو بے فائدہ ہے کہ دو نسلوں کے بعد آنے والی جنریشن کا تو پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوگا۔ اگر ان کی عادتیں بہتر ہو گئیں‘ جین میں تبدیلی آ گئی اور اسی قسم کی دوسری قباحتوں سے نجات مل بھی گئی تو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ وہ دوست کہنے لگا کہ بات تو یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے؟
مغرب میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی ہم سے زیادہ ہے‘ اوپر سے کتاب بھی خاصی مہنگی ہے لیکن اس کے باوجود کتاب بینی کی عادت بہرحال موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ کتاب چھپ بھی رہی ہے اور بک بھی رہی ہے۔ مغرب میں بیسٹ سیلر ادیب رائلٹی کی مد میں کروڑوں کماتے ہیں۔ ہماری طرح یہ حال نہیں کہ بھلے سے کتاب کوئی چھاپنے پر راضی نہ ہو اور کوئی خریدنے پر بھی آمادہ نہ ہو مگر شاعر صاحب اپنی کتاب چھاپ کر صاحبِ کتاب ہونے پر مصر ہیں اور پلے سے کتاب چھاپ کر بزعم خود صاحبِ کتاب شاعر ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لیے بے تاب بھی ہیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ ایسی مفت والی کتاب بھی رُل ہو رہی ہوتی ہے۔ اب پبلشرز حضرات نے ایسے شوقین حضرات کے لیے فوٹو کاپی والا ایڈیشن متعارف کروا دیا ہے جس کی تازہ ترین مثال ایک خاتون کی وہ کتاب ہے جس میں اس نے عمران خان کی عزت خراب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ یہ کتاب بھی کسی پریس سے نہیں چھپی بلکہ کمپوز شدہ میٹریل کو پرنٹر پر نکال کر جلد کروایا اور مارکیٹ میں پیل دیا گیا۔ کراچی سے برادرم رستم لغاری کا پیغام آیا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں نہیں مل رہی‘ کہاں سے ملے گی؟ اسے جواب دیا کہ جب چھپے گی‘ تب مل جائے گی ابھی تو اس کا اشتہاری ایڈیشن آیا ہے جو عام لیزر پرنٹر پر نکالا گیا ہے۔
مغرب میں یہ عالم ہے کہ فکشن‘ سائنس‘ خود نوشت اور دیو مالائی کہانیوں پر مبنی کتابوں کے درجنوں ایڈیشن چھپتے ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہوتی ہیں۔ مئی 2023ء میں چھپنے والی کتاب Fourth Wing کی 20 لاکھ کاپیاں اور پرنس ہیری کی کتاب کی 32 لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ہمارے ہاں مرچ مسالے سے بھرپور کتاب بھی کسی صورت میں چند ہزار سے اوپر نہیں جاتی۔
عالم یہ ہے کہ سیاست چھوڑ کر اگر کتاب پر کالم لکھیں تو بعض قاری اپنا سر پھوڑنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ اسی سے کتاب کے بارے میں مجموعی قومی رویے کا اندازہ لگا لیں۔ دراصل کتاب بینی ہمارے ترجیح ہی نہیں ہے۔