گزشتہ کالم میں ذکر تھا ہر معاملے میں ہونے والی بربادی کا۔ ٹریفک‘ عدل و انصاف‘ احساسِ تحفظ‘ جمہوریت‘ معیشت‘ تعلیم‘ صحت اور ماحول‘ ہر چیز گراوٹ کی طرف رواں دواں ہے۔ ماحول اور درختوں کا ذکر کروں تو میں نے اپنی آنکھوں سے دو شہروں کو بتدریج برباد ہوتے دیکھا ہے۔ ایک لاہور اور دوسرا ملتان۔ لاہور کا مال روڈ درختوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور اب دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے۔ ناصر باغ میں گھنے درخت تھے جن پر میں نے خود نایاب پرندے از قسم دھنیس (Hornbill) دیکھے ہیں اور اب اس باغ کا عشرِ عشیر بھی باقی نہیں بچا۔ یہی حال کسی زمانے میں نہر کے کنارے درختوں کا تھا۔ اب بھی نہر کنارے مزید ہزاروں درختوں کی گنجائش ہے مگر متعلقہ محکمے درختوں پر توجہ دینے کے بجائے ہر سال میٹرو کے ستونوں پر فریم لگا کر پودے لگانے‘ گملے لٹکانے اور پھول لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ میٹرو کے ستونوں پر لگے ہوئے لوہے کے فریم برباد ہو چکے‘ گملے خدا جانے کہاں چلے گئے اور جب یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو ظاہر ہے پھول پھلواری کہاں سے آئے گی؟ ہر سیزن میں کروڑوں‘ اربوں اسی مد میں برباد ہو جاتے ہیں۔
لاہور کی نہر سے یاد آیا کہ ملتان میں بھی ایک نہر شہر کے اندر سے گزرا کرتی تھی۔ یہ نہر ایم ڈی اے چوک‘ پل موج دریا اور پل شوالہ سے گزرتی تھی جو شہر کا تقریباً وسط تھا۔ پھر یہ نہر خشک ہو گئی۔ درخت کٹ کر مافیا کی نذر ہو گئے۔ آرٹس کونسل‘ ایم ڈی اے کے دفاتر‘ سرکاری افسروں کی کالونی‘ رحمت کالونی‘ فائر بریگیڈ‘1122‘ آئی بی کا دفتر اور دفاتر ملتان تحصیل کبھی اس نہر کی گزر گاہ اور درختوں کی قطار ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ نہر اور درخت ماضی کا قصہ بن گئے۔ بقول فہمی بدایونی:
کمرہ کھولا تو آنکھ بھر آئی؍ یہ جو خوشبو ہے جسم تھی پہلے
ایم ڈی اے چوک سے اوپر ساری جگہ پر کالونیاں بن گئیں‘ نیچے پل شوالہ تک سرکاری دفاتر بن گئے اور اس سے آگے پہلے کچی آبادی بنی اور پھر وہ پکی ہو گئی۔ شہر کے درمیان موجود سبزے کی لکیر ختم ہو کر اینٹ اور سیمنٹ میں تبدیل ہو گئی۔ پہلے سے سبزے سے محروم شہر اس معاملے میں مزید تہی دست ہو گیا۔ اور اسی نہر پر کیا موقوف‘ ساری نہروں کے کنارے گنجے ہو گئے۔
عرصہ ہوا نواب پور کے نزدیک ایک دوست کی زمینوں پر ''مینگو پارٹی‘‘ کا اہتمام تھا۔ آٹھ دس دوست وہاں ٹیوب ویل کے تالاب میں نہا رہے تھے اور آم کھا رہے تھے۔ سامنے ایک تناور درخت کا کٹا ہوا تنا پڑا تھا۔ درخت کے اس تنے کو دیکھ کر ہمارے ایک اور دوست کی رال ٹپک پڑی اور اس نے میزبان دوست سے فرمائش کر دی کہ تمہاری زمین پر سڑک سے ڈیرے تک اور کھیتوں کی درمیانی ''وَٹوں‘‘ پر بھی کافی صحت مند اور تگڑے شیشم کے درخت ہیں ان میں سے ایک درخت کٹوا کر مجھے دے دو‘ میں اس سے گھر کا فرنیچر بنواؤں گا۔ ہمارا میزبان دوست کہنے لگا: میرے درختوں پر آنکھ نہ رکھو۔ میں نے تو یہ سامنے پڑا ہوا (اس نے انگلی سے کٹے ہوئے درخت کی اشارہ کرتے ہوئے کہا) درخت بھی ساتھ والی نہر سے کٹوایا ہے۔ محکمہ انہار کے بیلدار اور ضلعدار کو ہزار روپیہ دیا تھا اور وہ رات کو درخت کاٹ کر لے آیا تھا۔ انہوں نے اپنی نگرانی میں یہ درخت میرے ڈیرے تک پہنچوایا اور اگلے روز نامعلوم افراد کے خلاف اس درخت کی چوری کا پرچہ کٹوا دیا۔ تم کہو تو تمہیں بھی نہر سے درخت کٹوا کر دے دیتا ہوں‘ بلکہ تم یوں کرو‘ میرے ساتھ چل کر درخت پسند کر لو‘ وہی درخت کٹوا کر تمہارے پاس بھجوا دوں گا۔ نہ تو میرا وہ دوست سرکاری درخت کی چوری پر رضامند ہوا اور نہ ہی میزبان دوست اپنا درخت کٹوا کر دینے پر راضی ہوا۔ اب اس نہر پر پنجابی کے ایک لفظ کے مطابق ''ٹانواں ٹانواں‘‘ درخت ہی باقی بچا ہے۔ باقی سارے درخت کٹ کر یہاں سے جا چکے ہیں۔ نہر گنجی ہو چکی ہے اور کنارے بھی کٹاؤ کی وجہ سے برباد ہو چکے ہیں۔ جو لوگ درختوں کی حفاظت پر مامور ہیں وہ اسے اپنی کمائی کا ذریعہ بنا چکے ہیں اور بہت کم قیمت لگا کر عشروں میں تیار ہونے والے درخت بیچ کر فارغ کر چکے ہیں۔ کسی کو ان کٹنے والے درختوں کی جگہ پر نئے درخت اُگانے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ اگر ان کٹنے والے درختوں کے متبادل نئی شجر کاری ہی کر دی گئی ہوتی تو معاملات اس خرابی پر نہ پہنچتے مگر کسی کو اتنی بھی توفیق نہیں کہ انہوں نے پچھلی نسل کے لگائے ہوئے درخت تو کاٹ دیے ہیں تاہم اگلی نسلوں کیلئے ہی درخت چھوڑ جائیں۔ ہمیں تو درخت کاٹنے کا بہانہ چاہیے‘ کبھی ہاؤسنگ سکیمیں درخت کھا جاتی ہیں۔ کبھی سڑکوں کی کشادگی درخت کاٹنے کا باعث بن جاتی ہے اور کبھی ہم منظر نامے کی آڑ میں درخت کاٹ دیتے ہیں۔
اس خطے کا سب سے مقبول‘ مضبوط اور دیر پا درخت شیشم تھا۔ تین عشرے پہلے اس درخت پر کسی نامعلوم بیماری کا حملہ ہوا اور اس بیماری سے عشروں پرانے درخت سوکھ کر ختم ہو گئے۔ بیماری کا حملہ اتنا شدید اور فوری تھا کہ سنبھلنے سے پہلے پہلے سڑکوں کے کنارے‘ کھیتوں اور ذخیروں میں لگے ہوئے درخت سوکھ کر رہ گئے۔ اس بیماری کا علاج دریافت کرنے اور اس کا سدباب کرنے کی تو خیر ہمیں توفیق ہی نہیں‘ یار لوگوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ ان کی جگہ پر جلد بڑھوتری والے اُلٹی سیدھی اقسام کے درخت از قسم سفیدہ‘ پاپولر اور جنگلی شہتوت وغیرہ لگا دیے۔ اس سے ماحول بھی خراب ہوا اور زیر زمین پانی کی سطح پر بھی منفی اثرات پڑے۔ اوپر سے بیکار لکڑی والے ان درختوں نے وقت بے وقت گر کر بجلی کے ترسیلی نظام اور ٹریفک کو الگ نقصان پہنچایا۔ بہاولپور سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر اس خطے کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل لال سوہانرا ہے۔ اس جنگل میں شیشم کے درختوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا اس میں سے بیشتر درخت تو کاٹ کر بیچ دیے گئے اور رہے سہے درختوں کو بیماری کھا گئی۔ اس بیماری سے ماحول کو تو بڑا نقصان ہوا مگر اس بیماری کی آڑ میں سرکاری اہلکاروں نے‘ خواہ وہ محکمہ جنگلات کے تھے یا محکمہ انہار کے‘ اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور کٹوا کر فروخت کیے جانے والے بیشتر درخت اس بیماری کے کھاتے میں ڈال کر حساب صاف کردیا۔ دو سال قبل میں لال سوہانرا گیا تو وہاں تین چار بلاک نئے شیشم کے پودوں اور چھوٹے درختوں پر مشتمل دکھائی دیے۔ دل کو ڈھارس بندھی کہ شاید یہ جنگل پھر سے اپنی عظمت رفتہ رفتہ حاصل کر لے لیکن ماضی پر نظر دوڑائیں تو اپنی یہ خوشی عارضی محسوس ہوتی ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں بننے والی موٹرویز کے دونوں اطراف میں سفیدے جیسے نمک حرام درخت کے بجائے مقامی اقسام از قسم شیشم‘ بیری‘ نیم‘ پیپل‘ دھریک وغیرہ لگائے جائیں جو نہ صرف سخت جان ہیں بلکہ دیر پا اور مضبوط درخت ہیں۔ ان درختوں کے علاوہ موٹر وے کے اطراف میں پھلدار درخت لگا کر ان کو پرائیویٹ باغبانوں کو ٹھیکے پر دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو دونوں طرف والی زمین کے بلاک بنا کر پرائیویٹ سیکٹر کو لیز پر دیا جا سکتا ہے کہ وہ اگلے تیس سال تک اس زمین پر خود شجر کاری کرتے ہوئے ان درختوں کی حفاظت‘ پھل کی دیکھ بھال اور فروخت کریں۔ اس کے عوض گورنمنٹ کو نہ صرف آمدنی ہو گی بلکہ دونوں اطراف پر ہونے والی شجر کاری سے موٹروے پر گاڑیوں کے دھویں سے پیدا ہونے والے ماحول دشمن اثرات کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی اور پھلوں کی پیداوار ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالے گی۔ سرکار کو ہڈ حرام بیلداروں‘ نکمے سرکاری اہلکاروں اور نالائق محکموں پر ہونے والے خرچے بھی بچیں گے اور اوپر سے آمدنی بھی ہو گی۔ مگر ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے پر مامور بابوؤں‘ محکموں‘ اداروں اور حکمرانوں کو صرف وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جن سے ان کی جیب پر مثبت اثرات پڑیں۔ رہ گئی مملکتِ خداداد پاکستان تو اس کا خیال وہی رکھے گا جس کے نام پر یہ وجود میں آئی تھی۔