پہلے سے قحط الرجال کے مارے ہوئے شہر سے ایک بڑا آدمی رخصت ہو گیا۔ صرف بڑا نہیں‘ بہت ہی بڑا آدمی ملکِ عدم کا راہی ہو گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری ملتان کے ادبی افق کا لمحۂ موجود میں سب سے روشن ستارہ تھا جو غروب ہو گیا۔ میں یہ بات بلا کسی شک و شبہ کے کہہ سکتا ہوں کہ اسلم انصاری اپنی شاعری کے حوالے سے صرف ملتان اور خطۂ جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ دنیائے اُردو میں پاکستان کی پہچان تھے۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے وہ شاعری‘ تحقیق‘ تدوین‘ تنقید اور سب سے بڑھ کر پیشۂ انبیاء سے اپنے اٹوٹ تعلق کی بنیاد پر جس مقام پر کھڑے تھے وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
اسلم انصاری 30 اپریل 1939ء کو ملتان میں پاک گیٹ کے قریب محلہ بھیتی سرائے میں پیدا ہوئے۔ جس سال میرا دنیا میں ورود ہوا اُسی سال اسلم انصاری ایمرسن کالج سے بی اے آنرز کرکے رخصت ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اُردو کیا۔ اسی سال فارسی میں جناب انور مسعود اور عربی میں عالمِ بے بدل جناب ڈاکٹر پروفیسر خورشید رضوی نے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اسلم انصاری نے اپنے دورِ طالبعلمی میں ہی بطور شاعر اپنی پہچان بنا لی۔ اُس زمانے میں نئے شاعروں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سامنے لانے کے حوالے سے ''شمع تاثیر‘‘ کے مشاعرے کو پاکستان بھر کے سب سے بڑے اور معتبر مشاعرے کا درجہ حاصل تھا۔ اسلم انصاری نے 1960ء اور بعد ازاں 1962ء کے شمع تاثیر مشاعرے میں پہلا انعام حاصل کیا۔ 1961ء میں یہ مشاعرہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر انعقاد پذیر ہی نہ ہو سکا تھا‘ اس طرح اسلم انصاری نے لگاتار دو مشاعروں میں اول انعام اور ٹرافی حاصل کی۔ 1962ء میں جس غزل پر اسلم انصاری کو پہلا انعام ملا اس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
عدم اندر عدم تھے ہم قرارِ نفسِ ہستی سے
مٹے ہیں تو جہاں اندر جہاں معلوم ہوتے ہیں
ادبی سفر کی شاہراہ پر اگر سنگِ میل لگا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ ملتان سے تعلق رکھنے والا یہ شاعر اس راستے کا فی الوقت سب سے لمبا سفر طے کرنے والا شخص ہے۔ جب اسلم انصاری کی شاعری پچاس کی دہائی کے آخری سالوں میں مرزا ادیب کی ادارت میں چھپنے والے ادبی رسالے ''ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوتی تھی تب پاکستان کے ادبی افق پر بہت سے نامور شاعروں کا چراغ روشن بھی نہیں ہوا تھا۔ مارچ کے آخر میں امریکہ سے واپس آیا اور اس دوران پاکستان میں مختلف تقریبات میں شرکت کی غرض سے مصروف رہا۔ ملتان میں وقفوں سے چند روزہ قیام رہا اسی دوران برادرِ عزیز شاکر حسین شاکر نے بتایا کہ 27 اپریل کو اکادمی آف لیٹرز کے زیر اہتمام جناب اسلم انصاری کی فارسی کلیات ''گلبانگ آرزو‘‘ کی تقریبِ پذیرائی ہے۔ شاکر نے میری مصروفیات کا پوچھا تو میں نے اسے کہا کہ میں چند روز بعد جنوبی افریقہ جا رہا ہوں لیکن اس سے پہلے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلم انصاری کی کتاب کی اس تقریب میں بہرحال آئوں گا کہ وہ دنیائے ادب میں ہمارے شہر کی پہچان اور آبرو ہیں۔ ملتان کی محبت میں سرشار اس شاعر نے اپنی ساری زندگی اس شہر کے نام وقف کر رکھی تھی۔ مجھ میں اور اسلم انصاری میں سب سے مضبوط مماثلث یہی ملتان سے محبت تھی۔
ایک سمندر‘ ایک کنارا‘ ایک ستارا کافی ہے
اس منظر میں اس کے علاوہ کوئی اکیلا کافی ہے
ایک سبھا دل والوں کی‘ اک تان رسیلے لوگوں کی
شہر کے روشن رکھنے کو اتنا بھی اُجالا کافی ہے
وسعتِ عالم ایک طرف‘ ملتان معلی ایک طرف
سچ پوچھیں تو ہم لوگوں کو شہر ہمارا کافی ہے
اردو‘ فارسی‘ سرائیکی اور انگریزی زبان پر یکساں دسترس اور مہارت رکھنے والے اسلم انصاری نے ان چاروں زبانوں کو اظہار کا ذریعہ بناتے ہوئے شاعری‘ تحقیق وتنقید‘ غالب و اقبال شناسی اور نثر میں بہت کچھ لکھا۔ اردو میں ان کی کتب ' خواب و آگہی‘ ،'نقشِ عہد و سال‘، 'شبِ عشق کا ستارہ‘ ،'تحریر نغمہ‘ ،'ماہ وانجم‘، 'فیضانِ اقبال‘،' پسِ دیوارِ چمن‘، 'کلیاتِ اسلم انصاری‘ جبکہ فارسی میں 'چراغِ لالہ‘ ،'نگارِ خاطر‘، 'دیوانِ اسلم انصاری‘ اور' فرخ نامہ‘ شامل ہیں۔' گلبانگ آرزو‘ اُن کی فارسی شاعری کی کلیات ہے۔ سرائیکی میں انہوں نے ایک ناول ''بیڑی وچ دریا‘‘ (نائو میں ندیا) تحریر کیا۔ ان کی تنقیدی اور تحقیقی تصانیف میں 'اقبال عہد آفرین‘، 'اقبال عہد ساز شاعر‘ اور مفکر‘ شعر وفکر اقبال‘، 'مطالعاتِ اقبالیات و ادبیاتِ عالم‘ شامل ہیں۔ انگریزی زبان میں انہوں نے روہی کو رنگ رنگیلڑی بنانے والے خواجہ غلام فرید کی کافیوں کو انگریزی قالب میں ڈھالنے کے علاوہ انگریزی نظمیں لکھیں۔ ان کے طویل ادبی سفر اور اعلیٰ ادبی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے جن بڑے ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا ان میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی‘ صدارتی تمغۂ امتیاز‘ اقبال ایوارڈ‘ خواجہ غلام فرید ایوارڈ‘ فیض احمد فیض ایوارڈ اور ریڈیو پاکستان ایوارڈ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ بات کہنا بہت ضروری ہے کہ اسلم انصاری نہ صرف یہ کہ نام نہاد ادبی مراکز سے دور ملتان میں رہتے تھے بلکہ اپنی کم آمیز طبیعت اور صاحبانِ اقتدار واختیار سے لاتعلقی والے رویے کے باعث وہ نام اور مقام حاصل نہ کر سکے جو اُن سے کہیں کمتر ادبی مقام کے حامل لوگوں نے تعلقاتِ عامہ کے زور پر سمیٹ لیا۔ پی آر سے دوری اور فی زمانہ مقبولیت کے حربوں سے بے پروا اسلم انصاری کا واحد میرٹ صرف اور صرف ان کا وہ ادبی کام تھا جو چھ دہائیوں پر مشتمل ان کی مسلسل لگن اور محنت کا نتیجہ تھا۔ یہ ان کا ادبی قد کاٹھ تھا جو تمام تر منفی قوتوں کے باوجود اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب رہا۔
میں نے اسلم انصاری کو پہلی بار ابا جی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ تب ایمرسن کالج کی لائبریری کی موجودہ عمارت نہیں بنی تھی اور ابا جی ایمرسن کالج کے آرٹس بلاک میں (اس عمارت میں اب ایجوکیشن یونیورسٹی ہے) کرشن ہال کے اوپر موجود لائبریری میں ایک طرف ریفرنس بکس کے شیلفوں سے بنائے گئے ایک حصے میں بیٹھتے تھے۔ بعد ازاں جب میں ایمرسن کالج میں داخل ہوا تو ان سے روزانہ ہی کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہو جاتا۔ خوش لباس اور جاذب نظر یہ استاد بعد میں کچہری کے قریب ایک کرائے کی عمارت میں قائم کی گئی ملتان آرٹس کونسل کے بانی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کے طور پر ادب اور فنونِ لطیفہ کی ترویج میں مصروف رہے۔ جب میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم بی اے کا طالبعلم تھا تو ہماری کلاسیں گلگشت ہائی سکول کی عاریتاً حاصل کی گئی عمارت‘ جو اولڈ کیمپس کہلاتی تھی‘ میں لگا کرتی تھیں۔ زکریا یونیورسٹی کا شعبۂ اُردو بھی اولڈ کیمپس میں تھا۔ نئی قائم شدہ اس یونیورسٹی میں ایمرسن کالج کے کئی اساتذہ تدریسی فرائض انجام دیتے تھے۔ شعبۂ معاشیات میں معراج صاحب‘ شعبۂ سیاسیات میں مشیر صاحب‘ انگریزی میں بدر الدین حیدر اور اُردو میں اسلم انصاری ان اساتذہ میں شامل تھے جنہیں اساتذہ کے طور پر کالج سے لے کر ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اسلم انصاری جیسے استاد اس سے بھی کہیں زیادہ مرتبے اور درجے کے حامل تھے جن پر وہ فائز کیے گئے تھے۔ ان جیسے اساتذہ سے پڑھنا ایک اعزاز اور ان سے علم حاصل کرنا گویا سعادت تھی۔انہی لوگوں کے طفیل اس شہر کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ:
وسعتِ عالم ایک طرف‘ ملتان معلی ایک طرف
چار روز قبل قحط الرجال کے مارے ہوئے معاشرے سے ایک اور بلند قامت شخص رخصت ہو گیا۔