آپ یقین کریں میرا کوئی عزیز‘ کوئی دوست‘ کوئی رشتہ دار‘ کوئی جاننے والا یا کوئی ہمسایہ فی الوقت نہ تو پولیس کی تحویل میں ہے اور نہ ہی میرے بہترین علم کے مطابق کسی معاملے میں پولیس کو مطلوب ہے کہ میرے اس کالم کو گزشتہ کالم سے جوڑ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ میں شاید ذاتی وجوہات کی بنا پر اس موضوع کو مسلسل زیر قلم لا رہا ہوں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ آج آپ کسی دوسرے کے معاملے پر محض اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ یہ میرے ساتھ نہیں ہو رہا تو یقین کریں جب یہ سب کچھ آپ کے ساتھ ہو رہا ہوگا تو باقی لوگ بھی اسی طرح خاموش رہیں گے جس طرح آج آپ دوسروں کے ساتھ ہونے والے جبر اور ظلم و زیادتی پر خاموش ہیں۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس ملک میں قانون کی کسمپرسی کو قانون کی حاکمیت میں بدل دیا جائے۔ امیر اور غریب کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔ سرکار اور عوام ماورائے عدالت اقدامات سے باز آ جائیں۔ چوروں‘ ڈاکوؤں‘ قاتلوں اور عزتیں لوٹنے والوں کو قانون اور عدالتیں کیفرِکردار تک پہنچائیں۔ ہم نہ سہی تو ہماری آئندہ نسلیں اس ملک میں برداشت‘ تحمل‘ رواداری‘ قانون کا پابند اور عدالتوں پر بھروسہ کرنے والا معاشرہ دیکھ سکیں۔ کیا یہ خواہش کرنا گناہ ہے؟
جب آپ کسی چیز سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں یا آپ کو آنکھیں کھولتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے تو یہ اس کا حل نہیں ہے۔ کبھی آپ بے بس ہو جاتے ہیں تو مایوسی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کبھی آپ اس چیز کو رتی برابر بھی اہمیت نہیں دیتے اور خود کو اس سے علیحدہ رکھتے ہیں‘ اور کبھی اس لیے اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ آپ اس جرم میں بطور شریک کار اور حصہ دار اس مسئلے کی تمام تر خرابیوں کی جانب سے بے پروا ہو کر ادھر سے منہ پھیرے رکھتے ہیں۔ اس وقت صورتحال سہ طرفہ صرفِ نظر والی ہے۔
اس ٹرائینگولر یعنی سہ طرفہ معمے نے ہمیں حیران کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتوں نے حکومتی اقدامات کی طرف سے‘ حکومت نے قانون کی طرف سے اور قانون نے عدالتوں کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اب اس کی اصل وجہ کیا ہے‘ ہمیں نہیں معلوم کہ ان تینوں نے ایک دوسرے کی جانب سے بوجہ خوف آنکھیں بند کر رکھی ہیں یا کوئی مجبوری ہے‘ آپس میں گٹھ جوڑ اور حصہ داری کا معاملہ ہے یا بے بسی اور لاچاری درپیش ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ہر فریق نے دوسرے سے آنکھیں پھیر بھی رکھی اور چرا بھی رکھی ہیں۔مثلاً اب یہی دیکھیں کہ پنجاب میں ہر روز پولیس مقابلے ہو رہے ہیں اور ان مقابلوں میں ملزمان یا مجرمان (جو بھی ہیں) ہمیشہ اپنے ساتھیوں کی گولیوں سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ وجۂ موت بھی ایک ہے اور اس وجہ کی مزید وجہ بھی وہی ایک ہے۔ وجہ تو یہ ہے کہ اس ملزم کے ساتھی اسے پولیس سے چھڑوانے کیلئے آئے اور انہوں نے پولیس پر فائر کھول دیا اور ان کی گولیاں‘ جو انہوں نے پولیس پارٹی پر چلائی تھیں‘ مارے محبت کے انہی کے زیرِ حراست ساتھی سے لپٹ گئیں۔ یہ تو وجۂ موت ہو گئی۔ اب اس وجہ کی وجہ بھی وہی ایک ہے کہ پولیس اپنے زیرِ حراست ملزم کو برآمدگی‘ موقعِ واردات کی نشاندہی‘ ساتھیوں کی گرفتاری کیلئے لے کر جا رہی تھی کہ اس کے ساتھیوں نے پولیس کی ریڈ پارٹی پر ریڈ کرتے ہوئے فائرنگ کر دی۔ آگے کی کہانی آپ کو معلوم ہی ہے۔کئی سال سے پولیس وہی ایک کہانی دہرا رہی ہے۔ اس ساری کہانی میں نام اور مقام کے علاوہ ہر چیز وہی برسوں پرانی ہے اور اس میں الفاظ کے ردو بدل کے سوا رتی برابر تبدیلی نہیں آئی۔ یہ وہ کہانی ہے جس پر اب کسی کو رتی برابر یقین نہیں لیکن اس قطعی بے یقینی کے باوجود نہ صرف یہ کہانی چل رہی ہے بلکہ عدالتیں اور عدالتوں کو دیکھنے والے سبھی اس پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
پولیس کے زیر حراست اپنے ساتھی کو چھڑوانے کیلئے آنیوالی حملہ آور پارٹی نے اس دوران کئی سال کے تلخ تجربے کے باوجود اپنا نشانہ ٹھیک کرنے پر ذرا سی بھی توجہ نہیں دی۔ ان ساتھیوں سے بہتر تو جنگل کا وہ شیر تھا جس کا قصہ مرحوم ڈڈو روہتکی نے سنایا تھا کہ ایک روز ایک شکاری بندوق اٹھائے جنگل میں مزے سے جا رہا تھا اور اس نے چلتے چلتے سامنے آنیوالی ایک جھاڑی کو ہٹایا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس سے صرف چند گز کے فاصلے پر ایک شیر بیٹھا آرام کر رہا ہے۔ شکاری نے شیر کو اور شیر نے شکاری کو بیک وقت دیکھا اور اپنے اپنے حساب سے فوری ردعمل دیتے ہوئے شکاری نے اپنی بندوق سیدھی کی اور شیر نے حملے کی پوزیشن لی۔ شکاری کے پاس نشانہ باندھنے کیلئے اور شیر کے پاس اپنی جان بچانے کیلئے زیادہ وقت نہیں تھا۔ ادھر شکاری نے بندوق سیدھی کرتے ہی گولی داغی اور عین اسی لمحے شیر نے شکاری پر جست بھری‘ لیکن دونوں کا وار چوک گیا۔ گولی شیر سے چند انچ ہٹ کر زمین پر جا لگی اور شیر بھی شکاری کے سر سے اوپر سے گزر گیا۔ شیر اپنا حملہ ناکام ہوتا دیکھ کر واپس پلٹنے کے بجائے بگٹٹ بھاگا اور جنگل میں غائب ہو گیا۔ ادھر شکاری نے بھی جان بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس گھر آ گیا۔
جنگل سے گھر آنے کے دوران وہ اپنا نشانہ خطا جانے پر بہت حیران تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ صرف چند گز سے اس کا نشانہ کیسے خطا چلا گیا۔ گھر آکر بھی وہ اسی پریشانی میں مبتلا رہا۔ اسے اپنا نشانہ خطا جانے پر شرمندگی بھی تھی اور حیرانی بھی۔ کافی دیر تک غور کرنے کے بعد اتنے قریب سے اپنا نشانہ خطا جانے کی جو منطقی اور عقلی وجہ سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ اسے دراصل اتنی قریب سے کسی چیز کا نشانہ لگانے کی نہ تو عادت تھی اور نہ ہی اس نے اس قسم کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی قریب سے نشانہ لگانے کی پریکٹس کی تھی۔ اس نے اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کیلئے قریب سے نشانہ لگانے کی پریکٹس کرنے کی ٹھانی اور بندوق اٹھا کر اگلے دن دوبارہ جنگل کو روانہ ہو گیا تاکہ وہ اپنا ہاتھ سیدھا کر سکے۔ شکاری جیسے ہی جنگل میں داخل ہوا اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا کہ کچھ گڑبڑ ہے‘ تاہم اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ چند مزید قدم چل کر وہ درختوں کی ایک گپھا کے قریب پہنچا تو اسے جھاڑیوں کے پیچھے سے کچھ آوازیں آئیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی جانور اچھل کود کر رہا ہے۔ شکاری نے دبے پائوں آگے جا کر جھاڑیوں کی اوٹ سے جھانکا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہی کل والا شیر چھوٹی چھلانگیں لگانے اور قریب سے جست بھرنے کی پریکٹس کر رہا تھا۔ مجھے آج کل ملزمان و مجرمان کے ساتھیوں کی جانب سے اسے چھڑانے کی کوشش کے دوران ہمیشہ اپنے خراب نشانے کے باعث اپنے ہی ساتھی کو نشانہ بنانے کے درجنوں حالیہ واقعات پر خیال آیا کہ اگر ڈڈو روہتکی حیات ہوتا تو اس واقعے کو حالیہ صورتحال سے جوڑتے ہوئے فریقین کو نشانہ درست کرنے کی پریکٹس کا مشورہ ضرور دیتا۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت کو نہ تو قانون پر بھروسہ ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارں کی تفتیش اور عدالتی پیش رفت پر اعتبار ہے‘ نہ عدالتوں پر یقین ہے اور نہ ہی پیش کردہ چالان پر۔ پولیس کی تمام تر نالائقیوں اور عدلیہ کی کسمپرسی کو ان جعلی مقابلوں کی آڑ میں چھپایا جا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ قانون کے سقم دور کیے جائیں‘ عدالتوں کو اوور ہال کیا جائے‘ محکمہ پولیس کی کارکردگی بہتر کی جائے اور سرکاری معاون عدالتی لاء افسران کی تطہیر و تربیت کی جائے اس سب کا حل پولیس مقابلوں میں تلاش کر لیا گیا ہے۔ جواباً عوام نے بھی اپنا متوازی عدالتی نظام اور جزا وسزا کا سلسلہ قائم کر لیا ہے جو اکیسویں صدی میں ختم ہونے کے بجائے روز بروز پھیلتا جا رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ساری ریاست جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے محاورے کی عملی تصویر بن جائے گی۔ اللہ جانے ہمیں اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے کیا کیا دیکھنا پڑے گا؟