اللہ تعالیٰ مجھے خود نمائی اور خود ستائشی سے بچائے رکھے‘ میں نے کالم سے ہٹ کر اپنی دیگر تمام ذاتی مصروفیات از قسم مشاعروں‘ ادبی کانفرنسوں‘ غیر ملکی دوروں حتیٰ کہ اپنی شاعری کو بھی کبھی کالم کا حصہ نہیں بنایا۔ میں اپنے غیر ملکی دوروں کی کہانیاں لکھ کر اور بہانے بہانے سے ان مشاعروں کے منتظمین کا ذکر کرکے اپنے لیے مزید مشاعروں کا بندوبست کر سکتا ہوں اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ اس بنیاد پر کون کون مشاعرے پکڑتا ہے مگر یہ میرا مزاج نہیں اور میں نے اپنی دیگر مصروفیات کو اپنے کالم سے بالکل علیحدہ کر رکھا ہے کہ مشاعرے کا اعزاز یہ مجھے مشاعرے کے منتظمین اور کالم کا مشاہرہ مجھے 'روزنامہ دنیا ‘ سے ملتا ہے۔
میں دس سال تک ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن رہا اور قریباً ایک سال میپکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بھی رہا۔ گزشتہ سات سال سے میں پاور پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کمپنی (پی پی ایم سی)‘ سابقہ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن ہوں۔ ان کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن کی حیثیت سے میں نے اللہ تعالیٰ کے کرم اور مہربانی سے اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری اور نیک نیتی سے سرانجام دینے کی کوشش کی اور رات کو دل پر کسی قسم کے بوجھ سے آزاد نیند کا لطف لیا۔ اس دوران بہت سے لوگوں کی ناراضی بھی مول لی اور تعلقات بھی خراب کیے مگر میرا مالک جانتا ہے کہ میں نے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہ کی اور اپنے ضمیر کے مطابق حتیٰ المقدور حد تک میرٹ پر معاملات کو نبھانے کی کوشش کی۔ ممکن ہے اس دوران مجھ سے کچھ غلط فیصلے بھی ہوئے ہوں مگر اللہ شاہد ہے کہ یہ ممکنہ غلطیاں ابنِ آدم ہونے کے حوالے سے میری سرشت میں شامل ہو کر مجھے یہ باور کراتی ہیں کہ کوئی انسان بھی غلطیوں اور خطاؤں سے مبرا نہیں۔ تاہم الحمد للہ مجھے کوئی ایک بھی ایسا کام یاد نہیں جسے میں نے جانتے بوجھتے‘ غلط سمجھتے ہوئے دوستی‘ عزیز داری‘ مفاد‘ لالچ‘ دباؤ یا کسی بری نیت کے زیر اثر آکر کیا ہو۔
اس دوران بورڈ میں اتنے لڑائی جھگڑے کیے کہ میں بورڈ میں ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ عنصر کے طور پر جانا جانے لگا۔ کم از کم دو مواقع تو ایسے آئے کہ سارا بورڈ اوپر سے آنے والے غیر تحریری حکم کے باعث کسی کام کو کرنے پر مجبور ہو گیا مگر یہ عاجز ڈٹا رہا اور اپنے مؤقف سے سرمو پیچھے نہ ہٹا۔ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ سارا بورڈ ایک طرف ہو گیا۔ معاملہ بورڈ چیئرمین کے عزیزوں کا تھا اور معاملہ اتنا بڑا تھا کہ اس میں حکومت تک شامل تھی۔ یہ معاملہ ایک بجی بجلی گھر کی بجلی کو میپکو کے ترسیلی نظام کو استعمال کرتے ہوئے نجی صنعتی یونٹوں کو براہِ راست فروخت کرنے کی سہولت دینے سے متعلق تھا۔ میں نے میپکو کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اسکی بھرپور مخالفت کی مگر بورڈ کے بقیہ سارے ارکان‘ جنکی تعداد اس وقت نو تھی‘ ایک طرف ہو گئے۔ میں نے دیگر نو ارکان کی اکثریت کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنا دو صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ لکھ کر جمع کرا دیا۔ یہ اختلافی نوٹ میپکو کو پہنچنے والے ممکنہ نقصانات اور اس فیصلے میں بہت سے امور کو زیر غور نہ لانے کی نشاندہیوں پرمشتمل تھا۔ مذکورہ پاور پلانٹ کی انتظامیہ نے میرے اس اختلافی نوٹ کا بڑے غورو خوض کے بعد ماہرین سے مل کر جواب تیار کرایا اور بذریعہ چیئرمین‘ جواُن کا قریبی عزیز تھا‘ بورڈ میں جمع کرا دیا۔ میں اس وقت برطانیہ میں تھا جب مجھے اس جواب کا علم ہوا تو میں نے اس کا جواب الجواب لکھا اور واپس بورڈ کو ای میل کر دیا۔ میرے اس جواب سے بورڈ کے چیئرمین نے‘ جو میرا شہر دار بھی تھا اور بہت اچھا دوست بھی‘برافروختہ ہو کر مجھے فون کیا اور کہنے لگا کہ آپ اس جواب کو واپس لے لیں کہ بورڈکے دیگر تمام ارکان علاوہ آپ کے‘ اس سلسلے میں متفقہ فیصلہ دے چکے ہیں اور آپ اکیلے کے اختلافی نوٹ کی اس میں کوئی اہمیت نہیں تو پھر آپ باقی لوگوں سے اپنے تعلقات کس لیے خراب کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میپکو میرے والد صاحب کی طرف سے مجھے ملنے والی جائیداد ہوتی تو شاید میں مان جاتا لیکن میں اس کمپنی کا مالک یا حصہ دار نہیں‘ محافظ اور تحویل دار ہوں اور اس کے مفادات کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری ہے۔
اس نے تنگ آکر مجھے کہا کہ حکومت اس امر کی منظوری دے چکی ہے کہ آئی پی پیز اپنی پیدا کردہ بجلی اپنے علاقے کی متعلقہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ترسیلی نظام کو استعمال کرتے ہوئے نجی صنعتی یونٹس کو فروخت کر سکتے ہیں اور اس سہولت کے عوض اس کمپنی کو ترسیلی نظام کے استعمال کا کرایہ‘ جسےWheeling Chargesکہتے ہیں‘ ادا کریں گے۔ میں نے کہا کہ میں سرکار کے غلط فیصلوں کو ماننے کا پابند نہیں۔ ویسے اگر سرکار از خود فیصلہ کر سکتی ہے تو پھر یہ معاملہ منظوری کیلئے بورڈ میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ سرکار اس کا براہِ راست نوٹیفکیشن کیوں نہیں جاری کر دیتی؟ اگر یہ ہمارے پاس بھیجا گیاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بورڈ کی منظوری درکار ہے۔ ایسی صورت میں کم از کم میں اختلافی نوٹ کا استحقاق تو رکھتا ہوں۔ وہ زچ ہو کر کہنے لگا کہ اگر آپ سرکار کے قانون کو نہیں مانتے تو پھر آپ بورڈ میں کیوں بیٹھے ہیں‘ استعفیٰ کیوں نہیں دے دیتے۔ میں نے نہایت سکون سے اسے کہا کہ میں بورڈ میں صرف اس لیے بیٹھا ہوں کہ ایسے اقدامات پر اپنا Dissent Note لکھ سکوں۔ پھر میں نے کہا کہ میرا یہ اختلافی نوٹ آج نہ سہی لیکن کسی نہ کسی دن اپنی طاقت ضرور دکھائے گا۔ فون بند ہو گیا۔ (یہ معاملہ ان کے حق میں ابھی تک حل نہیں ہو سکا)۔
یہ کیس بورڈ کی منظوری کے بعد نیپرا میں چلا گیا۔تب نیپرا میں خواجہ آصف کے کزن خواجہ نعیم‘ جونیپرا میں ممبر پنجاب تھے‘ کا طوطی بولتا تھا۔ نیپرا میں ممبر پنجاب کی عرصے سے خالی سیٹ پر خواجہ نعیم کے نام کی سفارش کی گئی تاہم سیکرٹری انرجی اور چیف سیکرٹری پنجاب نے انرجی سیکٹر میں کسی قسم کے تجربے سے عاری خواجہ نعیم کے نام کی منظوری دینے کے بجائے اس پر اختلافی نوٹ لکھا اور انرجی سیکٹر میں وسیع تجربے کے حامل ایک شخص کا نام منظور کرکے وزیراعلیٰ کو بھجوایا مگر وزیراعلیٰ نے اس نام کو مسترد کرتے ہوئے خواجہ نعیم کو‘ جو بیورو کریسی سے تعلق رکھتے تھے‘ ممبر پنجاب تعینات کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ خواجہ نعیم تھے تو ممبر پنجاب مگر نیپرا میں چیئرمین تعینات نہ ہونے کے باعث نیپرا کے چیئرمین کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔
میں اس سماعت پر اسلام آباد پہنچ گیا۔ دوسری طرف سے ارب پتی سرمایہ دار اپنے وکلاکی ٹیم کے ساتھ موجود تھا۔ خواجہ نعیم نے کہا کہ آپ کو میپکو کے ترسیلی نظام کے استعمال کے عوض چارجز مل رہے ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملتان سے کراچی جانیوالی پاکستان ریلوے کی کسی ٹرین کے ساتھ کوئی نجی کمپنی اپنے ایک دو ڈبے لگا دے اور بالکل معمولی عوضانے کے عوض ریلوے کے انجن کی طاقت‘ ٹریک اور سارے انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے کسی قسم کے انتظامی اور آپریشنل خرچے کے بغیر اپنے ڈبوں میں سستے کرائے کے عوض مسافر لے جانے کا مطالبہ کردے۔ ایسی صورت میں پہلے یہ دو ڈبے بھریں گے اور بچے کھچے مسافر پاکستان ریلوے کو نصیب ہوں گے۔ میپکو کے اٹھارہ ہزار ملازموں‘ کھربوں روپے کے ترسیلی نظام‘ لائن لاسز‘ بجلی چوری کے نقصانات اور سبسڈی حاصل کرنے والے لائف لائن کے حامل گھاٹے والے صارفین کا بوجھ تو حکومت پاکستان اٹھائے اور زیرو لائن لاسز والے صنعتی یونٹس یہ نجی بجلی گھروں والے لے جائیں؟ خواجہ نعیم کو کوئی جواب نہ سوجھا تو کہنے لگے: آپ شاعر ہیں آپ کو حساب کتاب کا کیا علم؟ میں نے مسکرا کر کہا: میں شاعر ضرور ہوں مگر شاید آپ کو یہ علم نہیں کہ میں نے بھلے وقتوں میں بڑی نیک نام سرکاری یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ (جاری)