"KMK" (space) message & send to 7575

پی ڈی ایم پلس

بے شک عزت اور ذلت اللہ ہی کے اختیار میں ہے؛ تاہم میرے مالک کا یہ بھی فرمان ہے کہ وہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا‘ پھر بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنی ذلت و رسوائی کے لیے محنت کرے اور اللہ اس کی محنت ضائع کر دے؟ تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس ذلت و رسوائی کے ساتھ ناکامی بھی آپ کا مقدر بنے۔ دنیا میں لاتعداد واقعات ایسے ہیں کہ اللہ نے وقتی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ دیرپا رسوائی‘ بدنامی اور ذلت اس فریق کے نام کر دی۔ اب ایک کالم میں ایسی کتنی مثالیں دوں‘ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ہمارے ہاں ماضی میں ہونے والے ہر سیاسی بندوبست کا انجام یہ نکلا کہ منصوبہ سازوں نے اپنے منصوبے کے حوالے سے تو کامیابیاں سمیٹیں مگر ہر بار حاصل ہونے والی وقتی کامیابی و کامرانی کے عوض ان کی عزت و تکریم میں بتدریج کمی ہوتی گئی اور حالت قابلِ رحم حد تک پہنچ گئی؛ تاہم وقتی کامیابیوں کا خمار آپ کی آنکھیں اور کان بند کر دیتا ہے۔ نتیجتاً آپ کو نہ تو کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے اور آپ اپنی ہر وقتی کامیابی کو نہ صرف اپنی عقلمندی اور بہترین منصوبہ سازی کا نتیجہ سمجھتے ہیں بلکہ اس کامیابی کو اپنی عزت و تکریم کا اشارہ گردانتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بلکہ خوش فہمی تب تک چلتی رہتی ہے جب تک آپ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے رہتے ہیں مگر کب تک؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک وہ ہی بہترین منصوبہ ساز ہے اور جس روز قادرِ مطلق اپنے منصوبے کو بروئے کار لا کر دنیاوی منصوبہ سازوں کی چالاکیوں پر حاوی فرما دیتا ہے‘ اس روز دنیاوی منصوبہ ساز حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔
اب اس بات سے کوئی شخص یہ مطلب نہ نکالے کہ اللہ کے منصوبے کے باعث جو کچھ تلپٹ ہوتا ہے اس میں کامیاب ہونے والا فریق حق یا سچائی پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات میرا مالک محض لوگوں کی گردن کا سریا اور غرور و تکبر ملیامیٹ کرنے کے لیے اپنا منصوبہ حاوی کر دیتا ہے اور بعض اوقات انہیں ڈھیل دے کر ان کے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے۔ اس کے منصوبوں کی حکمت کی تہہ تک پہنچنا ہم محدود عقل کے مالکوں کا کام نہیں ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ کر نظام کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کی کوشش جب حد سے گزر جائے تو قدرت ان دنیاوی منصوبہ سازوں کو جھٹکا دیتی ہے کہ اب بھی وقت ہے لیکن کامیابی کے خمار سے باہر نکلنا بھلا کوئی آسان کام ہے۔ منصوبہ ساز اس جھٹکے سے سبق سیکھنے اور سنبھلنے کے بجائے زیادہ شدومد سے اپنی کامیابیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے چکر میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ مخلوقِ خدا پر سب کچھ آشکار ہوتا جاتا ہے اور رہی سہی عزت بھی اُڑن چھو ہو جاتی ہے۔
قارئین! اس ساری تحریر کا موجودہ سیاسی صورتحال سے قطعاً کوئی تعلق نہیں؛ تاہم اگر کسی شخص کو اس تحریر اور لمحۂ موجود میں کسی قسم کی کوئی مماثلت و مشابہت دکھائی دے تو وہ محض اتفاق ہو گا۔شاہ جی اس قسم کی صورتِ حال میں بڑے خوش ہوتے ہیں اور ان کی چسکے لینے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ رات ان سے فون پر بات ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: کیا ہونا ہے؟ وہی کچھ ہو رہا ہے جو ملک کے دیگر حصوں میں ہو رہا ہے‘ اب تک لاہور کے سات حلقوں کے انتخابی نتائج عدالت میں چیلنج ہو چکے ہیں اور نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب بال سیاستدانوں اور پارٹیوں کے کورٹ میں نہیں‘ بلکہ ''کورٹس‘‘ کے کورٹ میں ہے۔ شاہ جی پوچھنے لگے: نواز شریف کا اُدھر کیا بن رہا ہے؟ میں نے کہا: اللہ ہی جانے کیا بنتا ہے‘ سنا ہے ہر بار جادوئی ٹوپی کے نیچے سے کبوتر نکالنے والوں نے اس بار اپنے لیے متبادل فارم 45 کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔ اب عدالتوں کو پریشانی تو تب ہو گی جب ان کے سامنے دونوں فریق اپنے اپنے فارم 45 رکھیں گے اور دونوں ہی اصلی ہوں گے۔ شاہ جی کہنے لگے: یہ کس طرح ممکن ہے؟ میں نے کہا کہ یہ ایک لمبی کہانی ہے اور فون پر نہیں سنائی جا سکتی۔ ملتان آ کر آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گا‘ مجھے تو خود بڑی دیر سے سمجھ آئی تھی۔پھر میں نے پوچھا: شاہ جی! یہ میاں نواز شریف کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کا نادر مشورہ کس نے دیا تھا؟ شاہ جی کہنے لگے: میرا خیال ہے انہیں یہ مشورہ ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے علاوہ اور کوئی نہیں دے سکتا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو شاہ جی فرمانے لگے کہ شاید اُن کے دل میں کوئی بات ہو اور وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے بالکل اسی طرح مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہوں جس طرح پی ٹی آئی کے حامی گزشتہ کئی ماہ سے اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے الیکشن والے دن کا انتظار کر رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے پیارے سسر کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کی تجویز دی جو انہوں نے اپنی عالمی شہرت اور مقبولیت کے زغم میں قبول کر لی اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ میں نے کہا: شاہ جی! سنا ہے کہ انہوں نے اپنی مانسہرہ میں ناکامی کو چیلنج کر دیا ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: یہ تو کائونٹر اٹیک والی سٹرٹیجی ہے وگرنہ ان کے دعوے میں رَتی برابر دم نہیں۔
شاہ جی کہنے لگے: اس الیکشن کے نتائج نے ہزاروں ہارنے والوں میں سے دو چار لوگوں کے بہت بڑے بڑے ناموں کو چھوٹا کر کے رکھ دیا ہے‘ ان میں خواجہ سعد رفیق اور مولانا کفایت اللہ نے اپنی شکست تسلیم کر کے اپنی توقیر میں جو افافہ کیا تھا‘ حافظ نعیم الرحمن نے بخشیش میں دی گئی صوبائی اسمبلی کی سیٹ واپس کر کے بہت سے بڑے لوگوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے جنہیں بخوبی علم ہے کہ وہ ہار چکے تھے اور ان کی جیت ووٹوں کا نہیں‘ منصوبے کا کمال ہے۔
میں نے پوچھا: شاہ جی! میاں نواز شریف وزیراعظم بن رہے ہیں اور آپ ان کی مانسہرہ والی ناکامی پر چسکے لے رہے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے کہ وہ کسی کی مجبوری اور لاچاری پر چسکے لینے کو باقاعدہ کمینگی سمجھتے ہیں لیکن جب بندہ خود اُڑتے تیر کو بغل میں لینے کی کوشش کر رہا ہو تو ایسے میں لطف لینے میں کیا حرج ہے؟ ویسے میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کے لیے نہیں بلکہ صرف مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کا کرائوڈ اکٹھا کرنے کے لیے بلایا گیا تھا اور بلانے والوں کو اُمید تھی کہ وہ عوام کا ایک جمِ غفیر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر ان کو بلانے والوں کو اپنے اس منصوبے میں بھی سو فیصد ناکامی ہوئی! پروڈیوسر نے میاں صاحب کو اس سیاسی پلاٹ والی بزعم خود بلاک بسٹر فلم میں آئٹم سانگ کے طور پر ڈالا تھا جس سے ناظرین کو اکٹھا کیا جانا مقصود تھا مگر یہ آئٹم سانگ بھی ٹھس ثابت ہوا۔
میں نے پوچھا: اب پروڈیوسر کا کیا منصوبہ ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: اس فلاپ فلم سے سبق لے کر مزید فلموں سے تائب ہونے کے بجائے پروڈیوسر اب بڑی دھانسو کاسٹ پر مشتمل ایک نئی فلم بنا رہا ہے جو آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ خالد مقبول صدیقی اور دیگر ایکسٹرا اداکاروں پر مشتمل ہو گی اور اس فلم کا نام 'پی ڈی ایم پلس‘ ہوگا۔ گمان ہے یہ فلم وسیم اکرم پلس ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں