میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر بندے کو چھوٹی چھوٹی بے ضرر قسم کی کمینگیوں کے باعث چند لمحوں کی ایسی خوشی نصیب ہو جائے جس سے فریقِ ثانی بھی محظوظ ہو سکے تو ایسی گھٹیا قسم کی حرکت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ایسی بے ضرر کمینگی اور فریقین کیلئے لطف لینے والی گھٹیا حرکت کیا ہو سکتی ہے تو اس طرح ہے کہ چند روز قبل صبح نو بجے (برطانوی وقت کے مطابق) فون کی گھنٹی بجی‘ سکرین پر شاکر حسین شاکر کا نام جگمگا رہا تھا۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف زندگی سے بھرپور آواز آئی۔ بھائی جان! اس وقت کہاں ہیں؟ میں نے کہا: گلاسگو میں ہوں اور اپنے ملتانی دوست شیخ اشرف کے پاس بیٹھا ملتانی دوستوں کو یاد کر رہا ہوں۔ سناؤ‘ ملتان کا کیا حال ہے اور موسم کیسا ہے؟ شاکر مری ہوئی آواز میں کہنے لگا: دوپہر کے ایک بجے ہیں‘ شدید گرمی سے برا حال ہے۔ میں نے پوچھا: آم تو کھا رہے ہو؟ اس کی آواز میں ایک دم جیسے زندگی سی عود آئی۔ کہنے لگا: گو کہ ابھی اچھے آموں کی آمد پوری طرح شروع نہیں ہوئی مگر اللہ کا شکر ہے! آم کھا رہے اور مزے کر رہے ہیں۔ آپ سنائیں اُدھر کیا حال ہے؟ موسم کیسا ہے؟
میں تھوڑی ہی دیر پہلے ناشتہ کرکے اب لاؤنج میں بیٹھا کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ موسم میں خنکی تھی اور میں نے ہلکی سی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر پہلے ہی میں ملتان سے دوری اور آموں سے محرومی کا ذکر کرتے ہوئے شیخ اشرف سے اپنا دکھ بانٹ رہا تھا کہ شاید یہ سال بھی انور رٹول کے بغیر گزر جائے گا۔ گزشتہ دو سال انور رٹول کے مختصر دورانیے کے موسم میں یہ مسافر پاکستان میں نہ تھا اور رٹول سے محروم رہا۔ جب میں ملتان پہنچا تو ثمر بہشت (چونسا) کا وقتِ اختتام تھا تاہم دو چار دن مزے میں گزر گئے۔ میں انور رٹول اور چونسا (ثمر بہشت) کے علاوہ اور کوئی آم نہیں کھاتا۔ کئی سال تو اپنی ان دو پسندیدہ اقسام سے بھی منہ موڑے رکھا مگر پھر چھوٹی بیٹی کے اصرار بلکہ اس دھمکی کے بعد کہ اگر میں نے آم نہ کھائے تو وہ بھی نہیں کھائے گی‘ آم دوبارہ کھانے شروع کر دیے۔
شاکر کے فون سے چند لمحے پیشتر ہی میں آموں سے محرومی پر دکھی ہو رہا تھا اور اس نے آموں کا تذکرہ کرکے میری محرومی پر مزید تیل چھڑک دیا۔ جب اس نے مجھ سے پوچھا کہ اُدھر موسم کیسا ہے تو اچانک میرے دل میں بھی اسے بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار کرنے کا خیال آیا جس سے میں آموں کا ذکر سن کر ہوا تھا۔ میں نے کہا: شاکر تم گرمی کا ذکر کر رہے تھے‘ ادھر ملتان میں کیا درجہ حرارت چل رہا ہے؟ شاکر کہنے لگا: اس وقت درجہ حرارت 41ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ میں نے کہا: ذرا وڈیو آن کرو۔ شاکر نے وڈیو آن کی تو میں نے کیمرہ اپنی جانب کرتے ہوئے اسے کہا کہ دیکھو! میں نے جیکٹ پہن رکھی ہے‘ کافی پی رہا ہوں اور ادھر درجہ حرارت اس وقت بارہ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔شاکر پہلے تو زور سے ہنسا اور پھر کہنے لگا: اس قسم کی وڈیو کال نہایت غلط حرکت ہے۔ میں نے کہا: ملتان سے دور لوگوں کو آم کھانے کی خبر سنانا بھی نہایت غیرمناسب بلکہ گھٹیا حرکت ہے اور اس گھٹیا حرکت کے جواب میں موسم کا تقابلی جائزہ گو کہ ایک اور کمینگی ہے مگر اس عمر میں ہم لوگ دوستی کے جس درجے پر ہیں یہی چھوٹی چھوٹی کمینگیاں زندگی کا جمود توڑتی اور لطف دیتی ہیں۔ تم نے میری آموں سے محرومی پر جو رافیل اڑایا تھا اسے میں نے موسم کے پی ایل15 سے مار گرایا ہے۔ بگڑا تمہارا بھی کچھ نہیں اور گیا میرا بھی کچھ نہیں‘ مگر ہم دونوں نے اس سے لطف لیا ہے۔ مجھے اپنا ایک مرحوم دوست اور کلاس فیلو یاد آ گیا۔ گزر جانے والوں کا نام کیا لکھنا۔ میں اسے کہتا تھا کہ میری اور تمہاری دوستی کو مضبوطی بخشنے میں تمہاری چھوٹی چھوٹی کمینگیوں اور گھٹیا حرکتوں کا بڑا ہاتھ ہے‘ میں ان سے لطف لیتا ہوں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو ہماری دوستی کتنی پھیکی پھیکی ہوتی۔ بھلا ایسی باتوں کو دل پر کیا لینا جن سے تمہارا بنتا کچھ نہیں اور میرا بگڑتا کچھ نہیں۔ کیسے کیسے دوست تھے جو اَب ہم میں نہیں۔ یاد کرتا ہوں تو دل پر گھونسا سا لگتا ہے۔ اللہ زندگی دے شاکر جیسے دوستوں کوجن کے دم سے زندگی میں کچھ رونق ہے‘ تھوڑی رنگینی ہے اور روز و شب میں دم باقی بچا ہوا ہے وگرنہ بقول جمال احسانی:اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ؍دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش۔
دنیا کی رنگینی اور بے ثباتی پر جمال احسانی کی اسی غزل کے دو شعر مزید یاد آ گئے:یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں؍ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش؍وہ جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے؍ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش۔
تین دن پہلے میں لندن میں تھا اور میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ لندن جیسے بے وفا شہر میں میرے مالک نے مجھے چند مخلص اور محبت کرنے والے دوستوں سے نواز رکھا ہے۔ دن کا بیشتر حصہ اسد کے ساتھ لندن کی سڑکوں پر گھومتے گزر جاتا ہے اور شام ملک خالد کے ساتھ۔ لندن آنے کے تیسرے ہی دن ہمدم دیرینہ اور لندن میں مقیم اولین دوست فیضان عارف نے کھانے پر بلا لیا۔ دو انڈر گراؤنڈ ٹیوب بدل کر فیضان کے بتائے ہوئے ریستوران کی طرف جاتے ہوئے میں اسد سے اپنے ایک ملتانی دوست ساجد خان کا تذکرہ کر رہا تھا کہ کس طرح اس نے اکتوبر 2022ء میں میرا اور خاص طور پر مرحوم امجد اسلام امجد صاحب کا خیال رکھا۔ یہ امجد صاحب کا بیرونِ ملک مشاعروں کا آخری سفر تھا۔ ملتان کی روایتی مہمان نوازی کا عملی نمونہ ساجد خان ملتان کی قدیم درانی فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور ہم دونوں آپس میں سرائیکی زبان کا لطف لیتے ہیں۔ میں نے اسد سے کہا کہ ایک دو دن تک اُس کے پاس الفرڈ جائیں گے۔ اتنے میں وہ جگہ آ گئی جہاں فیضان عارف نے ہمیں مدعو کر رکھا تھا۔ فیضان عارف نے بتایا کہ اس نے ایک اور دوست کو بھی بلایا ہے تاہم وہ اس کا نام نہیں بتائے گا۔ یہ ابھی سرپرائز ہے اور ساتھ ہی کہنے لگا کہ اس نے اس دوست کو بھی ہمارا نہیں بتایا‘ یہ اس کیلئے بھی سرپرائز ہو گا۔ چند منٹوں کے بعد ساجد خان ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ ہم دونوں کو اس سرپرائز سے ایسی خوشی ملی کہ بیان سے باہر۔ تاہم سب سے حیران اسد تھا جو دورانِ سفر ہونے والی گفتگو میں لندن (لندن میٹرو پولیٹن ایریا) جیسے ایک کروڑ آبادی والے شہر میں اسی بندے کو مل رہا تھا جسے چند منٹ پہلے ہم یاد کر رہے تھے۔ یہ اتفاقات قدرت کے ایسے بھید اور اسرار ہیں جو ہم پر آشکار نہیں۔
رات کے کھانے پر ساجد خان نے الفرڈ بلا لیا۔ ملک خالد‘ اسد اور میں الفرڈ پہنچے تو راستے میں جگہ جگہ دکانوں کے باہر سندھڑی آموں کے ڈبے سجے پڑے تھے۔ آموں کا رسیا اور شناور ملک خالد جگہ جگہ آم دیکھ کر رک جاتا اور مجھ سے کہیں زیادہ آموں کی پہچان رکھنے کے باوجود مجھ سے پوچھتا کہ یہ والے آم پچھلے والوں سے بہتر ہیں۔ میں نے کئی بار اسے بتایا کہ مجھے سندھڑی آموں سے کوئی دلچسپی نہیں تو وہ جواباً کہتا کہ ملتان جا کر جب تمہیں رٹول اور چونسا نہیں ملیں گے تو تم ان آموں کو اور مجھے یاد کرو گے۔ میں نے کہا: مجھے تمہاری بکواس کی رتی برابر پروا نہیں۔ میں جب واپس ملتان پہنچوں گا تو ابھی وہاں چونسا (ثمر بہشت) کا موسم باقی ہوگا۔ رات دل میں خیال آیا کہ کیا خبر میرے پہنچنے سے پہلے چونسا بھی ختم ہو جائے؟ رات گئے میں نے نیٹ پر اپنی واپسی کی ٹکٹ چار دن پہلے کروائی تو ایئر لائن نے اس تبدیلی کے عوض کافی سارے پیسے بٹور لیے۔ آموں کی کشش ایسی کمبخت شے ہے کہ اس کے سامنے ملتان کی گرمی اور ٹکٹ تبدیلی کیلئے ادا کی جانے والی رقم کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جمال احسانی کے شعر کے پہلے مصرع میں تبدیلی پر معذرت:ملتان کی گرمی میں ہیں یہ آم وگرنہ؍دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش۔