روز مرہ والے معاملات تو ایسے ہیں کہ ان پر لکھ کر دل زیادہ نہ سہی‘ مگر کچھ نہ کچھ ٹھنڈا ضرور ہوتا ہے۔ دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔ وقتی ہی سہی مگر تھوڑا سکون بہرحال مل جاتا ہے۔ دل کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ جو میرے بس میں تھا وہ کر لیا ہے۔ ایمان کا دوسرا درجہ‘ یعنی زبان یا قلم سے اس زیادتی کے خلاف آواز یا قلم بلند کر لیا ہے۔ اگلے روز پھر وہی صورتحال دیکھ کر اس فقیر کا دل نہ تو مایوس ہوتا ہے اور نہ ہی ناامیدکہ اگلے روز طلوع ہوتا ہوا سورج مالکِ کائنات کی طرف سے نئی امیدوں اور تمناؤں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ مگر کچھ معاملات اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کے بارے میں سوچنے سے دل دکھتا ہے۔ غور کرنے پر ملال کا ایسا ریلا آتا ہے کہ ذہن سوچنے سے عاری ہو جاتا ہے۔ حالات کا جائزہ لیں تو دل مایوسی سے گھر جاتا ہے۔ کہیں سے کوئی روشنی یا امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ بے بسی ایسی کہ معاملہ اس کی رحمت اور قدرت کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا۔ فلسطین اور غزہ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔
ہزاروں فلسطینی بچے اور نہتے مرد و خواتین اپنی جان سے جا چکے ہیں مگر نام نہاد عالم اسلام اور شرفِ انسانی کے محافظ ہونے کے دعویدار مہذب ممالک صرف خاموش ہی نہیں اسرائیل کے پشتیبان بھی ہیں۔
آپ یقین کریں اب اس معاملے پر لکھتے ہوئے بھی دل دکھتا ہے۔ ہاتھ لکھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور اس سارے معاملے سے آنکھیں چرانے کو دل کرتا ہے۔ اپنی بے بسی اور نام نہاد مہذب دنیا کی مسلسل بے حسی نے ایسا مایوس کیا ہے کہ اب کسی بہتر صورتحال کی امید سے بھی دل اُٹھ گیا ہے۔ دنیا کے سارے طاقتور ممالک یا تو عملی طور اسرائیل کے ساتھ ہیں یا محض زبانی کلامی حد تک فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہولو کاسٹ کے جھوٹے اور جعلی پروپیگنڈا پر کہرام مچانے والے اپنے آنکھوں کے سامنے مہینوں سے جاری نسل کشی پر‘ انسانی تاریخ کے بدترین محاصرے پر اور بچوں کی خوراک روکنے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ سے کیا گلہ‘ ادھر تو اپنے بھی قاتلوں کے مددگار ہیں۔
ادھر سیاسی خلیج بڑھتے بڑھتے نفرت کا وہ دریا بن گئی ہے جس میں ساری سچائی اور حقیقت غرق ہو گئی ہے۔ اپنے اپنے لیڈر اور مرشد کی محبت میں مبتلا اندھے مقلدوں کے جتھے اس موقع پر بھی پرانے کلپس نکال کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے‘ دوسرے کے لیڈر کو یہودیوں کا دوست اور حمایتی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی زیک گولڈ سمتھ کی اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ تصویر کو لے کر طعنے مار رہا ہے اور کوئی قومی اسمبلی میں یہودیوں کی حمایت پر مبنی وڈیو کلپ اَپ لوڈ کر رہا ہے۔ عملی طور پر کسی کو اہلِ غزہ اور فلسطین سے کوئی ہمدردی یا سروکار نہیں‘ صرف دوسری پارٹی کے لیڈر کو نیچا دکھانے سے غرض ہے۔
ایسے میں حسبِ وعدہ عراق کے شہرت یافتہ مزاحمتی شاعر مرحوم عبدالوہاب البیاتی کی نظم ''بکائیہ الیٰ شمس حزیران‘‘ (آفتابِ جون کی نذرایک نوحہ) پیش خدمت ہے:
آفتابِ جون کی نذرایک نوحہ
مشرقی قہوہ خانوں کی سیلن میں ہم اپنی بے کار بحثوں کے ہا تھوں مرے؍ جھوٹ کے چوبی ہتھیار سج کے؍ ہواؤں کے گھوڑوں پہ لڑتے رہے!؍ موت کے شغل سے ہم شناسا نہیں؍ ایسے گھوڑے کے مالک ہیں جو آج تک؍ وادیٔ موت کی سمت دوڑا نہیں؍ شہسواروں کے پہلو میں ٹھہرا نہیں؍ وہ شکاری ہیں جس نے درندے تو کیا؍ اک پرندہ بھی ہاتھوں سے مارا نہیں؍ ہم نے زخموں سے اپنے قلم کے لیے روشنائی نہ لی؍ روشنائی کو ارضِ وطن پر بہے؍ خون کے سرخ دریا سے بدلا نہیں؍ ہم زیاں کار تھے‘ ایک دوجے سے لڑتے ہوئے کٹ مرے اور ٹکڑے ہوئے؍
مشرقی قہوہ خانوں کی سیلن میں بیٹھے ہوئے آج ہم؍ مکھیوں کو پکڑنے کی بیکار دھن میں گرفتار ہیں؍ اور تاریخ کے سرد ملبے میں ہم ایسی پرچھائیاں ہیں؍ جو مردوں کے بہروپ میں گامزن ہیں؍ ہم پریشان ذہنوں کا اک خواب ہیں؍ جس کی تعبیر سے کوئی واقف نہیں؍ ہم نژادِ زیاں ہیں‘ فرومایہ اور رائیگاں موت کی نسل ہیں؍ مشرقی قہوہ خانوں کی سیلن میں ہم اپنی بے کار بحثوں کے ہاتھوں مرے؍
ہم کو مارا ہمارے امیروں نے جو آبرو کے جنازے میں شامل ہوئے؍ اپنے عشرت کدوں میں چمکتے رہے!؍ اور ان کے حلیفوں کی بازی گری نے؍ اور ان کی خوشامد میں پلتے ہوئے ان سگانِ کہن نے؍ جو لفظوں کا سینہ فریب اور دھوکے سے بھرتے رہے
اے غریبوں کے دشمن‘ امیروں کے ٹکڑوں پہ پلتے ہوئے؍ اب خدا کے لیے جھوٹ کی داستاں بند کر؍ اب ہماری نگاہیں ترے کذب کی اس فضول اور لمبی کہانی سے اکتا گئی ہیں؍ اب ہمارے لیے تیرے لفظوں کی تفہیم ممکن نہیں؍ اب براہ خدا ان کو سچ کے لہو رنگ دریا میں دھو!؍ بلبلے کی طرح جی‘ مگر جھوٹ سے باز آ؍ ہم نژادِ زیاں ہیں‘ فرومایہ اور رائیگاں موت کی نسل ہیں؍
ہم نہ مرنے کے لمحے سے گزرے کبھی اور نہ پیدا ہوئے؍ اور نہ ہم کو پتا ہے شہیدوں کی بے نام تکلیف کا؍ ہم گدھوں اور چیلوں کی خوراک ہیں اے خدا!؍ ہم کو کیوں اس طرح دشتِ بے آب میں لا کے مارا گیا؍ کیوں ہمارے لیے شرم لکھی گئی؟؍ کیوں ہمیں مرنے والوں کی لاشوں میں زندہ بدن دے کے رکھا گیا؟؍
آہ اے جون کے آفتابِ گراں!؍ تو نے کیوں ہم کو دنیا کی ہر آنکھ پر یوں برہنہ کیا؍ کیوں سگانِ گرسنہ کی خاطر ہمیں بے کفن‘ سرد لاشوں میں چھوڑا گیا؍
ہمارا وطن ایک مصلوب ہے اور چاروں طرف آبرو کی بکھرتی ہوئی راکھ ہے؍ میرے ہر زخم پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں‘ ان کو عزیزو ! اڑاؤ نہیں؍ جس قدر زخم ہیں چشمِ ایوب ہیں؍
دوستو! ان پہ مرہم لگاؤ نہیں؍ اب مرا دکھ فقط انتظارِ مسلسل کا آشوب ہے؍ اس کو جھیلوں گا میں؍ اس کو جھیلوں گا میں اس چمک دار ساعت کے آنے تلک؍ جب لہو اپنے بدلے کی خاطر اٹھے؍
اے خدا! اے غریبوں کے‘ محنت کشوں کے خدا!؍ ہاں ہمارا لہو جنگ ہارا نہیں؍ ہم کو مارا ہے ان رہنماؤں نے جو اپنے عشرت کدوں میں چہکتے رہے؍ ان سنہری پروں والے موروں نے جو قوم کے واسطے نقشِ عبرت بنے؍ ہم کو مارا ہے ان بے ضمیروں نے جو آبرو کے جنازے میں شامل ہوئے
جن عرب شاعروں نے اپنے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے اور ان کا ضمیر جگانے کی کوشش کی ان میں نزار قبانی اور عبدالوہاب البیاتی کے علاوہ محمود درویش‘ فدویٰ طوکان‘ نازک الملائکہ اور سمیع قاسم کے نام نمایاں ہیں۔ کسی دن ان کی نظموں سے بھی کچھ اقتباس پیش کروں گا۔ ہم جیسے مجبورِ محض بھلا اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟