ساری ریاستی مشینری اس وقت ایک ریاستی ادارے کے دفاتر‘ اعلیٰ افسروں کے گھروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے میں مصروف ہے۔ ملزمان کو خواہ وہ موقعِ واردات پر موجود تھے یا نہیں تھے‘ عملی طور پر شریک تھے‘ محض اکسانے کے ملزم تھے یا تماشائی تھے‘ سب کے سب انصاف کی چکی میں گندم کے ساتھ گھن کی طرح پس رہے ہیں۔ میں بنیادی طورپر اس سارے عمل میں انتقامی جذبے کے خلاف ہوں لیکن یہ بات طے ہے کہ ریاستی اداروں کے دفاتر‘ ڈیوٹی سر انجام دینے والے ریاستی ا فراد کے گھروں اور تنصیبات پر کسی قسم کی دست اندازی‘ حدود کی خلاف ورزی‘ حملہ کرنے اور نقصان پہنچانے کو نہ صرف ریاست پر حملہ سمجھتا ہوں بلکہ ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنانے کا بھی حامی ہوں۔ تاہم میری خواہش تو صرف اتنی ہے کہ ریاستی اداروں کی فہرست دوبارہ مرتب کی جائے اور ہر ادارے کے دفاتر‘ گھر اور تنصیبات کو وہی تقدس اور اہمیت دی جائے جو نو مئی کے واقعات کے بعد ایک ادارے کو دی گئی ہے۔
میرے خیال میں ہر ریاستی ادارہ ریاست کی عزت‘ تکریم اور حساسیت کا حقدار ہے کہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتا اور اس پر حملہ ریاست پر حملہ بھی ہے اور ریاستی رِٹ کو چیلنج بھی۔ ریاست کا ملازم خواہ محکمہ ڈاک کا ڈاکیا ہو یا ریلوے کا گارڈ‘ وہ ٹریفک وارڈن ہو یا ملکی سرحدوں پر ریاست کا دفاع کرنے والا کوئی سپاہی‘ یہ سب لوگ ریاست کے ملازمین ہیں‘ ریاست کے نظام کو چلانے کیلئے اپنی اپنی جگہ پر اہم کل پرزے ہیں۔ ہر ریاستی ادارہ دراصل ریاست کا نمائندہ اور ہر طرح کی ریاستی حفاظت اور پشت پناہی کا حقدار ہوتا ہے۔ ہر ادارے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس طرح آئین ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں بنیادی حقوق فراہم کرنے کی پابند ہے عین اسی طرح ریاست اپنے تمام اداروں کو ایک جیسی عزت‘ تکریم‘ تقدس اور تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ قانوناً بھی اور اخلاقاً بھی۔
مجھے یہ ساری تمہید اور تفصیل اس لیے بیان کرنا پڑی کہ مورخہ یکم اگست بروز جمعہ کچے کے ڈاکوئوں کے اندھڑ گینگ نے رحیم یار خان کی حدود میں شیخانی پولیس چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پولیس کے پانچ جوان شہید کر دیے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل اس نوعیت کے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں درجنوں پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ اس قسم کا سب سے اندوہناک سانحہ مورخہ 22 اگست 2024ء کو ہوا تھا جس میں رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں ماچکہ کے نزدیک بارش کی وجہ سے کیچڑ میں پھنس جانیوالی پولیس موبائل پر راکٹ لانچروں سے حملہ کر دیا تھا۔ اس سانحہ میں گیارہ پولیس اہلکار شہید اور سات زخمی ہو گئے۔ چار اہلکاروں کو ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے جنہیں بعد ازاں رہائی مل گئی۔ یہ رہائی بھی کسی پولیس آپریشن سے نہیں بلکہ لین دین کے ذریعے عمل میں آئی تھی۔ آج تک ان گیارہ شہدا کے بچے اسی انصاف اور ریاستی کارروائی کے منتظر ہیں جس طرح ریاست خم ٹھونک کر 9مئی کے منصوبہ سازوں‘ عملی طور پر شریک ہونیوالوں‘ ہلہ شیری دینے والوں‘ غیر حاضروں اور بے گناہوں کو‘ یعنی سب کچھ دال دلیا بنا کر ایک ہی رگڑے میں پیس رہی ہے۔ کیا مورخہ 20 جون 2017ء کو زرغون روڈ کوئٹہ کے جی پی او چوک پر ڈیوٹی دینے والا ٹریفک پولیس کا انسپکٹر عطا اللہ دشتی ریاست کا نمائندہ نہ تھا جسے اپنی رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی نے اپنی گاڑی تلے روند کر مار ڈالا اور عدم ثبوت پر بری ہو گیا۔
عجب عدم ثبوت بریت تھی کہ وڈیو موجود ہے‘ گاڑی دکھائی دے رہی‘ عطا اللہ دشتی کو روند رہی ‘ عبدالمجید اچکزئی ڈرائیو کر رہا ہے‘ عطا اللہ دشتی کی جان چلی جاتی ہے۔ ایک طرف عدالت کو وڈیو کی لمحہ بہ لمحہ تصویری گواہی کافی نہیں‘ جبکہ دوسری عدالت غیر حاضر لوگوں کے دلوں کے حال‘ نیتوں کے راز اور چھپے ہوئے ارادے بھی بھانپ لیتی ہیں۔ مملکتیں اس قسم کی عدالتوں سے تادیر قائم نہیں رہ سکتیں جہاں انصاف چنیدہ ہو اور سزائیں قانون کے بجائے انتقامی جذبات کو سامنے رکھ کر دی جائیں۔ حضرت علیؓ سے منسوب قول ہے کہ ریاستیں کفر سے تو قائم رہ سکتی ہیں مگر ناانصافی اور ظلم سے قائم نہیں رہ سکتیں۔مجھے نو مئی کے واقعات میں ملوث اور غیر ملوث افراد کو سزا ملنے پر دکھ یا ملال یہ نہیں کہ ان کو سزائیں کیوں ملیں۔ مجھے دکھ اور ملال تو اس بات کا ہے کہ اور بہت سے ریاستی اداروں کے دفاتر‘ افراد اور تنصیبات دہشت گردوں‘ ڈاکوئوں‘ قاتلوں اور قانون شکنوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ صرف اور صرف کچے میں اب تک بیسیوں پولیس اہلکار جو بلا شک و شبہ ریاست کے نمائندے ہیں‘ شہید ہو چکے ہیں۔ درجنوں بار اغوا ہونیوالے پولیس اہلکار ان ڈاکوئوں کے جیل میں بند ساتھیوں کی رہائی کے عوض چھڑائے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں لوگ تاوان دے کر ان ڈاکوئوں سے رہائی حاصل کر چکے ہیں۔ ان ڈاکوئوں کے ہاتھوں صادق آباد شہر کے بارونق علاقے میں کئی لوگ جاں بحق ہوئے‘ لیکن یہ سب خونِ خاک نشیناں تھا سو رزقِ خاک ہو گیا۔
میں ذاتی طور پر پنجاب میں جاری سی سی ڈی کے ''ہفتۂ صفائی‘‘ کا ناقد ہوں اور اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ کار ریاستوں کے مضبوط ہونے کی نہیں‘ کمزور ہونے کی دلالت کرتا ہے۔ اس قسم کے آپریشن ملک میں رُول آف لاء کی ناکامی کا اعلان کرتے ہیں۔ ریاست عملی طور پر اپنے قانون کی کسمپرسی اور عدالتی نظام کی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے۔ وقتی طور پر نتائج حاصل کرنے کے چکر میں ہم پورے انتظامی اور عدالتی نظام کو ہمیشہ کیلئے خراب کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ تاہم اپنے اس تمام تر اصولی اختلافات کے باوجود اس بات سے وقتی طور پر ہی سہی‘ راضی ہوں کہ ہماری بہادر اور دلیر سی سی ڈی فوری سزا کے اس اصول کا اطلاق کچے کے ڈاکوئوں پر کرے۔ وہاں آپریشن کرے۔ پھر ہم یہ بھی دیکھیں کہ کچے کے ڈاکو اپنے ساتھیوں کو چھڑانے آئیں اور اپنے ہی ساتھی ڈاکوئوں کو خراب نشانے کے باعث مار کر چلے جائیں۔ کچے کھوہ میں کارروائی کرنے والی سی سی ڈی اصلی کچے میں جا کر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ ہمیں بھی پتا چلے کہ پولیس مقابلہ کیا ہوتا ہے اور سی سی ڈی کو بھی آٹے اور دال کا بھائو معلوم ہو۔
معاف کیجئے! میں کہیں کا کہیں چلا گیا۔ میں تو صرف اس ملک میں قانون کی حکمرانی‘ ریاستی اداروں کے تحفظ‘ نظام انصاف کی سربلندی اور عوام و اداروں سے یکساں سلوک کا متمنی ہوں۔ میری خواہش تو صرف اتنی ہے کہ میں اپنی زندگی میں اسے مکمل ہوتا نہ سہی‘ کم از کم بہتری کی طرف رواں ہوتا تو دیکھ سکوں۔ اس تسلی کے ساتھ اپنے اللہ کے ہاں جائوں کہ میرے بعد ہی سہی‘ اس ملک میں قانون کی حکمرانی‘ آئین کی پاسداری‘ انصاف کی تقسیم اور شرفِ انسانی کو اس کا مقام ومرتبہ مل چکا ہے۔
چار پانچ سال پرانی بات ہے میں اور شفیق لاس اینجلس کی ایک ایسی سڑک پر چہل قدمی کر رہے تھے جس کے دونوں طرف بلند و بالا‘ حیرت انگیز حد تک سیدھے اور بالکل ایک قطار میں لگے ہوئے پام کے درخت تھے۔ شفیق نے بتایا کہ یہاں کسی شخص نے ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران محکمہ ڈاک کے کسی اہلکار کو زد وکوب کیا۔ اس پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنے اس ملازم کو ریاست کا حصہ اور اس پر ہونے والے حملے کو ریاست پر حملہ سمجھ کر کھڑی ہو گئی۔ نہ کوئی صلح ہوئی‘ نہ گواہ منحرف ہوئے‘ نہ ہی ریاست نے سیاسی مصلحتوں کو درخور اعتنا سمجھا اور خم ٹھوک کر اپنے نمائندے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ ملزم کو سزا ہوئی اور ریاست سرخرو ہو گئی (مجھے اس پر شکاگو کے ڈان ال کپون کا قصہ یاد آ گیا جو کبھی پھر سہی) شفیق کہنے لگا: ریاستیں اس طرح اپنی رِٹ اور عزت بحال رکھتی ہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ریاست کی رِٹ بحال ہو۔ ہم اپنی زندگی میں اس ملک کو بہتری طرف رواں ہوتے دیکھ سکیں۔ کیا یہ خواہش غلط ہے؟