دکھائی تو پہلے بھی دے رہا تھا مگر اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح آشکار ہو چکی ہے کہ حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کیلئے مسائل اور مشکلات پیدا کرنے سے غرض ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں دو طبقے رہتے ہیں؛ ایک وہ جن کے پاس ہر قسم کی سہولت از قسم طاقت‘ دولت اور اقتدار ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ طاقت اور دولت تو رہی ایک طرف‘ انہیں تو آئین کے تحت حاصل حقوق‘ برابری کا درجہ‘ عدل و انصاف تک رسائی اور زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں اور مزے کی بات ہے کہ یہ دونوں طبقے ہمارے ہاں حکمرانوں کیلئے کسی قسم کا مسئلہ پیدا نہیں کر رہے اس لیے حکمران ان دونوں طبقوں کی جانب سے بالکل بے فکر اور سہمت ہیں ہو کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔
مملکتِ خداداد میں جن کے پاس سب کچھ ہے وہ خوش‘ نچنت اور بے فکر ہیں۔ بھلا جب انہیں اس ریاست میں قائم قدیمی سسٹم کی بدولت ہر سہولت اور ہر آسانی دستیاب و میسر ہے تو انہیں فکرمند ہونے کی‘ حکمرانوں سے تنگ پڑنے کی‘ صدائے احتجاج بلند کرنے یا استحصالی نظام کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں یہ نظام طاقت‘ دولت اور اقتدار دے رہا ہے تو وہ کس لیے ناخوش ہوں گے؟ دوسری طرف اس ملک کے مجبور‘ مقہور اور خاک نشین ہیں۔ انہیں مصائب و آلام کی ایسی چکی میں ڈال دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ڈور سلامت رکھنے‘ اپنے بچوں کیلئے روٹی کمانے‘ بجلی کا بل بھرنے‘ آٹے دال کا بندوبست کرنے کے علاوہ حکمرانوں کے عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کیلئے درجنوں قسم کے ٹیکس دینے کیلئے ایسے کولہو کے بیل بن چکے ہیں کہ وہ آنکھوں پر مجبوریوں کے ''کھوپے‘‘ چڑھائے مسلسل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ حکمرانوں کو جب بھی اس بات کا شائبہ ہوتا ہے کہ عوام کہیں ان کے خلاف سیلِ رواں بن کر اٹھ نہ کھڑے ہوں تو وہ ان کے کندھوں پر مزید بوجھ لاد دیتے ہیں۔ حکمرانوں کو تھوڑا سا بھی شک گزرے کہ ان کے کسی اقدام سے عوام کو رتی برابر فائدہ حاصل ہونے لگا ہے تو وہ فوراً اس سہولت کو ختم کرنے کے طریقے سوچنے لگ پڑتے ہیں۔ حکمرانوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح عوام کو نچوڑا جائے‘ ان کو حاصل سہولتوں (اگر وہ واقعی ہیں) کا دروازہ بند کیا جائے‘ ان پر روز نیا بوجھ لادا جائے اور ممکنہ حد تک ان کو صرف سانس لینے کے قابل چھوڑا جائے۔
اس ملک میں بجلی کے بلوں سے تنگ و پریشان اور خود کشیوں تک پر آمادہ لوگوں نے بلوں کی مصیبت کو کم کرنے کیلئے سولر سسٹم کا سہارا لیا۔ سرکار کو پریشانی شروع ہو گئی کہ عوام کو آخر اپنی مصیبت کم کرنے کیلئے یہ انوکھا خیال کیسے آ گیا؟ اور بھلا کیسے ممکن ہے کہ وہ ہماری طرف سے عطا کردہ مصائب کا حل از خود تلاش کر کے ہمارے پنجۂ استبداد سے نکلنے کی کاوش کریں۔ سرکار نے عوام کے پیسے سے لگے ہوئے سولر سسٹم کا منافع اپنی جیب میں ڈالنے کا اہتمام یوں کیا کہ لوگوں کے اپنے پیسے سے لگائے ہوئے سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی بجلی خریدنے اور اسے دوبارہ انہیں ہی فروخت کرنے کے درمیان کھانچہ لگا لیا۔ سولر سسٹم لگانے والوں سے نیٹ میٹرنگ کے نام پر مبلغ 27روپے فی یونٹ بجلی خریدنے اور انہی کی پیدا کردہ بجلی 35تا 45روپے (گھریلو اور کمرشل ٹیرف کے فرق کے ساتھ) بیچنا شروع کر دی۔ یعنی سرکار نے عوامی پیسوں سے بجلی پیدا کرنے والے نظام میں سے لینے اور دینے کے چکر میں فی یونٹ آٹھ تا اٹھارہ روپے کمانا شروع کر دیے۔ لیکن اس کھانچہ گیری سے سرکار کا پیٹ نہیں بھر رہا تھا۔ اس نے ہینگ یا پھٹکڑی لگائے بغیر فی یونٹ ہتھیائے جانے والے آٹھ تا اٹھارہ روپے کو اپنے لیے مزید فائدہ مند بنانے کیلئے نئے کنکشنز کو نیٹ میٹرنگ کے بجائے گراس میٹرنگ کے زمرے میں ڈال کر دس روپے والا گراس میٹرنگ ٹیرف لاگو کر دیا۔مثلاً اگر کسی نے دن بھر میں 100یونٹ بنا کر سرکار کو بیچے تو وہ اسے دس روپے فی یونٹ کے حساب ایک ہزار روپے دے گی تاہم رات کو سورج نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی پیدا کردہ سو یونٹ واپس خریدے گا تو اب وہ اپنے سو یونٹ پچاس روپے کے حساب سے مبلغ پانچ ہزار روپے میں خریدے گا۔ یوں سرکار صرف خریدنے اور بیچنے کے چکر میں 40روپے فی یونٹ کے حساب سے مبلغ چار ہزار روپے کما لے گی۔ بعض بسوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ''خرچہ مالکاں دا تے نخرے لوکاں دے‘‘۔ اسی طرح ''خرچے لوکاں دے تے نفع سرکار دا‘‘۔
مجھے اسی سے متعلق تقریباً 15سال پرانی بات یاد آ گئی۔ میں USAIDکی بجلی پر ہونے والی ایک ورکشاپ کے سلسلے میں اسلام آباد گیا تو وہاں میری ملاقات سلیم عارف جو سے USAIDکے پاکستانی پروگرام میں بجلی کے نظام کی بہتری کے سلسلے میں قائم ایک ونگ میں کنسلٹنٹ تھے‘ سے ہوئی۔ اپنے شعبہ میں مہارت رکھنے والے سلیم عارف سے میں نے بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اور عوام کیلئے ناقابلِ برداشت اضافے کے بارے میں وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک نہیں کئی جوہات ہیں‘ تاہم سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کے جو معاہدے کیے ہیں وہ نہ صرف بہت مہنگے ہیں بلکہ ان کی فی یونٹ قیمت کا تعین بھی روپے کے بجائے امریکی سینٹ یعنی ڈالر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جیسے جیسے روپیہ بے وقعت اور ڈالر مضبوط ہوتا جائے گا‘ جو کہ ہر حال میں ہونا ہے‘ ویسے ویسے ہماری بجلی بیٹھے بٹھائے مہنگی اور ان کا منافع بڑھتا جائے گا۔ میں نے سوال کیا کہ جب ملک میں لوڈشیڈنگ عروج پر ہو اور عام آدمی سے لے کر صنعتوں تک کو بجلی نہ مل رہی ہو تو ایسے میں افراتفری کے عالم میں کیے جانے والے معاہدے اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: آپ کو ایک بات بتاؤں! جن بین الاقوامی کمپنیوں سے ہم مہنگی بجلی خرید رہے ہیں وہی بین الاقوامی کمپنیاں بنگلہ دیش میں لگائے جانے والے اسی قسم کے یعنی Identical پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی پاکستان سے طے کردہ نرخوں سے آدھی قیمت میں فراہم کر رہی ہیں۔ یعنی بجلی کا جو یونٹ بنگلہ دیش کو جس قیمت میں دیا جا رہا ہے‘ پاکستان کو اس سے دوگنی قیمت میں فروخت کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے معاہدہ کرنے والوں نے اس سلسلے میں اپنا کمیشن کھرا کرکے اپنی جیب گرم کرنے کے عوض ساری قوم کو مہنگی بجلی کی مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں نے جہاں عام آدمی کو ہمہ وقت کی پریشانی اور تنگی میں ڈالا ہے وہیں اس ملک کی صنعتوں کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بجلی کی موجودہ قیمت پر کوئی پیداواری یونٹ اپنی پیداوار عالمی منڈی میں مسابقت کے ساتھ فروخت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ عوام‘ کاروبار‘ تجارت اور پیداوار‘ سب کے سب تباہ ہو کر رہ گئے ہیں لیکن آج تک کسی نے اس بربادی کے ذمہ داروں کا نہ تو تعین کیا ہے اور نہ ہی کسی کو سزا ملی ہے۔
میں نے حسبِ معمول شاہ جی سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ کہنے لگے: یہ ملک آج کل چھوٹے ڈاکوؤں کیلئے جہنم اور بڑے ڈاکوؤں کیلئے جنت بنا ہوا ہے۔ آج کل عوام کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو ان کے ساتھی چھڑوانے کے چکر میں جان سے مار رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک وقوم کو لوٹنے والوں کو ان کے ساتھی 'بھائی بند‘ نظامِ انصاف اور قانون بھرپور مدد کرکے باعزت بری کروا رہے ہیں۔ آج کل روز دو چار جرائم پیشہ لوگ پھڑکائے جا رہے ہیں۔ کہانی وہی پرانی گھسی پٹی اور ایک ہی ہے کہ ان کے ساتھی چھڑوانے آئے تھے اور اپنے ہی ساتھی کو مار کر بھاگ گئے۔ لوگ اسے حکومت کی کارکردگی کہہ رہے ہیں۔ یہ کارکردگی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی اور اپنے ہی نظام انصاف پر عدم اعتماد ہے۔ حکومت کو اس پر فخر نہیں‘ شرم آنی چاہیے۔ یہ جعلی پولیس مقابلوں میں مرنے والے ڈاکوؤں کا نہیں‘ نظامِ انصاف کا جنازہ ہے۔