"KMK" (space) message & send to 7575

موسمِ عتاب میں انصاف کی پھرتیاں

آپ یقین کریں مجھے جمشید دستی کی شخصیت‘ سیاست اور ڈرامے بازی کبھی بھی پسند نہیں رہی۔ تاہم اس ناپسندیدگی میں کوئی ذاتی معاملہ شامل حال نہیں ہے۔ میری اس علاقے میں رہتے ہوئے بھی جمشید دستی سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ میری پوری کوشش رہتی ہے کہ میں اس قسم کے لوگوں سے‘جو مجھے بوجوہ پسند نہیں‘دور ہی رہوں۔ ایسے لوگوں سے ملاقات کا نتیجہ سوائے بدمزگی کے اور کچھ نہیں نکلتا‘ اس لیے میں بیشتر سیاستدانوں سے دور رہتا ہوں۔ دو تین لوگ ہیں جن سے تعلقات کسی حد تک خوشگوار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر کبھی ملاقات ہو تو وہ میری تمام تر ''کھلی ڈُلی‘‘ گفتگو‘ تنقید اور تجزیے پر ممکنہ حد تک صبر اور برداشت کرتے ہیں۔ آپ یقین کریں پاکستان کے پورے سیاسی منظر نامے میں ایسے لوگوں کی تعداد ہاتھ کی ایک انگلیوں کے برابر یا شاید اس سے بھی کم ہو گی۔
جمشید دستی خود کو غریب ظاہر کرتے ہوئے ووٹروں کی ہمدردیاں سمیٹنے‘ خود کو ایماندار‘ نیک پاک اور مخلص ثابت کرنے اور سستی شہرت حاصل کرنے والی حرکتوں کے باعث میرے دل میں کبھی بھی ایسے انسان کے طور پر جگہ نہیں پا سکا جس سے آپ کسی بہتر چیز کی توقع کر سکیں۔ مظفر گڑھ میں ایک وکیل کے منشی کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والا جمشید دستی بعد ازاں آل پاکستان ٹرک ڈرائیورز و گڈز ایسوسی ایشن ٹائپ تنظیم کے مشہور و معروف لیڈر یوسف شاہوانی کے ساتھ جڑ گیا۔ جعلی ڈگریوں کی دو عدد ہیٹرک کرنے کے بعد ساتویں جعلی ڈگری پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کی اس نااہلی سے مجھے رتی برابر بھی نہ تو اختلاف ہے اور نہ ہی کوئی افسوس یا ملال ہے تاہم مجھے اس طریقہ کار سے اختلاف ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے عرصہ تیرہ چودہ سال بعد اس موسمِ عتاب میں نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی سیٹ سے فارغ کیا گیا ہے۔
جمشید دستی کی جعلی ڈگری والا معاملہ ڈیڑھ عشرہ پرانا ہے۔ جمشید دستی 2008ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 178 مظفر گڑھ III سے پیپلزپارٹی کی طرف سے کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور امیدوار کیلئے بی اے کی شرط لازمی تھی۔ انڈر میٹرک جمشید دستی نے( میں نے انڈر میٹرک اس لیے رکھا ہے کہ موصوف کی دو عدد میٹرک کی اسناد بھی جعلی ثابت ہو چکی ہیں) الیکشن کیلئے اہلیت کی اس شرط کو پورا کرنے کیلئے فوری طور اپنے لیے جس ڈگری کو پسند فرمایا وہ ''شہادت العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘ تھی۔ وفاق المدارس بورڈز کے تحت جاری یہ ڈگری ایم اے عربی و اسلامیات کے برابر تصور کی جاتی ہے۔ موصوف نے یہ ڈگری غالباً ڈیرہ اسماعیل کے ایک مدرسے سے حاصل کی تھی۔کسی شر پسند نے جمشید دستی کی یہ ڈگری عدالت میں چیلنج کردی اور یہ کیس چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں لگ گیا۔ دوران سماعت ایسی پُرلطف بحث ہوئی کہ دل خوش ہو گیا۔ افتخار چودھری نے جمشید سے قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد پوچھی جو اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں تھی۔ قرآن مجید کے سپاروں کے بارے میں انکشاف کیا کہ ان کی تعداد چالیس ہے۔ قرآن مجید کی کسی تفسیر کا پوچھا گیا تو موصوف نے اپنے بے کراں علم کا ایٹمی دھماکا کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر پڑھی ہے( میں مذاق نہیں کر رہا)۔ افتخار چودھری علم کے اس سونامی سے کیسے محفوظ رہے‘یہ عاجز اس سے لاعلم ہے؛ تاہم یہ انہی کا حوصلہ تھا کہ اس شدید علمی ریلے کے باوجود انہوں نے موصوف کو اپنی عادت کے برعکس رحم کرتے ہوئے ازخود مستعفی یا نااہل ہونے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی سہولت عطا فرما دی۔ موصوف نے مستعفی ہونا قبول کر لیا اور مارچ 2010ء کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہو گیا۔
آگے چلنے سے پہلے ایک دو باتیں بتانا ضروری ہیں اور وہ یہ کہ جمشید دستی کی حاصل کردہ شہرت یافتہ ''شہادت العالمیہ فی العلوم العربیہ والا اسلامیہ‘‘ کی ڈگری نہ صرف یہ کہ جعلی تھی بلکہ جس مدرسے سے جاری شدہ تھی وہ وفاق المدارس کے ان پانچ بورڈز(اب ان کی تعداد دس ہے) سے منظور یا الحاق شدہ ہی نہیں تھا جو یہ ڈگری جاری کر سکتے تھے۔ یعنی ڈگری دو طرفہ جعلی تھی۔ اس ڈگری کے حصول کے دوران طالبعلم نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ تفسیر‘ فقہ‘ اصول فقہ‘ منطق اور عربی ادب بشمول قدیم عرب شاعری وغیرہ پڑھتا ہے۔ یہ ڈگری ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سے منظور شدہ ہے اور یہ ڈگری جاری کرنے والے ادارے بڑی سخت جانچ پڑتال اور چھان بین کے مرحلے سے گزر کر اس اہلیت کے حامل ٹھہرتے ہیں۔
2008ء کے الیکشن میں جعلی ڈگری کے چشمے میں نہانے والا صرف جمشید دستی اکیلا نہ تھا۔ درجنوں دیگر جعلساز ارکان اسمبلی بھی نااہل ہوئے اور ان کو آئین کے آرٹیکل 62؍ 63کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی پاداش میں پانچ سال یا تاعمر نااہل قرار دے دیا گیا تاہم ان درجنوں نااہل ہونے والے ارکانِ اسمبلی کے برعکس جمشید دستی کو چیف جسٹس افتخارچودھری نے اپنے بے کراں اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑنے کا اہل قرار دے دیا۔ اپنی سیٹ سے مستعفی ہونے کے بعد جمشید دستی اپنے ہی استعفے کے باعث خالی ہونے والی اس نشست پر الیکشن لڑ کر دوبارہ قومی اسمبلی پہنچ گیا۔ میں نے تب اس سارے معاملے پر ایک دو تفصیلی کالم لکھے۔ جواباً جمشید دستی نے‘ جسے یوسف شاہوانی کی زیر سرپرستی زرد صحافت پر مبنی ایک ہفت روزہ چلانے کا تجربہ تھا‘میرے خلاف ذاتیات کی سطح پر اتر کر ایک اخبارمیں کالم بھی چھپوایا۔ میرے پاس اس کالم کے جواب میں ذاتیات پر اترنے کا اخلاقی جواز موجود تھا تاہم میں نے ایسا نہ کیا کیونکہ آپ کسی کے ساتھ کیچڑ میں جا کر کشتی شروع کر دیں تو آپ کو ناپاک اور گندا ہونے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ڈگری کا حصول اور خود کو پڑھا لکھا ظاہر کرنا شاید جمشید دستی کا ذہنی مسئلہ یا احساسِ کمتری تھا کہ اس نے ڈگری کی شرط ختم ہونے کے باوجود جعلی ڈگریوں کے حصول کی کوششیں جاری رکھیں۔ موصوف اس سارے عرصہ میں میٹرک‘ ایف اے‘ بی اے اور شہادت العالمیہ کی کل سات عدد ڈگریوں کے جعلی حصول میں کامیاب و کامران ہونے کے سبب قومی اسمبلی سے ناکام و نامراد قرار پائے۔ میں نے اس دوران اپنے کالم میں مظفر گڑھ تھرمل پلانٹ میں فرنس آئل کی چوری میں جمشید دستی کی سرپرستی پر بھی روشنی ڈالی تاہم جمشید دستی کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ اب اس کی نااہلی میں ایک عدد الزام اثاثے مخفی رکھنے کا بھی ہے اور ان کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ اس حوالے سے مجھے جمشید دستی کی حالیہ نااہلی پر تو کوئی افسوس‘ صدمہ یا اعتراض نہیں‘ ہاں! البتہ نظام انصاف سے شکوہ‘ اعتراض اور سوال ضرور ہے۔یہ انگریزی محاورے کے مطابق Open & shut کیس تھا لیکن عدالت نے تو اس کا فیصلہ پندرہ سال میں بھی نہیں کیا۔ سینکڑوں پیشیاں ہوئیں‘ درجنوں جج تبدیل ہوئے۔ ڈگریوں کے جعلی ہونے کے بارے میں متعلقہ بورڈز اور یونیورسٹیوں سے تصدیقی عمل صرف ایک ہفتے میں ہو سکتا تھا مگر عدالتیں پندرہ سال میں بھی فیصلہ نہ کر سکیں۔ اسے شتابی سے الیکشن کمیشن نے اب فارغ کیا ہے جبکہ موسمِ عتاب چل رہا ہے تو فیصلے راکٹ کی رفتار سے ہو رہے ہیں۔ یہاں فیصلوں کی رفتار آئین و قانون کے زور پر نہیں‘ موسمِ عتاب و موسمِ مہربانی کی بنیاد پرمنحصر ہے۔ یہ بات آخر کسی کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ صحیح وقت پر غلط اور غلط وقت پر درست فیصلوں سے سوائے بدنامی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ درست فیصلے درست وقت پر نہ ہوں تووہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے نظام عدل کے ساتھ ہو رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں