آپ یقین کریں جدھر میں ہوں‘ ادھر چلنا مصیبت نہیں راحت ہے۔ فٹ پاتھ ہیں تو وہ خالی ہیں۔ وہ واقعتاً پیدل یعنی ''بائی فٹ‘‘ چلنے والوں کی سہولت کیلئے بنائے گئے ہیں اور وہ یہ سہولت فراہم بھی کرتے ہیں۔ شہر کے مرکز میں ایک عدد ہائی سٹریٹ ہے جو صرف پیدل چلنے والوں کے واسطے ہے۔ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے مگر چلنے میں نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ کوئی دِقت۔ بڑی سڑکوں کے کنارے بے بہا اور اَن گنت درخت لگے ہوئے جن کے سایے تلے چلتے ہوئے دھوپ سے جزوی نجات مل جاتی ہے۔ موسم بلاشبہ بہت بہتر ہے مگر اس کا ذکر اس لیے زیرِ تحریر نہیں کہ یہ وہ چیز ہے جو انسانی بس میں نہیں۔ یہ مسافر تو فقط اُن چیزوں کا ذکر کر رہا ہے جو ہمارے بس میں ہیں اور جن کو ہم از خود خراب یا بہتر کر سکتے ہیں۔ گریٹر لندن کا شمار دنیا کے گنجان ترین شہروں میں نہ سہی مگر سینٹرل لندن یقینا بہت گنجان ہے۔ شہر کے مرکز میں زمین دنیا کی مہنگی ترین شہری زمینوں میں شامل ہے مگر اس کے باوجود اس شہر میں جتنے پارکس ہیں اور ان کا جتنا مجموعی رقبہ ہے اتنے پارکس اور رقبہ ہمارے دس سب سے بڑے شہروں میں موجود پارکس کے مجموعی رقبے سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔
ملتان میں بھلا کتنے پارکس ہوں گے؟ چھوٹے بڑے ملا کر یہی دس بارہ! اور یہ سبھی پارکس کیسے ہیں؟ دو چار کنال سے لے کر سات آٹھ ایکڑ تک کے رقبے پر قائم ان پارکس کا بیشتر حصہ درختوں اور سبزے سے محروم ہے۔ زیادہ سے زیادہ درمیان میں کہیں جھیل کے نام پر چھوٹا سا تالاب ہوتا ہے‘ جو اوّل تو خشک ہوتا ہے یا مہینوں پرانے بدبو دار پانی سے بھرا ہوتا ہے۔ ملتان میں کل تین چار مناسب رقبے والے پارکس ہیں مگر حالت اتنی خراب اور خستہ کہ اسے چلانے والے محکمے پر غصہ بھی آتا ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ دو عدد قدیمی باغ ہیں؛ ایک عام خاص باغ اور دوسرا باغ لانگے خان۔ اور دونوں کی حالت اتنی قابلِ رحم ہے کہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ نشئیوں کی آماجگاہ ان باغوں میں درخت گنتی کے ہیں اور سبزہ اس سے بھی کم۔ ایک ہمارا موسم گرم ہے اوپر سے ہم نے اس گرمی اور ماحول کی بربادی کو کم کرنے کی نہ کوئی کوشش کی ہے اور نہ ہی فی الحال ہمارا اس سلسلے میں کچھ سوچنے کا کوئی ارادہ ہے۔ مسئلہ لکھنے والے کی ذہنی غلامی یا احساسِ کمتری کا کہیں بلکہ احساسِ زیاں کا ہے جو رہ رہ کر بے چین کرتا ہے۔ بھلا درخت اور گھاس لگانے میں کیا مشکل ہے؟ اگر لگا دیں تو اس کا خیال رکھنے اور پرداخت کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ موجود پارکوں کو بہتر کرنے اور انہیں سرسبز کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ میرے بچپن تک عام خاص باغ اچھا بھلا باغ تھا پھر میونسپل کارپوریشن نے اس باغ کو اہالیانِ ملتان کیلئے بہتر کرنے کے بجائے اپنی مالی حالت بہتر کرنے کا ذریعہ بناتے ہوئے اس تکونے باغ کے دو طرف سے گزرنے والی سڑکوں کی جانب درجنوں دکانیں بنا کر کرائے پر چڑھا دیں۔ کارپوریشن اور اہلکاروں کی پیدا گیری کا بندوبست تو ہو گیا لیکن پہلے سے مختصر باغ مزید سکڑ گیا۔ اس باغ میں موجود قدیمی بارہ دری کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے بجائے حسبِ معمول ایسی نالائقی سے تعمیر کیا گیا کہ اس تاریخی بارہ دری کی شکل و صورت ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ نہ اس میں اب قدامت کا تاثر باقی رہا ہے اور نہ ہی تاریخی حسن باقی بچا ہے۔ بحالی یعنی Conservation تو رہی ایک طرف ہمیں تو اب تک اس کا درست مفہوم بھی معلوم نہیں ہو سکا۔ بحالی کے نام پر سرکاری اداروں کے متعلقہ افسران کی مالی حالت میں تو یقینا بحالی ہو رہی ہے مگر تاریخی ورثہ اور عمارتیں اپنی اصل شکل وصورت سے محروم ہو رہی ہیں۔
ملک خالد کا گھر ماربل آرچ سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ گزشتہ دو سال سے لندن کے اس لینڈ مارک کی بحالی کا کام ہو رہا تھا۔ دو چھوٹے اور درمیان میں ایک بڑے محرابی دروازوں پر مشتمل یہ سنگی محراب گو کہ اپنی اصل شکل میں موجود تھی تاہم اس کی تزئین و آرائش درکار تھی۔ اس غرض سے اس پر کام شروع ہوا تو اس محراب کے اوپر سٹیل کا ڈھانچہ بنا کر اس پر اس محراب کی تصویر پر مشتمل پینا فلیکس چڑھا دیا گیا۔ دور سے لگتا تھا کہ اصلی ماربل آرچ ہے مگر یہ صرف دکھاوا تھا۔ اس بار آیا ہوں تو کام مکمل ہو چکا ہے۔ 1827ء میں تعمیر ہونے والا یہ بلند وبالا دروازہ اصل میں بکنگھم پیلس کے کورٹ آف آنر کا دروازہ تھا مگر 1851ء میں اسے اس جگہ سے ہائیڈ پارک کے شمال مشرقی سمت سے داخل ہونے والے دروازے کے طور پر نصب کر دیا گیا۔ دو کم دو سو سال پرانا یہ دروازہ آج بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کو تعمیر کرنے والے معمار کل ہی اسے مکمل کرکے فارغ ہوئے ہیں۔
ماربل آرچ کے عین سامنے گریٹ کمبر لینڈ پلیس ہے۔ یہ بڑی پُرسکون اور خاموش سڑک ہے جبکہ اس کے ساتھ ترچھی ہو کر جو سڑک نکل رہی ہے وہ لندن کی مہنگی ترین کمرشل پراپرٹی میں شمار ہونے والی ایجویئرروڈ ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین پراپرٹی کی حامل اس سڑک پر کسی زمانے رحمان ملک مرحوم کا سب وے ہوتا تھا۔ آج سے تقریباً بیس بائیس سال قبل خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے رحمان ملک اپنے سب وے کے باہر فٹ پاتھ پر کرسی ڈالے کریم کلر کا کرتا پاجامہ پہنے بیٹھے ہوتے تھے۔ تھوڑا آگے بائیں ہاتھ پر اندر ان کا شہرہ آفاق فلیٹ تھا۔ اب نہ رحمان ملک ہیں اور نہ ہی اس جگہ پر سب وے کا وجود ہے۔ اللہ جانے فلیٹ اب ان کے ورثا کے پاس ہے یا بک چکا ہے۔ رہے نام اللہ کا!
ماربل آرچ کے بائیں طرف لندن کی معروف اور مہنگی ترین سڑک آکسفورڈ سٹریٹ ہے۔ یعنی اس کے سامنے اور بغل میں دنیا کی مہنگی ترین کمرشل سڑکیں ہیں مگر اس آرچ کے ساتھ متصل ساری جگہ خالی اور سرسبز ہے۔ درخت ہیں اور سبزہ ہے۔ نہ کوئی تجاوزات ہیں اور نہ ہی کوئی کھوکھا یا سٹال ہے۔ نہ کوئی دکان ہے اور نہ کوئی ریسٹورنٹ ہے۔ نہ کسی سرکاری ادارے کے دفتر نے جگہ سمیٹ رکھی ہے اور نہ کسی زور آور نے کوئی کونہ الاٹ کروایا ہے۔
شہر کے وسط میں اس چھ سو سالہ قدیم پارک کا رقبہ 350ایکڑ ہے اور شہر کے قلب میں واقع اس زمین کی قیمت بلا مبالغہ کھربوں پاؤنڈ ہے مگر لندن کی مرکزی میونسپلٹی ویسٹ منسٹر کے دل میں اول تو ایسا اچھوتا خیال ہی شاید کبھی نہیں آیا کہ اس پارک کے اندر موجود سینکڑوں سال پرانے‘ گنتی کے چند ریسٹورنٹس کے علاوہ اس پارک کے چاروں طرف دکانیں بنا کر اربوں پائونڈ کے عوض پگڑی یا لیز پر دے دی جائیں تاہم اگر ایسا خیال آیا بھی ہو گا تو عوامی نمائندوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پارک اپنے مکمل رقبے اور خوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔
اس پارک میں عوامی سطح پر بہت سے احتجاج‘ ریلیاں اور جلسے منعقد ہوئے۔ انیسویں صدی میں آزادیٔ اظہار کو عوامی جذبات ظاہر کرنے کا اہم ذریعہ مانتے ہوئے 1872ء میں اس پارک کے ایک کونے کو ''سپیکرز کارنر‘‘ کا نام دیتے ہوئے تقریروں اور مظاہروں کیلئے مختص کر دیا گیا۔ یہاں ہر قسم کی تقریر کی آزادی ہے۔ میرا دل بڑا مچلا کہ میں اس جگہ وہ باتیں بہ آوازِ بلند کہہ سکوں جو میں بوجوہ اخبار میں لکھ نہیں سکتا اور میڈیا پر کہہ نہیں سکتا۔ خوش قسمتی سے میرے ساتھ ایک عدد ذاتی سامع بھی موجود تھا کہ بہت سوں کو تو یہاں یہ بھی میسر نہیں ہوتا مگر پھر یہ ارادہ ترک کر دیا کہ جن اجازت یافتہ موضوعات پر میں لکھ رہا ہوں اور بول رہا ہوں‘ بھلا ان پر کون سا عمل ہو گیا ہے جو ایسی باتیں کہنا شروع کر دوں جن کے لکھنے‘ کہنے اور بولنے کی اجازت نہیں۔ پھر اس خیال کو یہ سوچ کر ترک کر دیا کہ میں اس شہر سرسبز میں موجود آزادیٔ اظہار والے اس کونے میں یہ ناگفتنی باتیں کہہ کر بھی کون سی توپ چلا لوں گا؟