یہ قرب ِقیامت کی نشانی ہے کہ اس بار مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم کا چھابہ اُس بندے نے الٹایا ہے جو اس قسم کے مواقع پر حکومتی مجبوری کی ٹوپی کے نیچے سے ذاتی مفادات کا کبوتر نکالنے میں ایسے بلند مقام پر فائز ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسے کسی اور شخص سے تشبیہ دینے کیلئے کوئی مثال ہی موجود نہیں۔ تاہم ایسے واقعات سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور اگر وہ چاہے تو کشتِ شر سے فصلِ خیر پیدا کر سکتا ہے۔
حکمران جماعت نے حالیہ مجوزہ ترمیم کو اپنے ذاتی باغ کی مولی سمجھ کر منٹوں سیکنڈوں میں پاس کرانے کی جو پُراعتماد اور برق رفتار مہم چلائی تھی اس کو ہمارے پیارے مولانا فضل الرحمن نے جس طرح ملیامیٹ کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاہم شاہ جی اپنی شرپسندی کے باعث بضد ہیں کہ مولانا پر بھروسا کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ پہلے انہوں نے حکومت کو انکار کر کے پریشان کیا ‘اب وہ اپوزیشن کو حیران کر دیں گے۔ مولانا کا صحرائی جہاز کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
اللہ خوش رکھے شوکت گجر کو‘ انتخابات کے فوراً بعد اس نے ابوالمخلوط حکومت کی جانب سے مولانا کی جانب بے توجہی اور بے توقیری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : دیکھنا یہ فارم 47 والی حکومت ایک دن گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی مولانا کے دولت خانے پر حاضری دے کر خود کو ذلیل اور مولانا کو سرخرو کرے گی۔ اس کا کہنا تھا کہ منصوبہ سازوں نے جہاں اتنے لوگوں کو اکاموڈیٹ کیا‘ پانچ سات فارم 47 انہیں بھی پکڑا دیتے۔ حکومت اگر مولانا کو خیبر پختونخوا کی گورنری‘ دو تین سینیٹ کی نشستیں اور وفاق میں دو تین وزارتیں بمعہ ان کی پسندیدہ وزارتِ ہاؤسنگ عطا کر دیتی تو بھلا ایسی کیا قیامت آجاتی جو اَب نہیں آئی۔ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ (ن) مسودہ پڑھائے بغیر بلائنڈ منظوری کے چکر میں تھی۔ بالکل ویسے جیسے عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ والی رقم کے سلسلے میں کابینہ کو بغیر دکھائے‘ بغیر پڑھائے بند لفافے میں ملفوف دستاویز کی منظوری پر دستخط کروا لیے تھے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ ایک بار کی ذلت کے بعد حکومت اپنی خواہش سے دستبردار ہو جائے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے کم از کم ایک بار دوبارہ بھی کوشش کریں گے۔ میں نے شاہ جی سے کہا کہ بغیر پڑھے ترمیم کے نام پر ترمیمات کے اس طومار پر دستخط کرانا نسبتاً آسان تھا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اسمبلی میں موجود نمائندے بغیر پڑھے ہاتھ اٹھا کر اپنے لیڈر کی اطاعت کا ثبوت دینے کے عادی ہیں لیکن پھر بھی ایک ترمیم کی پٹاری میں پوشیدہ تقریباً ایک چوتھائی آئین کا حلیہ بگاڑنے والی اس افراتفری والی ترمیم کو پڑھ کر تو کوئی صاحبِ ضمیر دستخط نہیں کر سکتا۔ شاہ جی کہنے لگے کہ تمہاری صاحبِ ضمیر ہونے والی شرط کافی سخت ہے اور اس پر بمشکل ہی کوئی پورا اترے گا۔ تاہم اس ایک ترمیم کی آڑ میں آئین کے 40‘50آرٹیکلز کو ایک ہی ہلے میں تبدیل کرنے کی کوشش بالکل ویسی ہی ہے جیسے ماں باپ کے رکھے ہوئے سادہ سے نام کو بدلنے کا ایک پنتھ دو کاج ٹائپ اشتہار برائے تبدیلیٔ نام اخبار میں چھپا۔ لکھا تھا میں نے اپنا نام بوٹا خان ولد کالو خان سے تبدیل کر کے سکندر بخت ولد وحید مراد رکھ لیا ہے۔ مجھے آئندہ اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔
نہ توآئین کوئی صحیفہ آسمانی ہے کہ اغلاط سے مبرا ہو اور نہ حرفِ آخر ہے کہ اس میں ترمیم کرنا شجرِ ممنوعہ ہو۔ دنیا بھر کے آئین ترمیمات سے بھرے ہوئے ہیں اور ریاست کی مقننہ یا دیگر فورمز اپنے طے شدہ طریقہ کار کے ذریعے وقت کے ساتھ پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر آئین کو ملک و قوم کیلئے قابلِ عمل اور قابلِ استعمال بناتے رہتے ہیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملکی سرحدوں اور جغرافیے میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے باعث خود ہمارے آئین میں ترمیم ناگزیر ہو چکی تھی۔ 1973ء کے آئین میں پہلی ترمیم پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر (1) کے جزو 2(b) میں کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو پاکستان کے آئین میں دیے گئے علاقوں سے نکال دیا گیا۔ پاکستان کے آئین میں دوسری ترمیم قادیانیوں اور مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بارے میں تھی۔ پانچویں اور چھٹی ترامیم بھی حالیہ مجوزہ ترمیم کی مانند چیف جسٹس کی مدت اور ریٹائرمنٹ کی عمر سے متعلق تھیں۔ دیگر ترمیمات ساری نہ سہی مگر بیشتر کا تعلق حکمرانوں کے ذاتی تحفظات اور لامحدود خوہشات سے جڑا ہوا ہے۔ جب حکمران اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق آئین اور قانون کو موڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ کل ان کا اقتدار ختم ہو جائے گا اور ان کا تخلیق کردہ قانون انہی کی پشت پر کوڑے برسائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی پاس کردہ چوتھی ترمیم کے نتیجے میں مصائب کا شکار ہوئے‘ مگر اقتدار ایسا گھوڑا ہے کہ اس کے شہسوار کو کبھی اپنے اقتدار کی بے ثباتی کا خیال نہیں آتا اور ایک دن یہ گھوڑا اسے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ ضیاالحق کی طاقت کا سورج جب نصف النہار پر تھا تو وہ پارلیمانی طرزِ حکومت پر مشتمل آئین کو نیم صدارتی بنا کر خود طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔ ضیاالحق نے محمد خان جونیجو‘ صدر اسحاق خان نے بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جبکہ صدر لغاری نے بینظیر بھٹو کی اسمبلی توڑ کر انہیں گھر بھیجا۔ جب تین صدور نے جنرل ضیاالحق کی آٹھویں ترمیم والے شہرہ آفاق آرٹیکل 58-2(b) کے ذریعے چار اسمبلیوں کو فارغ کیا تو وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں اس آرٹیکل سے نجات حاصل کر لی۔ آئین میں چار ترمیمات کا تعلق صدر اور وزیراعظم کے اختیارات اور تین کا تعلق ملٹری کورٹ کے قیام‘ ان کی مدت اور پھر اس مدت میں اضافے سے متعلق ہے۔ یعنی حالات برسوں بعد بھی گھوم پھر کر انہی دوچار مستقل درد سر ٹائپ معاملات کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی طرف آجاتے ہیں۔
اصل چیز جو باعثِ تشویش ہے وہ حالیہ ترمیم کی ٹائمنگ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ میں لگ بھگ ایک ماہ کا عرصہ باقی ہے ایسے میں نہایت افراتفری میں کچے پکے ڈرافٹ کو بنیاد بنا کر ان کی مدتِ ملازمت میں مجوزہ تین سال کا اضافہ جو کہانی سنا رہا ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ پانچ ججوں کے پینل میں سے کسی ایک جج کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کا وزیر اعظم کا اختیار سپریم کورٹ کو گھر کی لونڈی بنانے کی جانب حکمرانوں کے ازلی شوق کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اگر سنیارٹی ختم کر کے پانچ میں سے مرضی کے بندے کا انتخاب وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار بن گیا تو پھر سازشوں‘ سفارشوں اور گارنٹیوں کی وہی پرانی کہانیاں ہوں گی جن کو یہ ملک ہر اس موقع پر بھگتتا آرہا ہے جہاں صوابدیدی اختیار کو استعمال کر کے جونیئر بندے کو اوپر لا کر یہ تصور کیا گیا کہ یہ اب اس احسان تلے دبا رہے گا اور بن دام غلام کے فرائض سر انجام دے گا۔ اس قسم کی خام خیالیاں ایسی توقعات کو جنم دیتی ہیں جو باعث ِبربادی بن جاتی ہیں۔ ذوالفقار بھٹو کا جونیئر جنرل ضیاالحق کو اور نواز شریف کا پرویز مشرف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیچے سے اوپر لانا اور اس ''احسان‘‘ کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو تو پھر اُس کے شر سے بچو۔
آئین میں ترمیم کرنی ہے ؟ ضرور کریں مگر اسے گناہ کی طرح چھپ کر نہ کریں۔ پارلیمنٹ میں پیش کریں‘ کھل کر بحث کریں‘ قانون‘اخلاق‘ دلیل‘ جواز اور منطق کے زور پر دوتہائی ارکانِ پارلیمنٹ سے زور زبردستی کے بغیر منوائیں ورنہ صبر کریں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر جتنا گند پڑ چکا ہے اور جتنی خاک اُڑ چکی ہے اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ازخود اپنی موجودہ تاریخ ریٹائرمنٹ پر گھر چلے جانا چاہیے۔ اب وہ اس ترمیم کے ذریعے ایکسٹینشن لیں یا وقتِ مقررہ پر ریٹائر ہو کر گھر چلے جائیں‘ دونوں صورتوں وہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔