جب میں حکومتوں کی نااہلی کا قصہ لکھتا ہوں تو میں کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر لکھتا ہوں اور ایمانداری کی بات ہے کہ اس ملک کی بربادی میں سب حکمرانوں کا حصہ ہے۔ کسی کا کم اور کسی کا زیادہ‘ اور یہ زیادہ یا کم بھی کارکردگی کی بنا پر نہیں‘ عرصۂ حکمرانی پر منحصر ہے۔ اس میں نہ کوئی تخصیص ہے اور نہ کوئی خاص پارٹی یا شخص نشانہ ہے۔ ہاں! البتہ موجودہ حکمرانوں کے بعض چمچے اس کو دل پر لے لیتے ہیں اور چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق میری تحریروں کو موجودہ حکمرانوں پر منطبق کرتے ہوئے چیخ وپکار شروع کر دیتے ہیں۔ میرا مؤقف تو صرف اتنا ہے کہ دو غلطیاں مل کر بھی ایک درست جواب نہیں بنتا‘ تاہم میں اس سے لطف لیتا ہوں۔ ان کے چیں بہ جبیں ہونے پر مجھے ایک گھسا پٹا لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔
روس میں کوئی شخص صدرِ مملکت کے خلاف تقریر کر رہا تھا تاہم وہ اپنی تقریر میں نہ تو صدر کا نام لے رہا تھا اور نہ ہی یہ واضح کر رہا تھا کہ یہ کس ملک کا صدر ہے مگر بین السطور سب جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کے بارے میں کہہ رہا۔ اگلے روز کے جی بی نے اس بندے کو پکڑا اور حراستی مراکز میں لے آئے۔ اس نے افسر سے بھولپن سے اپنا جرم پوچھا تو افسر نے بتایا کہ تم نے صدرِ مملکت کو چور‘ نالائق‘ ظالم‘ بدعنوان اور آمر کہا ہے جو ملکی قانون کے تحت قابلِ سزا جرم ہے‘ تمہیں اسی جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا: مگر اس نے تو اپنی تقریر میں یہ سب کچھ فرانس کے صدر کے بارے میں کہا ہے۔ کے جی بی کے افسر نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر چانٹا مارا اور کہنے لگا: تم ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ کون سے ملک کا صدر چور‘ نالائق‘ بدعنوان اور آمر ہے۔ اس پھٹے پرانے لطیفے سے مجھے موجودہ حکمرانوں کے ممدوحین یاد آ جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی خود ہی میری تحریر کا سارا ملبہ اپنے محبوب لیڈر پر ڈال دے تو بھلا یہ عاجز کیا کر سکتا ہے۔ میں تو صرف حقائق لکھ رہا ہوتا ہوں۔
یہ 2014ء کا ذکر ہے۔ ملتان سے لیہ‘ تونسہ‘ میانوالی‘ بھکر‘ خوشاب اور ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ جانے کیلئے ہیڈ محمد والا کے پُل والا راستہ‘ جو مظفر گڑھ والے قدیمی راستے سے کم از کم پچاس کلومیٹر کم ہے‘ استعمال ہوتا ہے۔ یہ پل سید یوسف رضا گیلانی نے تعمیر کروایا۔ اس سے پہلے اس پتن پر سردیوں میں کشتیوں والا پل تعمیر ہوتا تھا جو گرمیوں میں زیادہ پانی آنے سے پہلے توڑ دیا جاتا تھا۔ اس جگہ سے دریا قدیمی طور پر دو حصوں میں ہو کر گزرتا ہے۔ ایک بڑا پاٹ ہے جس پر اب پل بنا دیا گیا ہے جبکہ چھوٹے بہائو والے حصے پر مٹی ڈال کر اونچا کرکے اس پر سڑک بنا دی گئی ہے۔ آج بھی گرمیوں میں اس سڑک سے گزریں تو ملتان سے ہیڈ محمد والا جاتے ہوئے آپ کے دائیں طرف پانی اس اونچی سڑک سے آ ٹکراتا ہے۔ یہ دریا کی گزرگاہ تو تھی تاہم یہ دریا کا دائمی راستہ نہ تھا۔ گرمیوں میں دریا کا سارا پاٹ آپس میں مل جاتا تھا۔ پانی کم ہو تو دریا دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ ایک پانی کی مرکزی گزرگاہ جو ایک کلومیٹر سے زیادہ چوڑی ہوتی تھی اور دوسرا یہ حصہ‘ جو مقامی زبان میں دریا کی ''پھاٹ‘‘ کہلاتا ہے‘ تقریباً دو تین سو میٹر چوڑا ہوتا تھا۔ تاہم سردیوں میں اس پھاٹ میں پانی ختم ہو جاتا تھا اور دریا کا مرکزی دھارا بھی سکڑ جاتا تھا اور اس پر کشتیوں کا پل بنا دیا جاتا تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے یہ اچھا کام کیا کہ اس پتن پر پل بنوا دیا تاہم منصوبہ سازوں نے پل بناتے وقت دریا کی مرکزی گزرگاہ کو تو پیش نظر رکھا مگر اس دریائی پھاٹ کو پل کا ڈیزائن بناتے ہوئے بالکل نظر انداز کر دیا۔
2014ء میں سیلاب کا پانی پل کی گنجائش سے زیادہ ہو گیا اور پل کے بہہ جانے یا ملتان شہر میں پانی داخل ہو جانے کے خدشے کے پیشِ نظر اس دریائی پھاٹ والی جگہ پر موجود سڑک کو ڈائنا مائٹ سے اڑا دیا گیا۔ پل سے تین‘ چار سو میٹر پہلے دریا کے پانی کے راستے میں حائل یہ رکاوٹ ہٹا دی گئی تو پانی اپنی پرانی گزرگاہ سے ہوتا‘ راستے میں آنے والے کھیتوں‘ باغوں اور گھروں کو روندتا ہوا شیر شاہ کے قریب جا کر دوبارہ دریا میں شامل ہو گیا۔ یہ پانی کا صدیوں پرانا راستہ تھا اور دریا کو یہ راستہ اچھی طرح یاد تھا۔ حکومت کی نالائقی کا اندازہ لگائیں (ممدوحین شریفین کیلئے بری خبر یہ ہے کہ تب پنجاب پر میاں شہباز شریف کی حکومت تھی) کہ یہ شگاف جو صرف سو ڈیڑھ سو میٹر چوڑا تھا‘ سیلاب ختم ہونے اور پانی اتر جانے کے چھ سات ماہ بعد تک بھی مرمت نہ کیا گیا اور یہ اہم سڑک‘ جو ملتان سے پنجاب کے کئی شہروں کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کیلئے بڑا اہم اور مختصر راستہ تھی‘ بند رہی۔
انہی دنوں میں کسی کام سے کراچی جانے کیلئے ملتان ایئرپورٹ پر پہنچا تو وہاں بڑی سخت سکیورٹی تھی اور اندر آنے جانے کیلئے بڑی پوچھ گچھ ہو رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ میاں شہباز شریف آئے ہوئے ہیں اور ان کا جہاز بھی تھوڑی دیر بعد روانہ ہونے والا ہے۔ میرے پاس ٹکٹ تھی لہٰذا میں اندر آ کر لائونج میں بیٹھ گیا۔ ملتان ایئرپورٹ پر وی آئی پی اور فرسٹ کلاس لائونج ایک ہی ہے تاہم وی وی آئی پی شخصیات کیلئے اس لائونج کے ساتھ متصل ایک اور کمرہ ہے۔ میاں شہباز شریف اسی کمرے میں تھے۔ میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اچانک ہمارے دوست اور نہایت ہی عمدہ شاعر شعیب بن عزیز اس لائونج میں آ گئے۔ وہ تب میاں شہباز شریف کے سپیچ رائٹر اور میڈیا انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو میرے پاس آئے اور سلام دعا کے بعد کہنے لگے: میاں صاحب ساتھ والے کمرے میں بیٹھے ہیں‘ آپ ان سے ملیں گے؟ میں نے کہا: ضرور ملیں گے‘ بلکہ ان کو ایک بات بھی کہنی تھی اچھا ہوا کہ یہیں ملاقات ہو جائے گی۔
اندر کمرے میں میاں شہباز شریف کے ساتھ تب کے سیکرٹری آبپاشی سیف انجم بھی موجود تھے۔ میں نے کہا: میاں صاحب! میں نے آپ سے جو بات کہنی تھی وہ انہی صاحب کے محکمے سے متعلق ہے اور خوش قسمتی سے یہ بھی موجود ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہیڈ محمد والا پر جس جگہ سڑک کو اڑا کر پانی کیلئے راستہ بنایا گیا‘ وہ کئی ماہ سے سڑک کی بندش کا باعث بن چکا ہے۔ یہ جگہ آبپاشی والوں کے نقشے میں باقاعدہ اور طے شدہ بریچ ایریا ہے۔ اس جگہ پر سڑک میں ڈائنامائٹ لگانے کیلئے مستقل طور پر سے سوراخ رکھے ہوئے ہیں جنہیں اوپر سے بند کیا گیا ہے اور وقت پڑنے پر یہاں ڈائنا مائٹ لگائے جاتے ہیں۔ یہ دریا کا قدیمی راستہ ہے اور پانی زیادہ ہونے کی صورت میں پانی کا سارا دبائو اور بہائو اسی راستے پر مرتکز ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ اس جگہ پر دوبارہ سڑک بنانے اور سیلابی صورتحال میں دوبارہ ڈائنا مائٹ سے اڑا کر پانی گزارنے کا راستہ بنانے کے بجائے اس جگہ ایک ایسا پل بنا دیا جائے جس کے نیچے سے پانی گزرنے کی جگہ ہو۔ دس بارہ دروں پر مشتمل یہ پل سیلاب کی صورت میں زائد پانی کے گزرنے میں استعمال ہوگا اور ہر بار پل اور شہر کو بچانے کیلئے یہاں سے سڑک نہیں اڑانی پڑے گی۔ میاں شہباز شریف نے اپنے سیکرٹری آبپاشی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ جی سیف صاحب! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ سیکرٹری آبپاشی نے کہا کہ ان کی بات میں وزن بھی ہے اور منطقی طور پر درست دکھائی دیتی ہے تاہم اس کا تفصیلی طور پر تکنیکی جائزہ لینا ہو گا۔
آج اس بات کو گیارہ سال گزر چکے ہیں۔ دو دن پہلے اس جگہ پر ڈائنا مائٹ لگائے جا چکے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ پانی اس سطح پر پہنچے کہ اس حصے کو دوبارہ اڑانا پڑ جائے مگر ہم آج 2025ء میں بھی عین اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں 2014ء میں تھے۔ گیارہ سال میں کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ ہم کسی چیز کا مستقل حل شاید اس لیے نہیں نکالتے کہ اگر کوئی مسئلہ مستقل طور پر حل ہو گیا تو ٹھیکیدار ہر سال مال کیسے بنائیں گے؟