"KMK" (space) message & send to 7575

آخری معرکہ ابھی باقی ہے

سچ پوچھیں تو بھارت کے رافیل سمیت چھ طیاروں کی تباہی کے باوجود سات‘ آٹھ اور نو مئی کے تین دن ایسے بُرے اور مایوس کن گزرے کہ بیان سے باہر ہے۔ میں شدید غصے اور صدمے میں تھا اور اس بارے میں لکھنا تو کجا کسی سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران میں ایک نہایت ٹھنڈے ٹھار اور سراسر عقل پر مبنی فیصلے کرنے والے ایک دوست سے گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ اسے میرے ارادوں اور مجھے اس کے خیالات کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے میرے متوقع خیالات اور ان پر میری طبیعت صاف کرنے کے ارادے سے مجھ سے پوچھا کہ اگر پاکستان کا ایٹمی بٹن میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں ان حالات میں کیا کرتا؟ مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ وہ مجھ سے کیا کہلوانا چاہتا ہے اور مجھے یہ بھی علم تھا کہ وہ میرے جواب پر کیا فلسفہ بگھارے گا۔ ایٹمی جنگ کے عواقب و نتائج کی ہولناک تصویر کشی کرتے ہوئے مجھے انسانیت اور عقل کا دشمن قرار دے گا۔ میں نے اپنے منہ میں آئے ہوئے جواب کو روکتے ہوئے اُلٹا اس سے سوال کیا کہ اگر کوئی سات فٹ کا لحیم شحیم مارشل آرٹ اور مارکٹائی کا ماہر تمہیں گھیر لے اور تم سے لڑنے کے درپے ہو جائے۔ تمہارے پاس بھاگنے کی گنجائش بھی نہ ہو اور تمہارے سامنے لڑنے یا پٹ کر مرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ ہو۔ تمہیں یہ بھی بخوبی اندازہ ہو کہ اس لڑائی میں وہ مار مار کر تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دے گا۔ خوش قسمتی سے اُس وقت تمہاری ڈب میں ایک عدد پستول ہو تو تم اس لڑائی کی ابتدا کس طرح کرو گے؟ مجھے اس سوال کا منطقی جواب چاہیے۔ وہ دوست کہنے لگا کہ ظاہر ہے میں پستول نکال کر اسکو گولی مار دوں گا۔ بھلا میرے پاس بچنے کا اس کے علاوہ اور چارہ ہی کیا ہو گا۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے تمہیں میرا جواب مل گیا ہو گا۔
مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ بہت سے قارئین میرے نقطہ نظر سے اختلاف کریں گے مگر میرے خیال میں حالیہ بھارتی حملے کو مکمل امریکی اشیرباد حاصل تھی۔ بھارت کو اس علاقے میں چین کے خلاف کھڑا کرنے سے پہلے اسے پاکستان جیسی گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی سے خلاصی دلوانا اس سلسلے کی پہلی اور لازمی کڑی ہے۔ چین کو ایشیا سے نکل کر عالمی سطح کی عسکری طاقت بننے سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کا مکو علاقائی سطح پر ہی ٹھپ دیا جائے اور اس کیلئے بھارت کو تیار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ ایف 35 جہازوں کا سودا اور علاقائی معاملوں میں اس کی غیرمشروط امریکی حمایت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کو اس کی شمال مغربی سرحدوں سے بے فکر کیے بغیر یہ سب کچھ ناممکن ہے۔ پاکستان کو نیپال‘ بھوٹان اور سری لنکا بنائے بغیر بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانا ممکن نہیں۔ لہٰذا پاکستان کو بھارت کے سامنے سرنگوں کیے بغیر امریکی اور بھارتی ایجنڈا پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ پہلگام کے ڈرامے کی آڑ میں پاکستان پر حملے کے منصوبے کے پیچھے امریکی اجازت نے مودی کے ناپاک ارادوں کو مزید ہلہ شیری بخشی اور بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑا۔
پہلگام میں سٹیج کیا گیا ڈرامہ متوقع حملے کا بہانہ تھا۔ پاکستان چیختا رہا کہ وہ اس واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کیلئے تیار ہے مگر کسی نے اس پیشکش کو رتی برابر اہمیت نہ دی۔ امریکی تاریخ خود ایسے بہانہ ساز حملوں سے بھری پڑی ہے۔ نائن الیون کے بعد بلاتحقیق افغانستان کی بربادی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی آڑ میں عراق کی تباہی ہمارے سامنے کے واقعات ہیں۔ امریکہ اس مسئلے پر خاموشی سے ایک طرف ہو گیا۔ امریکہ جیسا چودھری ایک طرف کھسک جائے تو یورپ جیسے کمیوں کی کیا مجال تھی کہ وہ اس معاملے میں اپنی کوئی رائے دیتے۔ یہ سب کچھ مودی کیلئے گرین سگنل تھا۔ طاقت کے نشے میں چور مودی کو اس کے خواہش کردہ فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں نے مکمل اور فوری فتح کا خواب بھی دکھا رکھا تھا۔ اب بھلا درمیان میں اور کیا رکاوٹ تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ جنگ محض دوچار دن کا کشٹ ہو گا۔ معاشی طور پر تباہ حال پاکستان اس جدید‘ مہنگی اور یکطرفہ جنگ کو بھلا کہاں برداشت کر پائے گا۔ ہوائی حملوں‘ تباہ کن بمباری‘ میزائلوں کی بارش اور ڈرون جہازوں کی مسلسل آمد تباہی اور خوف و ہراس کی ایسی داستان لکھے گی کہ یا تو پاکستان ہاتھ کھڑے کر دے گا اور یا پھر ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے گا۔ امریکہ کو پاکستان پر براہِ راست حملے کیلئے اسی لمحے کا انتظار تھا۔ یہ ایک اور weapon of mass destruction والا بیانیہ و بہانہ ہے جو امریکہ کو درکار تھا اور اس کام کو اختتام تک پہنچانے کیلئے امریکہ نے بھارتی سرزمین اور اسرائیل کی تکنیکی و حربی مدد کا بندوبست تو کافی عرصے سے کر رکھا ہے بس مناسب موقع کی تلاش تھی جو پہلگام ڈرامے کی آڑ میں تلاش کر لیا گیا تھا۔
بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل پر مشتمل ٹرائیکا کو یقینِ کامل تھا کہ چار چھ دن کے زوردار فضائی‘ میزائل اور مسلسل ڈرون حملے پاکستان کے دفاعی نظام کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے۔ رافیل طیارے پاکستان کی فضاؤں پر راج کریں گے۔ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی ہوئی تو بھارت کا ایس 400جیسا فضائی دفاعی نظام اس کا توڑ کر لے گا۔ پاکستان کی اقتصادی حالت اس قابل نہیں کہ چار چھ دن سے زیادہ لمبی جنگ کا متحمل ہو سکے۔ کہانی انکے حساب سے مکمل تھی مگر سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا۔چودھری ٹرمپ نے بھارت نامی مرغا پاکستان نامی مرغے کی پٹائی‘ دھلائی اور صفائی کیلئے میدان میں اتارا اور میدان سجتے ہی خود کو اس لڑائی سے لاتعلق قرار دیتے ہوئے اس کو باہمی طور پر طے کرنے کا بیان جاری کر دیا۔ اٹھہتر سالہ پرانے مسئلہ کشمیر کو ہزار سالہ پرانا تنازع قرار دیتے ہوئے اس سے اپنی بریت کا اعلان فرما دیا مگر جیسے ہی چودھری کے مرغے کی پٹائی شروع ہوئی اور نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کی میٹنگ کی خبر پھیلی‘ گھبرائے ہوئے چودھری نے اپنی ساری غیر جانبداری اور لاتعلقی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا ''پرنا‘‘ (کندھے پر رکھنے والا رومال) پِڑ (جس میدان میں مرغ‘ بٹیر یا تیتر وغیرہ لڑائے جاتے ہیں) میں پھینک کر لڑائی بند کروا دی۔
بچپن میں ہم ایک بجھارت نما جملہ‘ جس کے سیاق و سباق کا کوئی علم نہیں‘ سنا کرتے تھے ''یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ انڈے پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا‘‘۔ پچاس‘ پچپن سال بعد مجھے اس جملے کا سارا سیاق و سباق اور تشریح و تفصیل سمجھ آئی ہے اور ایسی آئی ہے کہ اب بھولنے کی نہیں۔ بزعم خود جنوب مشرقی ایشیا کی فضاؤں کے بادشاہ رافیل کی زمیں بوسی‘ علی الصبح ہونیوالے میزائل حملوں اور پھر نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس نے بھارت کے علاوہ ان عالمی چودھریوں کی بھی ہوا ڈھیلی کر دی جو ایک روز پہلے تک اس تنازع کو علاقائی قرار دیتے ہوئے اس میں دخل دینے یا کوئی کردار انجام دینے کے بجائے پاکستان اور بھارت کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ دنیا کی حربی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی فضائی جنگ ہوئی جس میں کسی کو بھی اپنا دشمن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ Beyond-visual-range والی لڑائی تھی جس میں چینی اور یورپی و امریکی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہتھیار کمپیوٹر‘ نقلی ٹارگٹ یا کسی Simulation کے بجائے حقیقت میں استعمال ہوئے۔ گو کہ اس معرکے میں چینی ٹیکنالوجی نے اپنی برتری ثابت کی مگر یہ صرف Gadgets کی جنگ نہیں تھی طیاروں میں بیٹھے میزائل کے بٹن دبانے والے پائلٹس کے اعصاب کا مقابلہ تھا جو ہمارے شاہینوں نے جیت لیا۔
کیا یہ آخری معرکہ ہے؟ ہرگز نہیں! ہم زندہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ایک آخری اور فیصلہ کن معرکہ اس خطے کا مقدر ہے کیونکہ پاکستان کے خاتمے کیلئے بھارت میں اور بہت سے مودی ایک قطار میں ہیں اور ایٹمی طاقت سے لیس پاکستان عالمی طاقتوں کی آنکھ میں بُری طرح 'رِڑک‘ رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں