"KMK" (space) message & send to 7575

پیٹ درد میں افاقے کی دعا

اگر کوئی کالم نگار یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس ملک کے حالات‘ خواہ وہ سیاسی ہوں‘ معاشی ہوں یا معاشرتی ہوں‘ یا کسی بھی موضوع پر نہایت بے ضرر اور دھنیا قسم کا کالم لکھ کر اپنے تمام قارئین کو خوش کر سکتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اب اگر بندہ ملک میں ہونے والے کسی کام پر تنقید یا تنقیص کرے گا تو ظاہر ہے ایسا کالم حکمرانوں کے چمچوں اور طبلچیوں کو کیسے راس آ سکتا ہے؟ وہ اس پر اور کوئی اعتراض نہ بن پا رہا ہو تو گڑے مردے اکھاڑنا شروع کر دیں گے۔ گزشتہ حکمرانوں کو اس کالم میں نہ لپیٹنے کے جرم میں کالم نگار پر مختلف الزامات از قسم یوتھیا‘ لفافہ صحافی‘ ڈرپوک یا مفاد پرست ہونے کا الزام لگا دیں گے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی کالم نگار نے گزشتہ حکمرانوں کے دور میں ان کی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور خامیوں پر جی بھر کر نشتر زنی کی ہوتی ہے مگر وہ ایسے کالم‘ جن میں ان کے پسندیدہ لیڈر پر تنقید کی گئی ہوتی ہے‘ کو نہایت ہی ذاتی حوالوں سے دل پر لے لیتے ہیں۔
عمران خان اپنے حامیوں کواس روئے ارض کا سب سے زیادہ عظیم‘ بہادر‘ حق گو‘ ایماندار‘ عقلمند‘ دانشور اور غرض دنیا پر پائی جانے والی ہر خوبی سے مالا مال شخص دکھائی دیتا ہے جس میں کوئی بشری خامی یا کمی نہیں ہے۔ وہ انہیں ایک مرشدِ کامل کی صورت دکھائی دیتا ہے اور ان کے حامیوں کو سارا دن سوائے خان کی تعریف و توصیف کے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ تاہم اس ذہنی فتور کا شکار صرف عمران خان کے حامی ہی نہیں‘ ان کے مخالفین بھی ذہنی انتشار کے اسی مرتبے پر فائز ہیں۔ خان کے مخالفین کو بھی سوائے سارا دن عمران خان کو مطعون کرنے‘ اس کے لتے لینے‘ اسے ملکی سیاست سے آئوٹ کرنے‘ اسے ایک ہزار سالہ قید دلوانے‘ اس کے خلاف سارا دن منہ سے کف بہاتے ہوئے تقریریں کرنے‘ اسے یہودی ایجنٹ ثابت کرنے‘ ملک دشمن اور غیر ذمہ دار شخص ثابت کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ آپ جیسے ہی حالیہ حالات پر کچھ لکھیں‘ پٹواری ٹائپ لوگ فوراً اس کالم کے حوالے سے ماضی میں ہونے والی اسی قسم کی غلطیوں‘ خامیوں‘ نالائقیوں اور نااہلیوں کو بنیاد بنا کر موجودہ تناظر میں لکھے ہوئے کالم کو اعتراض کی بَلی پر چڑھاتے ہوئے آپ پر بے ایمان‘ خائن اور نجانے کون کون سا الزام لگا دیتے ہیں کہ آپ نے عمرانی دور میں اسی قسم کی پیش آنے والی صورتحال کا تذکرہ نہیں کیا اور یہ کہ آپ یوتھیے ہیں۔ یہ الزام وہ لگاتے ہیں جو خود پٹواری ہیں۔
کالم‘ ظاہر ہے اخبار کے ادارتی صفحہ پر میسر محدود سی جگہ‘ جو تقریباً چودہ سو الفاظ پر مشتمل تحریر کیلئے مختص ہوتی ہے‘ کیلئے لکھا جاتا ہے۔ یہ یوسف زلیخا کا قصہ یا شہزادی گل بکائولی کی کہانی نہیں کہ عشروں پہلے سے شروع کی جائے اور دو تین نسلوں کو اس قصے کی زینت بنایا جائے۔ اخباری کالم روزانہ کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے اور اسے تاریخ کے سیاق و سباق کے معیار پر پرکھنا اور اعتراض کرنا کالم نگار کی نہیں بلکہ قاری کی بے ایمانی اور ناانصافی ہے کہ وہ حقائق کو پرکھے اور کالم نگار کو درپیش حدود وقیود کا ادراک کیے بغیر اپنی من چاہی خواہشات کی تکمیل کا طالب ہے۔ اب بھلا سب کو راضی کرنا کہاں ممکن ہے؟
گندم کی فصل پر کسان کے برباد ہونے کا تذکرہ کریں تو ایسے طبلچی اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے کالم میں 2019ء کے چینی کے بحران کا ذکر نہ کرکے بے ایمان‘ خائن اور کاذب ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ بندہ اب کیا بتائے کہ اس لکھاری نے تب اس بحران پر خامہ فرسائی کی تھی‘ تاہم آج تو آج ہی کی بات ہوگی۔ اگر بندہ یہ لکھ دے کہ حکمرانوں کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ چند ماہ پہلے ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے والے منصوبہ ساز اب چند ماہ بعد پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے جا رہے ہیں تو اب بھلا کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ گزشتہ تیس سال کے دوران اسی قسم کی درآمدی‘ برآمدی نالائقیوں اور بدعنوانیوں کا مکمل تذکرہ کیا جائے؟ اس کام کیلئے کالم نہیں ایک پورا وائٹ پیپر ہونا چاہیے تاہم کالم میں تو اسی بات کی نشاندہی کی جائے گی جو لمحۂ موجود میں عوام‘ ملک اور معاشرے کیلئے باعثِ آزار ہو گی۔ ہر بات کیلئے تاریخی واقعات کا تذکرہ شاملِ حال کرنے کا مطالبہ ایسا ہی ہے کہ ہر عدالتی فیصلے کا آغاز جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت سے کیا جائے‘ ہر آئینی بات کرنے کیلئے کہانی کا آغاز 1956ء کے آئین سے کیا جائے اور پاکستان کے موجودہ حالات کا تذکرہ کرنے کیلئے قراردادِ پاکستان کو بنیاد بناتے ہوئے بات کا آغاز 1940ء سے کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ کالم میں ممکن نہیں۔
اس صورتحال پر کیا کریں کہ حکومت نے ملک میں پانچ لاکھ ٹن چینی کی درآمد کی جو اجازت مرحمت فرمائی ہے اس کی ٹائمنگ یعنی نظام الاوقات ایسا تباہ کن ہے کہ عام آدمی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ حکومت نے چینی کی درآمد کی جو اجازت دی ہے اس کو سامنے رکھیں تو یہ چینی اکتوبر اور نومبر میں پاکستان پہنچے گی۔ یعنی عین اس وقت جب اس ملک میں گنے کی فصل کرشنگ کیلئے تیار ہو چکی ہوگی۔ اس ملک کا کاشتکار گزشتہ دو سال کے دوران ممکنہ حد تک برباد ہو چکا ہے۔ جی ہاں! میں اب ان دو سالوں کا ذکر کرتے ہوئے گزشتہ حکمرانوں کی زراعت سے متعلق حماقتوں کا تذکرہ شروع کر دوں تو نہ صرف یہ کہ کئی کالم لکھنا پڑیں گے بلکہ حالات کی موجودہ سنگینی صفر ہو کر رہ جائے گی۔
گزشتہ سیزن میں گنے کے کاشتکار کو شروع ہی سے گنے کا مناسب ریٹ ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن آئندہ کرشنگ سیزن میں‘جو نومبر میں شروع ہوگا‘ مارکیٹ پر درآمدی چینی کی آمد کے باعث ملکی چینی کی طلب کیلئے کوئی دبائو نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں ملز مالکان گنے کے کاشتکار سے گنے کی خرید ممکنہ حد تک مؤخر کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اس بات کا تکنیکی طور پر جائزہ لیں تو جن لوگوں کو اس بارے میں معلومات نہیں ہیں ان کیلئے عرض ہے کہ جب نومبر کے شروع میں گنے کی کرشنگ شروع کی جاتی ہے تو گنے کے رَس میں چینی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ چینی دو اجزا‘ گلوکوز اور فرکٹوز کا مجموعہ ہے اور یہ دو اجزا مل کر سکروز (Sucrose) بناتے ہیں۔ جب تک گنا پختہ ہونے کے مرحلے سے گزرتا رہتا ہے‘ اس کے رس میں سکروز کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی گنے کی کرشنگ اگر شروع نومبر کے بجائے نومبر کے آخر یا دسمبر کے اوائل میں کی جائے تو گنے سے چینی کے حصول کی شرح فیصد بڑھ جاتی ہے۔ اب نومبر میں درآمدی چینی کے پاکستان پہنچنے کے مضمرات کا جائزہ لیں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ شوگر ملز کو مارکیٹ سے طلب کا کوئی دبائو نہیں ہوگا اور وہ کم ریکوری والا گنا پیلنے کے بجائے درآمدی چینی سے منافع کماتے ہوئے (درآمدی مافیا اور ملز مالکان اندر سے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں) گنے کی خرید مؤخر کر دیں گے جس سے گنے میں سکروز لیول بڑھ جائے گا اور جب وہ گنے کی کرشنگ شروع کریں گے تو ان کو اسی گنے میں سے چینی کی زیادہ مقدار حاصل ہوگی اور ان کے مزے ہو جائیں گے۔ دوسری یہ کہ کاشتکار جب گنا کاٹ کر ملز کے گیٹ پر لے جائے گا اور ملز مالکان خرید میں لیت و لعل کریں گے تو وہ اپنا گنا کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ اس کو اگلی فصل کاشت کرنے کیلئے رقم کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ گنا ملز کے گیٹ پر رُکا رہنے سے اس میں سے پانی آبی بخارات کی صورت بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے جس سے گنے کا وزن کم ہو جاتا ہے اور چینی کی مقدار مزید بڑھ جاتی ہے۔
میرا خیال ہے اس سارے چکر میں جو گڑبڑ گھوٹالا ہو رہا ہے آپ لوگوں کو اس کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ ہاں البتہ! جو لوگ اس کالم کو موجودہ حکمرانوں کے خلاف سازش سمجھ کر پیٹ درد میں مبتلا ہیں‘ یہ عاجز صرف ان کے پیٹ درد میں افاقے ہی کی دعا کر سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں