"KMK" (space) message & send to 7575

حکمرانوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا

ادھر برطانیہ میں جب میں مختلف معاملات کا پاکستان سے موازنہ کرتا ہوں تو بہت سی چیزوں پر ملال ہوتا ہے۔ عام آدمی کو حاصل سہولتوں کے حوالے سے بظاہر کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس ملک میں گاڑی رکھنے والوں کی شرح فیصد کے حوالے سے موازنہ کریں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے ہاں اب گاڑی رکھنے والوں کی شرح فیصد تین چار عشرے پہلے والی شرح فیصد سے کئی سو گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ ملتان شہر میں کسی زمانے میں کُل گاڑیاں اتنی نہیں ہوتی تھیں جتنی اب صرف لگژری برانڈز کی گاڑیاں دکھائی دیتی ہیں‘ تاہم اگر اس شرح فیصد کا موازنہ برطانیہ میں گاڑی رکھنے والوں سے کیا جائے تو ہمارا گراف بہت نیچے دکھائی دے گا۔ لمبرلینڈ میں شیخ اشرف کے پٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان خاصی معقول قسم کی کار میں آتا ہے۔ بلکہ صرف وہی کیا‘ دکانوں کے سیلزمین‘ ریستوران میں کام کرنے والے نوجوان‘ سکیورٹی گارڈز‘ دفتروں میں کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین‘ کاروباری اداروں میں ہیلپر ٹائپ ورکرز اور اسی نوعیت کے معمولی کام کرنے والوں میں سے ہر اُس شخص کے پاس اپنی گاڑی ہے جو رکھنا چاہتا ہے۔ ہاں! وہ از خود گاڑی نہ رکھنا چاہے تو اور بات ہے۔ تاہم اس کے باوجود برطانیہ کے معاشی حالات پہلے جیسے ہرگز نہیں ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستانیوں کی بے شمار ادبی اور ثقافتی تنظیمیں تھیں جنہیں گورنمنٹ فنڈنگ کرتی تھی۔ اس فنڈنگ کا بیشتر حصہ بھائی لوگوں کے دفتری خرچوں‘ ذاتی تنخواہوں اور تنظیم میں کام کرنے والے اپنے گھر کے افراد کی نذر ہو جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ فنڈنگ کم ہوتی گئی اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کے اپنے مالی حالات تھے جو بتدریج خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں اب قصۂ ماضی ہو چکی ہیں۔ بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ مہنگائی ناقابلِ یقین حد تک بڑھ گئی ہے‘ لوگوں کی قوتِ خرید پہلے جیسی نہیں رہی۔ لیکن یہ موازنہ برطانیہ کے ماضی کے معاشی حالات کا برطانیہ ہی کے حالیہ معاشی حالات سے کیا جا رہا ہے۔ یہ خراب تر حالات بھی ہمارے حالات سے بہت بہتر ہیں کہ وہاں اب بھی لوگوں کو وہ بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر ہیں جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے معاشی حالات کی خرابی کی بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی بدنیتی‘ نااہلی‘ کرپشن‘ اقربا پروری‘ لوٹ مار اور ملکی دولت کا بیرونِ ملک بہاؤ ہے جبکہ برطانیہ کی معاشی بدحالی کی بڑی وجہ تو اس کے نو آبادیاتی نظام کا سکڑ کر چھوٹے سے جزیرے تک پہنچ جانا ہے۔ جس سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب وہاں کئی کئی دن سورج طلوع ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم اس کی معاشی تنگی کی اور بھی کئی وجوہات ہیں؛ ان میں بڑی وجہ اس کا فلاحی نظام اور بہتر مستقبل کی آس لے کر آنیوالے دنیا بھر کے تارکین وطن ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے جس کا رقبہ پاکستان کے صوبہ پنجاب سے تھوڑا سا زیادہ ہے مگر یہاں آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ناقابلِ یقین ہے۔ صرف لندن میں رہنے والے غیر مقامیوں (ایشیائی‘ افریقی اور دوسرے نسلی گروہ) کی شرح 42فیصد ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ مشرقی یورپ سے آنے والے تارکین وطن کا سیلاب تھا۔ صرف پولینڈ اور رومانیہ سے آنے والوں کی تعداد تیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
بہتر مستقبل کی امید لے کر آنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ کہ اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے برطانیہ کی کمر دہری ہو گئی ہے۔ صرف مارچ 2024ء سے مارچ 2025ء کے دوران ایک سال میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے امیدوار افراد کی تعداد ایک لاکھ چھ ہزار 771 ہے۔ خوشی کی خبر یہ ہے کہ سیاسی پناہ کے امیدواروں میں سب سے زیادہ تعداد ہمارے پاکستانی بھائیوں کی ہے جنکی تعداد 11048 ہے‘ جو کل پناہ گزینوں کا دس فیصد بنتی ہے۔ اپنے ملک سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لینے والے ان لوگوں کو سرکار نہ صرف رہائش دیتی ہے بلکہ نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے ذریعے مفت علاج‘ بچوں کو مفت تعلیم اور کھانا فراہم کرتی ہے۔ کھانا دینے کی صورت میں انہیں فی کس دس پاؤنڈ فی ہفتہ اور کھانا نہ دینے کی صورت میں 49.18 پاؤنڈ فی ہفتہ وظیفہ بھی دیتی ہے۔ یعنی دیگر سہولتوں کے علاوہ ان ایک لاکھ سات ہزار سیاسی پناہ گزینوں کو صرف جیب خرچ کی مد میں 52لاکھ 50ہزار پاؤنڈ فی ہفتہ اور سالانہ 27کروڑ پاؤنڈ سے زائد رقم جو پاکستانی روپوں میں دس ارب سے زیادہ بنتی ہے‘ خرچ کرتی ہے۔
ساری آبادی کیلئے صحت اور تعلیم کی سہولت مفت ہے۔ معذوروں اور حقیقی بیروزگاروں کو (جنہوں نے بدنیتی سے ملازمت نہ چھوڑی ہو مثلاً از خود استعفیٰ یا بغیر معقول وجہ نوکری چھوڑنا) عمر کے حساب سے 67 سے 84 پاؤنڈ فی ہفتہ بیروزگاری الاؤنس‘ جسے بینیفٹ کہتے ہیں‘ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ریٹائر ہونے پر دورانِ ملازمت دیے جانے والے کنٹری بیوشن کے مطابق پنشن دی جاتی ہے جو عموماً اس شخص کی تنخواہ کے برابر ہوتی ہے۔
اپنے عوام اور بن بلائے آنے والے زبردستی کے مہمانوں کو دی جانے والی ان سہولتوں کا حساب کریں تو برطانیہ کی خراب ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کی سمجھ آتی ہے۔ تاہم اس خراب صورتحال میں بھی سرکار مستحق افراد کو بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہی ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے شہری یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی پہلے کی نسبت مشکل تر ہو رہی ہے اور ان کے معاشی حالات پہلے جیسے نہیں رہے۔ تاہم حال یہ ہے کہ دنیا بھر سے لوگ برطانیہ جانے کے خواہشمند ہیں اور برطانوی امریکہ‘ آسٹریلیا یا خلیجی ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانیہ کے خراب معاشی حالات کے پیچھے جو عوامل بھی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ وہاں کی سرکار نے اپنے مستحق اور ضرورتمند شہریوں اور پناہ گزینوں کو مطلق بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ معذور‘ بوڑھے‘ بیمار اور بیروزگار بھوکے نہیں مر رہے۔ کام کرنے والوں کی کم از کم آمدنی 40گھنٹے فی ہفتہ کے اعتبار سے 520 پاؤنڈ یعنی فی مہینہ تقریباً دو ہزار پاؤنڈ بنتی ہے جو پاکستانی حساب سے سات لاکھ 90ہزار روپے بنتی ہے۔ یہی وہ کشش ہے جو پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاروں سے لے کر غیر ہنر مند غریبوں تک کو کشتیوں اور کنٹینروں میں یورپ اور پھر وہاں سے برطانیہ جانے کیلئے اُکساتی اور جان پر کھیلنے پر آمادہ کرتی ہے۔ غریب غربا ڈنکی لگا کر اور لوٹی گئی دولت کے حامل ہمارے طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے برطانیہ میں سرمایہ کاری والے پروگرام کے تحت پہلے مستقل رہائش اور بعد ازاں شہریت حاصل کرتے ہیں۔ لوٹ مار کر وہاں پہنچنے والے سیاستدانوں اور نامور زور آوروں کو وہاں صرف ایک مسئلہ در پیش آتا ہے‘ وہ یہ کہ لوگ ان کی سرعام تذلیل کرتے ہیں‘ ان کے گھروں کے آگے باآوازِ بلند تبّرا کر کے گزرتے ہیں۔ ان کو ہوٹلوں اور ریستورانوں میں وہ کچھ کہتے ہیں جن کا وہ پاکستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ لوٹ مار کے عوض ادا کی جانے والی وہ قیمت ہے جس کی وائرل ہونے والی وڈیوز سے ہم بھی دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔
برطانیہ کی خراب معاشی صورتحال سے ایک بار پھر اپنے پاکستان کی خراب معاشی صورتحال یاد آ گئی۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت درست راستے پر رواں دواں ہے بلکہ چوکڑیاں بھر رہی ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ میں دس جون کو جب برطانیہ آیا تھا تو پاؤنڈ 383روپے کا تھا اور مورخہ چھبیس جون کو‘ یعنی صرف پندرہ دن بعد یہ شرح تبادلہ 393 روپے ہو چکی تھی۔ پندرہ دن میں روپیہ فی پاؤنڈ مزید دس روپے ذلیل ورسوا اور خراب و خستہ ہوا ہے مگر حکمرانوں کے بلند بانگ دعوے جاری ہیں۔ کسی کو ان دعوؤں پر یقین نہیں ہے مگر ہمارے یقین کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں