"KMK" (space) message & send to 7575

موسمِ بریت میں میری حیرانی اور شاہ جی کی پریشانی

اگر اس وقت ملک میں موسم عتاب چل رہا ہے تو اس یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ادھر ہوائے سخاوت نہیں چل رہی۔ پاکستان کے گلستانِ انصاف میں دو موسم ہیں۔ موسمِ جودوسخا اور موسمِ عتاب و قہر۔ تاہم گلستانِ انصاف کے یہ دو موسم اس خطے کی فصلوں کے صدیوں سے رائج ربیع اور خریف کے برعکس سال کے مختلف موسموں اور مہینوں سے منسلک نہیں بلکہ ایک ہی وقت رائج و مستعمل ہیں۔ ان سے مستفید ہونے والے بھی دو طبقے ہیں۔ ایک حکمران اور دوسرا اپوزیشن؛ یعنی عنایت یافتہ اور عتاب زدہ طبقہ۔ ہر موسم کسی ایک فریق کے لیے مقدموں‘ سزاؤں اور قیدو بند کا پیغام لاتا ہے تو دوسرے فریق کے لیے رہائی‘ بریت اور آسانیوں کا سندیسہ لاتا ہے۔ آج کل اپوزیشن موسم عتاب بھگت رہی ہے اور حکمرانوں کے لیے موسمِ بریت چل رہا ہے۔ اسی موسم کے طفیل ہمارے گرائیں چیئرمین سینیٹ مخدوم سید یوسف رضا گیلانی جو پاکستانی آئین کے مطابق پروٹوکول آرڈر میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم کے بعد تیسرے درجے پر متمکن ہیں کے لیے کیسے ممکن تھا کہ موسمِ جودو سخا آئے‘ بریت کی ہوا چلے‘ انصاف کی گھنٹیاں بجیں‘ عدل کے ترازو سائلوں کو پکاریں اور چیئرمین سینیٹ اس ہوائے بریت میں سرخرو نہ ٹھہریں۔ سو ہمارے پیارے سید یوسف رضا گیلانی TDAP یعنی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان میں بدعنوانی‘ کمیشن‘ فریٹ سبسڈی میں گھپلے کے چھبیس عدد مقدمات میں باعزت بری ہو گئے ہیں۔ وہ اس سال مارچ میں تین اور جولائی میں بقیہ23 مقدمات میں مکھن میں سے بال کی طرح صاف نکل گئے۔
قارئین! مجھے معاف کیجئے گا حسبِ معمول بہک کر مجھے ڈیڑھ صدی پرانے معاملات یاد آ گئے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ گیلانی خاندان، جو جنوبی پنجاب میں مریدوں کا وسیع حلقہ رکھتا ہے‘ شاید بہت بڑا جاگیردار یا امیر کبیر خاندان ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ ان کے جد امجد سید موسیٰ پاک1601ء کے لگ بھگ لنگاہ قبیلے کے ہاتھوں شہید ہوئے اور اُچ شریف میں دفن کیے گئے مگر اُچ شریف میں پہلے سے موجود بہت بڑی گدی سید جلال الدین سرخپوش اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے گدی نشینوں کی جانب سے اپنے دائرہ ہائے مریدین میں کسی مزید مزار اور تقسیم کے خدشے اور مزاحمت کے باعث موسیٰ پاک شہید کی میت کو اُچ شریف سے ملتان کے قریب منگے پٹی میں بطور امانت دفن کیا گیا۔ پندرہ سال بعد یعنی 1616ء میں ان کا تابوت ملتان میں موجودہ مقبرے میں منتقل کر دیا گیا۔
گیلانیوں کے پاس سوائے اپنے جد امجد سید موسیٰ پاک شہید کے مزار کے اور کوئی غیر منقولہ جائیداد نہ تھی۔ ظاہر ہے نذرانے جائیداد نہیں ہوتے۔ گیلانیوں کے پاس پہلی بار بڑی جائیداد تب آئی جب مخدوم حامد شاہ گردیزی‘ جو خود چھبیس مواضعات کے مالک تھے اور مختلف وجوہات کی بنیاد پر (ان پر گفتگو کرنا اور لکھنا خاصا حساس معاملہ ہے) تقریباً ساری جائیداد سے اپنی زندگی میں ہی فارغ ہو چکے تھے۔ ان کی دختر کی شادی موسیٰ پاک شہید کے گدی نشین اور سید یوسف رضا گیلانی کے پڑدادا مخدوم شیخ محمد غوث رابع المعروف سید صدرالدین سے ہوئی اور ان کے نام پر موجود زمین گیلانی خاندان کے تصرف میں آ گئی۔ دوسری بار بڑی زمین ملنے کا واقعہ سید یوسف رضا گیلانی کے دادا مخدوم غلام مصطفی شاہ سے منسوب ہے تاہم ان سے منسوب زمین بھی دراصل ان کے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ اس اندوہناک واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ مخدوم غلام مصطفی شاہ جو دربار موسیٰ پاک شہید کے گدی نشین ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز سرکار سے وفاداری کے باعث ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے منصب جلیلہ پر فائز کئے گئے۔ ان کے والد سید صدرالدین شاہ بھی اپنی گدی نشینی کے دوران آنریری مجسٹریٹ کے طور پر کام کرتے رہے‘ یہ اس خطے میں اپنی نوعیت کی پہلی تقرری تھی۔ حالانکہ اس زمانے میں آئی ایم ایف کی طرف سے سرکاری ملازمین کی جائیداد کے گوشواروں کی فرمائش یا ایف بی آر ٹائپ محکمے کی جانب سے فائلر اور نان فائلر کی کیٹیگری موجود نہ تھی مگر انگریز کے زیر انتظام سرکاری محکموں اور افسروں میں احتسابی عمل کا خوف ہمہ وقت کار فرما تھا۔ اس بنیاد پر انہوں نے اپنی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹی کے دور میں اوپر کی ساری کمائی بصورت زمین اپنے چھوٹے بھائی مخدوم محمد رضا شاہ (والد گرامی سید حامد رضا گیلانی) کے نام پر لگا دی۔ بعد از ریٹائرمنٹ جب انہوں نے اپنے برادرِ خورد سے زمین کی واپسی کا تقاضا کیا تو انہوں نے بڑے بھائی سے نہایت عزت و احترام اور ادب آداب کے ساتھ ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ اس انکار کی وجہ بیان کرنے والا راوی گو کہ نہایت معتبر اور ثقہ ہے مگر چونکہ اس میں عائلی معاملات دخیل ہیں اس لیے میں اس موضوع پر لکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔
ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ مخدوم محمد رضا شاہ گیلانی جو تب کے ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے چیئرمین تھے‘ نے یہ زمین اپنے زورِ بازو سے پیدا کی تھی لیکن اس روایت کے حق میں کوئی معتبر راوی میسر نہیں ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ مخدوم صدر الدین گیلانی کے چار بیٹوں یعنی مخدوم غلام مصطفی شاہ گیلانی‘ سید غلام یاسین شاہ گیلانی‘ سید مختار حسین شاہ گیلانی اور سید محمد رضا شاہ گیلانی میں سے صرف سید محمد رضا گیلانی کے پاس ساٹھ ستر مربع اراضی تھی جبکہ باقی تین بیٹوں کی مجموعی زمین بھی سید محمد رضا شاہ گیلانی سے آدھی تھی۔ محمد رضا شاہ کا صرف ایک بیٹا مخدوم حامد رضا گیلانی تھا جبکہ مخدوم غلام مصطفی گیلانی کے سات بیٹے تھے۔ لہٰذا پہلے سے کم زمین تقسیم در تقسیم کے چکر میں اتنی کم ہو گئی کہ ان کے بیٹے سید علمدار حسین گیلانی (والد سید یوسف رضا گیلانی) کی وفات کے بعد سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بھائی احمد مجتبیٰ گیلانی کے حصے میں صرف ستاون ستاون ایکڑ اراضی آئی۔
بعد ازاں ان کواپنے ننھیال کی طرف سے والدہ کو ملنے والے تقریباً تیس مربعوں کے عوض (ان کے نانا مخدوم الملک غلام میراں شاہ‘ مخدوم حسن محمود کے والد اور مخدوم احمد محمود کے دادا تھے) ادائیگی کر دی گئی۔ قصہ کوتاہ‘ سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بننے سے قبل مالی مشکلات کے باعث اپنی ملتان والی رہائش گاہ کا آدھا حصہ کسی وجاہت آرائیں کو فروخت کر چکے تھے اور اس کے دروازے کے باہر اس کے نام کا بورڈ بھی آویزاں تھا۔ پھر وہ وزیراعظم بن گئے اور وہ آدھا حصہ واپس خرید لیا۔ لاہور ڈیفنس میں ان کے خاندان نے چار گھر لے لیے۔ گاڑیاں‘ جائیدادیں اور دولت کی ایسی ریل پیل ہوئی کہ اللہ کی رحمت پر رشک آ گیا۔ ستاون ایکڑ زمین کے مالک اور چند سال قبل آدھا گھر اور اپنی کتاب (چاہِ یوسف سے صدا) میں مالی مشکلات کے باعث گھڑی فروخت کرنے کا قصہ بیان کرنے والے ارب پتی گیلانی صاحب کرپشن کے مقدمات سے باعزت بری ہو گئے ہیں۔ میری کیا مجال کہ نظام انصاف پر انگلی اٹھا سکوں۔ تاہم سوچتا ہوں کہ یہاں ہر حکمران اور اس سے وابستہ سیاستدان، اشرافیہ کے ارکان‘ مقتدرہ کے زور آوران‘ بیورو کریسی کے افسران‘ سب کے سب نیک پاک ہیں۔ ایماندار ہیں‘ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں تو اس ملک میں کرپشن کون کر رہا ہے؟
حسبِ معمول یہ بات شاہ جی سے پوچھی تو وہ کہنے لگے: جب اس ملک میں سب ہی بے گناہ اور معصوم ہیں تو باقی صرف تم ہی ممکنہ کرپٹ بچتے ہو۔ میں نے حیران ہو کر شاہ جی سے کہا :لیکن میرے پاس تو ٹکا بھی نہیں ہے اگر ساری کرپشن میں نے ہی کی ہے تو پھر وہ ساری دولت کہاں ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: ہاں البتہ یہ بات واقعی پریشانی والی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں