"KMK" (space) message & send to 7575

جس کی کمر پر انگلی رکھو وہی سردار ہے…(2)

باقی سب چھوڑیں! آپ آصف علی زرداری صاحب کے بارے میں پیپلز پارٹی کے جیالے سے بات کرکے دیکھ لیں۔ آپ کو انداز ہو گا کہ پیپلز پارٹی کا جیالا آصف زرداری صاحب کو نہ صرف ایک نہایت کامیاب سیاستدان‘ ایک کائیاں منصوبہ ساز‘ ایک مثالی معاملہ فہم اور شاندار گفت و شنید والا سمجھتا ہے بلکہ وہ اس نابغہ شخصیت کو نہایت ایماندار اور پاک صاف لیڈر بھی تصور کرتا ہے۔ اس عاجز کو وہ دن یاد ہیں جب مرحومہ بے نظیر بھٹو کی شادی تازہ تازہ آصف زرداری صاحب سے ہوئی تھی اور جیالے اس رشتے کے حوالے سے حیران و پریشان ہونے کیساتھ ساتھ خاصے شرمندہ سے دکھائی دیتے تھے‘ جب زرداری صاحب کا ذکر ہوتا تھا تو وہ بات کو گھما پھرا کر کہیں دوسری طرف لے جانے میں ہی غنیمت سمجھتے تھے لیکن آہستہ آہستہ جیالا نہ صرف اس صدمے سے باہر آ گیا بلکہ ایک وقت وہ آیا کہ ''ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ پڑ گیا۔اب آپ پیپلز پارٹی کے کسی جیالے سے سوال کریں کہ محض ایک درمیانے درجے کے ٹھیکیدار کا صاحبزادہ‘ جس کے بارے میں عملی زندگی کے پہلے پیشے کی بابت جو روایت ملتی ہے وہ سینما کے ٹکٹوں کی فروخت کے سلسلے میں ہے۔ ایک سینما کے باہر وہاں لگی ہوئی فلم کی ٹکٹیں کراچی سٹاک ایکسچینج میں ہونے والا شیئرز کا لین دین تو تھا نہیں کہ موصوف ٹکٹوں کی فروخت سے اربوں روپے کما لیتے لیکن اس کاروبار نے ان کی صلاحیتوں کو ضرور صیقل کیا اور چمکایا۔ اعلیٰ حضرت کا دوسرا ذاتی کاروبار گاڑیوں کا شو روم تھا جو پھر ایک ایسا میدان ہے جس میں آپ کو حاصل ہونے والا تجربہ دنیا میں بہرحال کہیں مار نہیں کھانے دیتا تاہم کوئی ان دونوں پیشوں سے وابستہ رہ کر بہت بڑا تیر مارے تو طارق روڈ پر کاروں کا ایک عظیم الشان شو روم کھول سکتا ہے اور بس!
ہم نے اس قسم کے کاروبار کرنے والوں کو کبھی کسی جننگ فیکٹری سے بڑی انڈسٹری کا مالک بنتے نہیں دیکھا کجا کہ وہ سندھ کی ایک تہائی کے لگ بھگ شوگر ملز کا باقاعدہ اور دیگر کئی ملز کا بے قاعدہ لیکن حقیقی مالک ہونے کیساتھ سندھ میں سینکڑوں ایکڑ اراضی‘ لندن میں نائٹس برج جیسے علاقے میں ملینز آف پاؤنڈز کی مالیت کے لگژری فلیٹ کے علاوہ ہوٹل اور دیگر پراپرٹیز کا مالک بن جائے اور کراچی میں اپنی رہائش گاہ 90کلفٹن کے ارد گرد کے درجنوں بنگلوں کو سمیٹ اور لپیٹ کر اپنی تولیت میں لے لے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ موصوف فی الوقت پاکستان کے پہلے چند امیر ترین افراد میں شامل ہیں اور انہوں نے معمولی پیشوں سے شروع ہونیوالے اس سفر میں جو محیرالعقول اور دنیا کی تیز رفتار معاشی خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں‘ ان کی مثال دینے کیلئے اس عاجز کے پاس نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی کوئی مثال یاد آ رہی ہے۔ اور اس میں قصور اس عاجز کا نہیں‘ اعلیٰ حضرت کی تیزیاں ہی ایسی ہیں کہ کسی کی سوچ کا پنچھی ان کی قوتِ پرواز کا ساتھ ہی نہیں دے سکتا۔آپ کسی جیالے سے انکی راکٹ کی سپیڈ سے اوپر جانے والی دولت‘ جائیداد‘ زمینوں اور ملوں کی بات کرکے دیکھ لیں آپ کو ایسا دندان شکن اور مسکت جواب دے گا کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔ کبھی پیپلز پارٹی کے ورکر سے ایان علی کے بارے میں بات کرکے دیکھیں تو وہ آپ کو ایسی حیرانی سے دیکھے گا کہ آپ پریشان ہو جائیں گے تب پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل لطیف کھوسہ اس منی لانڈرنگ کیس میں موصوفہ کی پیروی کیا کرتے تھے اور آصف علی زرداری سے تعلق کی بنیاد پر اس کیس کیلئے اپنے دیگر کیسز چھوڑ کر عدالت حاضر ہوتے تھے۔ موصوف آج کل عمران خان کی عدالتی پیروی اور وکالت کے طفیل تحریک انصاف میں گھس بیٹھے ہیں اور داد کے قابل تو پی ٹی آئی والے ہیں‘ جنہوں نے اس ہیرے کو قبول کر لیا ہے‘ تاہم اس پر علیحدہ سے پھر کبھی سہی۔ فی الحال تو اپنے آصف علی زرداری صاحب کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
آپ کسی جیالے سے کسی پاپڑ فروش اور کسی فالودہ فروش کے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن والے اکاؤنٹس کی بات کرکے دیکھ لیں‘ آپ کو ایسا کرارا جواب ملے گا کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ کسی جذباتی اور غیرتعلیم یافتہ جیالے کی عقیدت اور وفاداری کو تو ایک طرف رکھیں۔ میرا ایک نہایت ہی عزیز دوست‘ جو مالی اور کاروباری حوالے سے نہایت ہی اعلیٰ تعلیم کا حامل ہے‘ اس سے بحث کے دوران جب بھی بدمزگی اور تلخی ہوئی ہے وہ جناب آصف علی زرداری کے موضوع پر ہی ہوئی ہے کہ میرا وہ دوست آصف علی زرداری کی حیران کن مالی ترقی کی نہ تو کوئی ٹھوس دلیل فراہم کرتا ہے اور نہ ہی ان کی ساری دولت کی منی ٹریل کے بارے میں کوئی ثبوت دیتا ہے‘ لیکن جونہی آپ ان کی ملکی و غیرملکی پراپرٹی‘ سندھ کی نصف کے لگ بھگ شوگر ملز اور سینکڑوں ایکڑ اراضی کی ملکیت اور 90کلفٹن کے ارد گرد کے ستر اسی مکانات پر ہاتھ پھیرنے کی بات کریں تو اس کا منہ غصے سے لال بھبھوکا ہو جاتا ہے‘ منہ سے کف جاری ہو جاتی ہے اور آخر پر معاملہ بدمزگی پر ختم ہو جاتا ہے۔ اب کچھ عرصہ سے میں نے اس سے اس موضوع پر گفتگو نہ کرنے کاطے کر رکھا ہے اور اس پر کاربند بھی ہوں کہ مجھے اس دوست کی دلداری بہرحال آصف علی زرداری سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔
اس پاپڑ فروش اور فالودہ فروش کے اکاؤنٹس سے ہونے والی اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے ذکر پر جہاں یہ یاد آیا کہ آخر ان تمام مشکوک ٹرانزیکشنز پر ہونے والی تحقیق کا کیا انجام ہوا اور ان کا کیا بنا؟ وہیں یہ بھی یاد آیا کہ اس قسم کی بینک ٹرانزیکشنز صرف اور صرف آصف علی زرداری سے ہی وابستہ نہیں بلکہ اسی قسم کی اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کی کہانی میاں نواز شریف سے بھی وابستہ ہے تاہم ان ٹرانزیکشنز میں کسی گلی محلے کی نکڑ پر کھڑے ہوئے قلفی والے‘ فالودے والے اور پاپڑ والے کو استعمال کرنے کے بجائے میاں صاحبان نے ایسے کاموں کیلئے اپنے کاروباری ادارے کے چپڑاسیوں اور کلرکوں کو مہرہ بنایا ہوا تھا۔ مقصود چپڑاسی مرحوم و مغفور دراصل میاں صاحبان کا پاپڑ والا ہی تھا۔آپ میاں صاحب کے کسی متوالے سے مقصود چپڑاسی کا تذکرہ کریں‘ آپ کو ایسے ایسے دلائل سننے کو ملیں گے کہ آپ کی آنکھیں پھٹ جائیں گی۔ لندن میں مقیم ایک فیملی کے اکاؤنٹس کے ذریعے اسحاق ڈار کی صلاحیتوں کے طفیل جو منی لانڈرنگ ہوئی‘ وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اصل کہانی یہ ہے کہ اس ملک میں چھوٹے موٹے مالیاتی فراڈ پر تو لوگوں کو پھنستے اور سزائیں ہوتے دیکھا ہے لیکن لمبا فراڈ کرنیوالے کسی شخص کو تادیر کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھا۔ دو چار مرلوں کی غیرقانونی منتقلی پر کوئی پٹواری پکڑا جائے تو اور بات ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ اگر اس ملک میں پٹواری کا مالی فراڈ بھی کروڑوں سے تجاوز کر جائے تو اسے بھی بری کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔
پٹواری کے ذکر سے اراضی اور پھر اس سے رائے ونڈ والی جاتی امرا کی وسیع و عریض اراضی اور اس پر قائم محلات یاد آ گئے۔ میرے کالم کے ایک قاری شاہ جی (یہ دوسرے والے شاہ جی ہیں) جو مالیاتی فراڈ جیسے فیلڈ کے ماہر ہیں اور بعض اوقات نئے نئے نکتے نکالتے رہتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ جاتی امرا کی بیشتر اراضی شروع شروع میں میاں صاحبان کی والدہ محترمہ کے نام پر تھی اور وہ سرے سے ٹیکس دہندہ ہی نہیں تھیں۔ یعنی اربوں روپے کی ملکیت کی یہ اراضی جس شخصیت کے نام پر تھے وہ سرے سے فائلر ہی نہیں تھی۔ اب اس اربوں روپے کی دولت کی منی ٹریل مانگ لیں تو پھر نئے سرے سے گالیاں پڑنا شروع ہو جائیں گی۔ ظاہر ہے جس کی کمر پر انگلی رکھیں گے وہی ڈنگ مارے گا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں