"KMK" (space) message & send to 7575

حکومت درست ترجیحات کا تعین کب کرے گی؟

ملک ایک بار پھر تباہ کن سیلاب سے دوچار ہے۔ یہ سانحہ ہر دو‘ چار سال بعد ایک ایسی افتاد کی طرح ہمارے سر پر ٹوٹتا ہے کہ لگتا ہے ہم پہلی بار اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر بار وہی وجوہات ہیں اور وہی نالائقی اور نااہلی ہے۔ وہی پرانے عوامل ہیں اور وہی پرانے بہانے۔
2010ء کے سیلاب میں دریائے سندھ نے بائیں کنارے سے نکل کر ایسی تباہی مچائی کہ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی تھی۔ اس سیلاب میں پہلی بار دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے نکلنے والے پانی نے اس سارے علاقے میں تباہی پھیلائی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر سیلاب کی صورت میں پانی دائیں کنارے سے نکلتا تھا اور فصلوں وغیرہ کا نقصان کر کے دوبارہ دریائے سندھ میں چلا جاتا تھا لیکن ہم نے دائیں کنارے پر موجود اس کی قدرتی گزرگاہ کو اپنی نالائقیوں‘ نااہلیوں‘ بے ایمانیوں اور بدنیتی کی بنا پر ناقابلِ عمل گزرگاہ میں تبدیل کر دیا۔ جب ہم نے اس کا صدیوں سے بنا ہوا قدرتی راستہ بند کر دیا تو پانی نے اپنے زور پر نیا راستہ بنا لیا اور اس نئے راستے میں جو بھی رکاوٹ تھی وہ اس نے از خود صاف کر دی۔ جب ریاست دریا کی گزرگاہ میں قائم تجاوزات سے صرفِ نظر کرتی ہے اور ان رکاوٹوں کو قائم ہونے سے نہیں روکتی تو دریا اپنے راستے میں قائم کی جانے والی ساری ناجائز تجاوزات اپنے زور پر ملیامیٹ کر دیتا ہے۔ پھر ہم اس سیلاب کو قدرت کا عذاب قرار دے کر اپنی جان چھڑوا لیتے ہیں۔ کوئی پوچھے آخر قدرت کا یہ عذاب صرف ہمارا ہی مقدر کیوں ہے؟ لندن شہر کے عین درمیان میں سے گزرنے والا دریائے تھیمز لندن کو ہر چوتھے سال برباد کیوں نہیں کرتا؟ اب سیلاب آیا ہے تو مجھے 2010ء کا سیلاب یاد آ گیا۔ حالانکہ بات پندرہ سال پرانی ہے مگر آج کی صورتحال میں دوبارہ یاد آ گئی کہ حالات وواقعات بھی وہی پرانے ہیں اور تباہی کی داستان کے عوامل بھی وہی ہیں۔
2010ء میں تونسہ بیراج پر دریائے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ انہی دنوں میں تونسہ بیراج کی ری ماڈلنگ کا کام بمشکل مکمل ہوا تھا۔ تونسہ بیراج کے کل 65 دروازے ہیں اور ان دروازوں کی ری ماڈلنگ‘ صفائی اور مرمت کا کام تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ چلتے دریا میں تعمیراتی یا مرمتی کام کیلئے پانی کے بہائو کو روکنے کے Coffer-dam بنائے جاتے ہیں۔ مٹی یا ریت سے بھری ہوئی بوریوں کے ذریعے مصنوعی بند بنا کر دریا کے پانی کا رخ تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس خاص جگہ کو خشک کر کے کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ ان 65 دروازوں کی مرمت اور ری ماڈلنگ کے ٹھیکے بارے اب مجھے پوری صحت سے یاد نہیں کہ یہ پورا ٹھیکہ کسی چینی کمپنی کو دیا گیا تھا اور اس نے آگے کسی مقامی کمپنی کو Sublet کر دیا تھا یا دو علیحدہ علیحدہ کمپنیوں کو دیا گیا تھا (پندرہ سال بعد مجھے یہ سارا معاملہ پوری جزئیات کے ساتھ یاد نہیں جبکہ اس زمانے میں لکھے گئے کالموں کا ریکارڈ بھی بدقسمتی سے میرے پاس موجود نہیں) تاہم یہ ضرور یاد ہے کہ ان 65 دروازوں کو دو کمپنیوں نے ٹھیک کرنا تھا۔ ایک کے پاس بتیس اور دوسری کمپنی کے پاس تینتیس دروازوں کی صفائی‘ ری ماڈلنگ اور مرمت کی ذمہ داری تھی۔ چینی کمپنی نے اپنا کام مکمل کرکے اپنا بنایا گیا کوفر ڈیم کا سامان وہاں سے ہٹا دیا اور پانی اپنے اصل بہائو میں بہنا شروع ہو گیا جبکہ دوسری طرف مقامی کمپنی نے کام تو تقریباً ختم کر لیا مگر اپنے بنائے ہوئے کوفر ڈیم کو ہٹانے یا ختم کرنے کے بجائے یہ کام دریا کے سپرد کر دیا کہ پانی خود ہی اس رکاوٹ کو بہا کر لے جائے گا اور وہ مزید کسی مشقت اور محنت سے بچ جائے گی۔
قارئین! میں یہ کالم پندرہ سال پرانی یادداشت کے زور پر لکھ رہا ہوں اور اس میں اگر انیس بیس کی اونچ نیچ یا کچھ سہو ہو جائے تو اس کیلئے پیشگی معذرت۔ دریائے سندھ میں سیلاب کی صورت میں اس کا بریچ ایریا ہمیشہ سے اس کے دائیں کنارے پر ہوتا ہے اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تاریخی طور پر سیلابی پانی کے گزرنے کیلئے اس کنارے پر پانی گزرنے کی باقاعدہ جگہ چھوڑی گئی تھی۔ میں بچپن میں جب کبھی ڈیرہ غازی خان جانا ہوتا تو اس کیلئے اکلوتا راستہ تونسہ بیراج سے ہو کر جاتا تھا۔ غازی گھاٹ کا پُل تو بہت بعد میں تعمیر ہوا تھا۔ اس سے قبل ملتان سے مظفر گڑھ‘ کوٹ ادو سے ہوتے ہوئے براستہ تونسہ بیراج ڈیرہ غازی خان جاتے تھے۔ مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس راستے سے جاتے ہوئے تونسہ بیراج کا پل پار کرتے ہی سڑک اور ساتھ گزرنے والی ریلوے لائن کے نیچے سے پانی گزرنے کا راستہ تھا اور اس جگہ پر سڑک اور ریلوے لائن کے نیچے باقاعدہ پُل بنا ہوا تھا۔ تاہم جب دریا کے دائیں کنارے پر ڈی جی خان کینال بنی تو اس کے نیچے سے پانی گزرنے کا راستہ نہ بنایا گیا۔ اس سے عملی طور پر نہ صرف یہ کہ قدیمی راستہ بند ہو گیا بلکہ نہر کے اونچے کناروں کی صورت میں راستے میں ایک باقاعدہ بند تعمیر ہو گیا۔
2010ء میں ایک طرف دریا خود بڑی تباہ کن سیلابی صورتحال سے دوچار تھا‘ اوپر سے تونسہ کی جانب سے آنے والے پہاڑی نالے ''سنگھڑ‘‘ میں تاریخی ریکارڈ تقریباً تین لاکھ کیوسک پانی آیا جو دریا کے دائیں طرف سے آتا ہے۔ ایک تو نہ صرف دریا میں خود اونچے درجے کا سیلاب تھا بلکہ سنگھڑ سے پانی کا شدید ریلا بھی آ رہا تھا۔ اوپر سے دریا کے اندر دائیں طرف کھڑا ہوا کوفر ڈیم کا سٹرکچر بھی دریا کے بہائو میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔ مزید یہ کہ دائیں کنارے پر زور آور ٹھیکیدار نے سولہ مربع اراضی پر گنا کاشت کر رکھا تھا اور اس کی بربادی بھی کسی صورت منظور نہ تھی۔ پانی چڑھتا رہا اور متعلقہ محکمہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرتا رہا۔ حفاظتی بند کو توڑ کر پانی کا دبائو کم کرنے میں تاخیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانی کا سارا زور بائیں کنارے کے بند پر پڑا اور بالآخر وہ ٹوٹ گیا۔
دریائے سندھ کا احسان پور پر واقع عباس والا بند ٹوٹ گیا۔ بے قابو پانی کے ریلے نے باقی سب رکاوٹیں خس وخاشاک کی طرح اڑا ڈالیں۔ اس خوفناک ریلے نے پہلے تو تونسہ پنجند لنک (ٹی پی) کینال کو توڑا۔ اس کے بعد پانی مظفر گڑھ کینال کو توڑ کر کوٹ ادو‘ سناواں‘ قصبہ گورمانی‘ گجرات‘ محمود کوٹ‘ بصیرہ اور خان گڑھ سے ہوتا ہوا روہیلا نوالی کے قریب دریائے چناب میں چلا گیا۔ ایسا نہ کبھی سنا اور نہ ہی کبھی دیکھا تھا کہ دریائے سندھ کاپانی ان علاقوں کو تاراج کرتے ہوئی دریائے چناب میں چلا جائے۔
ہم اپنے بچپن سے ہر چند سال بعد سیلاب کا سنتے اور اسے دیکھتے آئے ہیں۔ وہی پرانے عوامل ہیں اور وہی پرانا رویہ ہے۔ دریائوں میں پانی کی زیادہ آمد‘ شدید بارشیں اور بھارت کا پانی چھوڑنا! یہ سب اب روٹین کے عوامل ہیں اور ان کو ختم کرنا تو ممکن نہیں لیکن ان کا بندوبست کرنا بہرحال ہمارا ہی کام ہے اور ہم اس میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ اس بار وہی اعلانات اور وہی دعوے‘ ہر بار وہی امداد کی اپیلیں اور عالمی ڈونرز سے خیرات کی درخواست۔ گزشتہ 78برسوں سے ہم وہیں کھڑے ہیں اور خدا نہ کرے میرے گمان سچ ثابت ہوں‘ لگتا تو یہی ہے کہ آئندہ سیلاب پر (خدا کرے یہ بات بھی جھوٹ ہو) پھر یہی کچھ ہوگا۔ اللہ جانے ہم اپنی ترجیحات کب قائم کریں گے اور درست منصوبہ بندی کی طرف قدم کب بڑھائیں گے؟ ہمیں تو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ سڑک پہلے بنانی ہے یا سیوریج کی کھدائی پہلے کرنی ہے۔ دریائی راستوں کا تعین‘ ان پر ہونے والی تجاوزات کا خاتمہ اور ہاؤسنگ سکیموں کی منظوری پر قانون سازی تو بہت دور کی بات ہے یہ تو سرکار کی ترجیحات میں دور دور تک نہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ کہ اگر حکومت نے قانون سازی بھی نہیں کرنی تو کیا وہ ہومیوپیتھک میڈیسن بنانے کی ذمہ داری پر فائز ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں