"KMK" (space) message & send to 7575

اپنے ہیرو کے مرقد پر

جب میں اسد اسماعیل اور بابر چیمہ کے ہمراہ 1848ء میں قائم ہونے والے 177 سال پرانے قبرستان Cave Hill Cemetery میں داخل ہوا تو درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے اور سارے قبرستان نے سفید برف کا کفن لپیٹا ہوا تھا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہ اداسی‘ ملال‘ غم اور خوشی کی ملی جلی کیفیت تھی جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ قبرستان کے دروازے سے لے کر اندر چلے آنے تک ہم سب بالکل خاموش تھے۔ مجھ سمیت سب لوگ شاید ماضی کے دھندلکوں میں کہیں اپنی یادوں کے چراغ روشن کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بڑا وسیع وعریض قبرستان ہے۔ لگ بھگ تین سو ایکڑ پر مشتمل اس قبرستان کا پورا نام کیو ہِل سیمٹری اینڈ آربوریٹم یعنی قبرستان وشجرگاہ یا شجرستان ہے۔ یہاں لاتعداد قبریں اور بے انتہا درخت ہیں۔ گرمیاں ہوتیں تو ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہوتا لیکن اب ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔
بابر چیمہ نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اسد اسماعیل کو کہا کہ ادھر دائیں طرف قبرستان کے U-2-1 سیکشن کی طرف گاڑی موڑ لو۔ سڑک کے درمیان آنے اور جانے والی گاڑیوں کیلئے پیلی لکیر تھی۔ بابر نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں ادھر سے درمیانی پیلی لکیر کا رنگ تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس جگہ سے آگے سڑک کے درمیان والی لکیر کا رنگ سبز ہو گیا ہے۔ یہ سبز رنگ کی لکیر آپ کی رہنمائی کیلئے لگائی گئی ہے۔ یہ محمد علی کی قبر کی طرف جانے والے راستے کی نشانی ہے۔ بابر چیمہ نے دائیں طرف ایک اونچے ڈارک براؤن رنگ کے کتبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہ محمد علی کی قبر ہے۔ ویسے تو یہ محض ایک جملہ تھا مگر اس ایک جملے نے مجھے کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔
میں گزشتہ آٹھ سال سے زائد عرصے سے اس جگہ آنے کیلئے بے چین تھا۔ 17 جنوری 1942ء کو اسی شہر لوئی ویل میں پیدا ہونے والا کاسیس مارسیلس کلے جونیئر‘ محمد علی کی صورت میں اسی شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں 10 جون 2016ء سے آسودۂ خاک ہے۔ محمد علی کو اس کے اصل نام کے علاوہ تین عدد عرفیتوں سے بڑی شہرت نصیب ہوئی۔ دی گریٹیسٹ‘ دی پیپلز چیمپئن اور دی لوئی ویل لِپ۔ یہ آخری عرفیت اسے اس کے پیدائشی شہر لوئی ویل سے نسبت کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ امریکی Slang یعنی ٹکسالی زبان میں اس کا مطلب لوئی ویل کا بڑبولا ہے۔ لوئی ویل نے اپنی تاریخ میں محمد علی سے زیادہ منہ پھٹ اور بڑبولا شخص بھلا کہاں دیکھا ہوگا۔ اور صرف ایک شہر پر ہی کیا موقوف‘ باکسنگ کی عالمی تاریخ نے بھی بھلا محمد علی سے بڑھ کر ایسا شیخی خورہ کب دیکھا ہوگا جو اپنے کہے کو پورا کرنا بھی خوب جانتا ہو۔ شروع میں جب وہ خود کو ''دی گریٹیسٹ‘‘ کہتا تھا تو لوگ محض اسے ایک شوخ وشنگ باکسر کی لاف گزاف گردانتے تھے۔ رِنگ کے اندر اور رِنگ سے باہر وہ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتا جسے عوامی پذیرائی بھی ملتی اور شہرت بھی۔ لیکن قدرت کو یہی منظور تھا کہ اس کا ہر کہا سچ ثابت ہو اور اس کی ہر شیخی حقیقت بن جائے۔ آج جب میں باکسنگ کے Goat یعنی ''گرٹیسٹ آف آل ٹائم‘‘ کی مرتب کردہ فہرستیں دیکھتا ہوں تو سو میں سے کم از کم نوے میں محمد علی کو باکسنگ Goat قرار دیا گیا ہے۔ اس فہرست میں جو لوئی‘ شوگر رے روبنسن‘ جارج فورمین‘ ایونڈر ہولی فیلڈ‘ لیری ہومز‘ مائیک ٹائیسن‘ جو فریزیئر اور راکی مارسیانو جیسے نام بھی ہیں جن میں ناقابلِ شکست سے لے کر اسی مقابلوں میں لگاتار فاتح باکسر بھی شامل ہیں مگر ان سب باکسروں کی موجودگی میں بھی اکسٹھ پروفیشنل مقابلوں میں سے پانچ مقابلوں میں شکست کھانے والا باکسر اگر گریٹیسٹ آف آل ٹائم باکسر قرار پایا ہے تو اس کی آخر کوئی وجہ تو ہوگی۔ محمد علی کو دنیائے سپورٹس کے سب سے معتبر رسالے سپورٹس السٹریٹڈ (Sports Illustrated) نے ''صدی کا کھلاڑی‘‘ اور بی بی سی نے ''سپورٹس پرسنیلٹی آف دی سنچری‘‘ ایسے ہی قرار نہیں دے دیا تھا۔محمد علی کو دنیا کے دیگر تمام باکسرز پر جو فوقیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ دیگر تمام باکسرز کو باکسنگ نے ہی کچھ نہ کچھ دیا۔ باکسنگ نے ان کی فتوحات کی بدولت انہیں دولت‘ شہرت اور مقبولیت تو ضرور دی مگر محمد علی واحد باکسر ہے جس نے باکسنگ کو خوبصورتی‘ رنگینی‘ آرٹ اور فٹ ورک کا ایسا حسین امتزاج عطا کیا کہ باکسنگ‘ جو عرصہ دراز سے مکے بازی پر مشتمل ایک ایسا کھیل تصور ہوتی تھی‘ جس میں زور دار مکوں سے دوسرے حریف کو لہولہان کرتا ہوا باکسر ہی نمایاں مقام کا حامل ہوتا تھا‘ محمد علی نے اس باکسنگ جیسے وحشیانہ کھیل کو ایک آرٹ کا درجہ عطا کیا۔ اس نے باکسنگ رنگ کو Float like a butterfly, sting like a bee یعنی ''تتلی کی طرح رقص کرو اور شہد کی مکھی کی طرح ڈنک مارو‘‘ کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا۔
1967ء میں جب اس نے ویتنام جنگ میں حصہ لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ یہ امریکہ کی نہیں بلکہ توسیع پسندی اور استعمار کی جنگ ہے اور میں اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو اس سے باکسنگ کا اعزاز واپس لینے کے ساتھ ساتھ باکسنگ میں حصہ لینے پر پابندی لگاتے ہوئے اس کو جیل بھیجنے کا حکم دے دیا گیا۔ محمد علی نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی۔ اس کا جیل جانا تو موقوف ہو گیا مگر باکسنگ کے حوالے سے اس کیلئے پرائم سال ضائع ہو گئے۔ اس کے ویتنام جنگ میں شرکت سے انکار نے اسے پروفیشنل حوالے سے تو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا لیکن اسے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک انتہائی توانا آواز اور اخلاقی حوالوں سے ایسی شہرت بخشی جس کی کم از کم دنیائے کھیل میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
اسد اسماعیل نے گاڑی روک دی۔ چار سیڑھیوں کے بعد اوپر محمد علی کی قبر تھی‘ جس پر کسی محبت کرنے والے نے پھولوں کا گلدستہ رکھا ہوا تھا۔ پیچھے سبزے کی باڑ کے عقب میں ڈارک براؤن پتھر کے کتبے پر محمد علی کا قول درج تھا کہ ''دوسروں کی خدمت دراصل وہ کرایہ ہے جو آپ جنت میں اپنے گھر کیلئے ادا کرتے ہیں‘‘۔ گوروں کے اس تاریخی قبرستان میں گنتی کے چند مسلمان ہی دفن ہیں۔ مسلمانوں کا لوئی ویل میں ایک علیحدہ قبرستان بھی موجود ہے مگر لوئی ویل کے میئر گریگ فشر نے کہا کہ محمد علی دنیا بھر کا سرمایہ تھا مگر اس کا گھر صرف لوئی ویل تھا۔ محمد علی لوئی ویل کا وہ ہیرو ہے جو مذہب اور جغرافیائی پابندیوں سے ماورا ہے اس لیے اس کو لوئی ویل کے اس تاریخی اور خوبصورت قبرستان میں دفن کیا جائے۔ محمد علی کو دو جون 2016ء کو سانس میں تکلیف پیش آنے کے باعث سکاٹس ڈیل ہسپتال ایریزونا میں داخل کیا گیا۔ اگلے روز مورخہ تین جون کو محمد علی نے اپنی جان خالقِ کائنات کے سپرد کر دی۔ خاندان کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ ''یہ بات یقینی طور پر طے شدہ امر ہے کہ محمد علی دنیا بھر کے شہری تھے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ دنیا ان کے ساتھ اس غم میں شریک ہے‘‘۔ انہیں شاید یہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ ملتان نامی شہر میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے بچپن سے سر سفید ہونے تک محمد علی سے محبت کی ہے۔ محمد علی کی تعزیت کرنے والوں میں براک اوباما‘ ہیلری کلنٹن‘ بل کلنٹن‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیوڈ کیمرون کے علاوہ دنیا بھر کے بہت سے حکمران اور باکسنگ کے اَن گنت کھلاڑی شامل تھے۔
کئی دن سے گرنے والی برف باہر بُری طرح جم چکی تھی۔ میری بے چینی کو دیکھتے ہوئے بابر چیمہ نے میرے گاڑی سے اترنے سے پہلے انتباہ دیا کہ پھسلن بہت زیادہ ہے اس لیے احتیاط کروں۔ میں نے نیچے اتر کر چار سیڑھیوں پر جمی ہوئی برف کو ہاتھوں سے کھرچ کر صاف کرنا چاہا مگر برف بڑی بُری طرح جمی ہوئی تھی۔ مجھے لگا کہ برف نے میرے کان میں سرگوشی کی ہے کہ '' تم نے آنے میں بڑی دیر کر دی۔ اب یہ برف تم سے نہیں اکھڑے گی‘‘۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں