"KMK" (space) message & send to 7575

دریاؤں کو اپنے راستے خوب یاد ہیں

اس سال آنے والے سیلاب میں ایک نیا عنصر‘ شدید بارشیں بصورت کلاؤڈ برسٹ بھی شامل ہوا ہے۔ تاہم دریاؤں میں آنے والے پانی کی زیادتی میں ایک بات کثرت سے دہرائی جا رہی ہے اور وہ ہے ''بھارتی آبی جارحیت‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو برے ہمسائے کے شر سے محفوظ رکھے‘ ہم بھی دنیا کی نہایت ہی بُری ہمسائیگی سے دوچار ہیں۔ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بھارت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی پشت پناہی‘ مالی مدد اور معاونت کر رہا ہے۔ بھارت سے پاکستانی دریاؤں میں آنے والا سیلابی پانی ہمارے لیے یقینا مصائب کا باعث بن رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ واقعی بھارتی آبی دہشت گردی ہے یا ہم اپنی نالائقیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کا ملبہ بھارت پر ڈال رہے ہیں؟
ہمارے دریاؤں میں گلیشیرز پگھلنے‘ شدید بارشوں سے آنے والے پانی اور پہاڑی ندی نالوں کے بہاؤ میں تیزی سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال میں بھارت کی جانب سے آنے والے دریاؤں کے سیلابی ریلوں نے صورتحال کو خراب تر کرتے ہوئے تباہی کو دو چند کر دیا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت نے ایسا کیا کام کیا ہے جو آبی جارحیت کے زمرے میں آتا ہے؟ ہمیں اس سیلاب میں بھارت کی جانب سے دو معاملات پر تحفظات ہیں۔ پہلا یہ کہ بھارت نے ہماری طرف پانی چھوڑ دیا ہے اور دوسرا یہ کہ بھارت نے ہمیں پانی چھوڑنے کی اطلاع بذریعہ انڈس واٹر کمشنر بروقت فراہم نہیں کی۔
سب سے پہلے ہم بھارت سے آنے والے پانی کا ذکر کرتے ہیں۔ بھارت خود سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس کے کئی ڈیم اور بیراج تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ وہاں بھی درجنوں بند ٹوٹ چکے یا توڑے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں گاؤں اور ہزاروں ایکڑ اراضی پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بھارتی دریاؤں میں شدید طغیانی ہے اور پانی ان دریاؤں کی گنجائش سے زیادہ ہو چکا ہے تو ایسے میں وہ پانی کہاں جائے گا؟ ہمارے ہاں جب سیلاب آتا ہے اور دریاؤں میں پانی ان کی گنجائش سے زیادہ اور بیراجوں پر پانی کا دباؤ ان کی استعداد سے زیادہ ہو جاتا ہے تو ہم اپنے ملک میں بھی شہروں‘ پلوں اور بیراجوں کو بچانے کیلئے دریاؤں کے کنارے بنائے گئے حفاظتی بند از خود اڑا دیتے ہیں۔ اس سے گاؤں‘ دیہات‘ قصبے‘ باغات‘ کھیت اور مال مویشیوں کے ساتھ لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ جاں بحق ہوتے ہیں اربوں روپے کی تعمیرات‘ فصلات اور لائیو سٹاک پانی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ملکی معیشت کو ایسا جھٹکا لگتا ہے کہ اس سے سنبھلنے میں کئی سال درکار ہوتے ہیں‘ اسی اثنا میں سیلاب کا اگلا سپیل آ جاتا ہے۔ آخر ہم اس پانی کو کنٹرول کیوں نہیں کرتے؟ بندوں کو کیوں توڑتے ہیں؟ پانی کو دریاؤں کے کنارے سے نکلنے سے روکتے کیوں نہیں؟ یہ اس لیے ممکن نہیں کہ آنے والا پانی ہمارے قابو سے باہر کی چیز ہوتا ہے اور اتنی مقدار میں ہوتا ہے کہ اسے روکنا‘ اس کو کنٹرول کرنا اور اسے آگے نہ جانے دینا ہمارے بس سے باہر کی چیز ہے۔ ہم اگر اپنے دریاؤں میں آنے والے سیلاب کا پانی کنٹرول نہیں کر سکتے‘ اپنے لوگوں‘ گھروں‘ زمینوں‘ کھیتوں اور جانوروں کو اس پانی سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کر سکتے تو ہم یہ توقع بھارت سے کیوں کرتے ہیں؟
میں خدانخواستہ بھارت کی حمایت نہیں کر رہا‘ بلکہ اپنی نالائقیوں سے متعلق حقائق بیان کر رہا ہوں۔ اگر ہم اپنے دریاؤں کے پانی پر قابو پاتے ہوئے اس سے ہونے والی تباہی کو کم نہیں کر سکتے تو بھارت سے یہ امید رکھنا عبث ہے۔ جو چیز بھارت کے اپنے کنٹرول میں نہیں تو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسے ہمارے لیے کنٹرول کر لے گا از حد درجہ کی حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پانی نے ڈھلوان کی طرف بہنا ہے اور بدقسمتی سے ہم ڈھلوان میں واقع ہوئے ہیں۔
اب رہ گئی بات کہ بھارت نے انڈس واٹر کمیشن کے ذریعے ہمیں بروقت اپنے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کی اطلاع نہیں دی تو یہ بھارت کی نہیں‘ سراسر ہماری نالائقی اور حماقت ہے کہ ہم بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی کے بعد اس سے بھلائی اور نیکی کی توقع کیے بیٹھے ہیں۔ گھٹیا دشمن پر بھروسہ کرنا اور اس سے اچھائی کی امید رکھنا سراسر حماقت اور وقوفی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر بھارت نے ہمیں بروقت آگاہ نہیں کیا تو سیلاب کوئی ایسی چیز نہیں تھی کہ کسی کو اس کا علم نہ تھا۔ گوگل اور سیٹلائٹ کے ذریعے بھارتی سیلاب کو مانیٹر کرتے ہوئے بھارت سے آنے والے پانی کی مقدار اور وقت کا تعین کرنا راکٹ سائنس نہیں ہے۔ دراصل ہمارے محکمہ موسمیات کے سربراہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا موسمیات‘ ارضیات اور فلکیات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور پھر ہم ساری نالائقیاں بھارت کے سر تھوپ کر اپنی ان نالائقیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جو گزشتہ 78سال سے جاری ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم مصیبت اور تباہی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے اس کا سارا ملبہ کسی اور کے سر پہ ڈالتے ہیں اور تباہی کے بعد عالمی سطح پر کشکول اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔ ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم نے اس تباہی کو مستقبل میں روکنے کیلئے کیا اقدامات کرنے ہیں۔ آخر ہمیں ڈیم بنانے اور پانی کو کسی حد تک کنٹرول کرنے سے کس نے روکا ہے ؟
ہمارے دریاؤں کے ارد گرد‘ ان کے پانی کی زد میں آنے والا علاقہ‘ جسے آپ کچا کہہ لیں‘ دریائی علاقہ کہہ لیں یا بھلے سے بیٹ کہہ لیں‘ یہ دراصل دریا کے پانی کی وہ حد ہے جہاں وہ انتہائی سیلاب کے باعث پہنچ سکتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ علاقہ رہائشی اور آباد کاری کیلئے نہیں بلکہ صرف جزوی کاشتکاری کیلئے ہوتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہاں کاشتکاری کرنے والوں نے جھونپڑوں کو کچے کوٹھوں میں اور پھر پکے مکانوں میں تبدیل کر لیا۔ جو علاقے صرف دریا کے پانی سے سیراب کیے جاتے تھے وہاں سرکار نے نہریں منظور کر دیں۔ سیاستدانوں نے ووٹوں کے لالچ میں وہاں پکی سڑکیں بنوا دیں اور بجلی کے کھمبے نصب کروا دیے‘ اس ساری تعمیر و ترقی کو دیکھتے ہوئے بلڈرز‘ پراپرٹی مافیا اور ہاؤسنگ سکیموں والے بھی بازو چڑھا کر میدان میں کود پڑے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
ہماری یادداشت کمزور اور ارادے کمزور تر ہیں۔ دریاؤں‘ ندی نالوں اور پانی کی گزر گاہوں میں تجاوزات پر بڑی باتیں ہو رہی ہیں مگر یہ صرف چند ماہ کی بات ہے پھر سب کچھ وہی ہو گا جس کے باعث یہ ساری تباہی آ رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دریاؤں کی گزر گاہوں کا از سر نو تعین کرتے ہوئے اس کے طے شدہ راستے میں آباد کاری‘ تعمیرات‘ پختہ سڑکیں‘ بجلی اور کالونیوں پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ خلاف ورزی کرنے والے کو کسی صورت نہ بخشا جائے۔ تعمیرات کو اول تو ہونے سے پہلے روکا جائے بصورت دیگر بلا معاوضہ گرا دیا جائے۔ پہلے سے بنی ہوئی پرائیویٹ تعمیرات کو معاوضہ کے عوض اور سرکاری تعمیرات کو بلا معاوضہ ختم کر دیا جائے۔ خلاف ورزی کرنے والا مستوجب سزا ہو اور سزائیں دی بھی جائیں۔ تمام سیاسی‘ ادارہ جاتی اور شخصی دباؤ کو نہ صرف مسترد کیا جائے بلکہ جرم قرار دیا جائے۔ دریائی راستے میں رکاوٹیں صاف کی جائیں۔ دریاؤں کے ساتھ بیراجوں کی صفائی اور مرمت کی جائے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ سکھر بیراج کے درجن بھر سے زائد دروازے ناقابلِ استعمال حد تک ریت میں دبے ہوئے ہیں۔ یہی حال دیگر بیراجوں کا ہے۔ جس دریائی زمین کو ہم قبضہ گیروں سے نہیں چھڑوا سکتے دریا خود اسے چھڑوا لیتا ہے۔ دریاؤں کا راستہ صاف کیا جائے وگرنہ وہ اپنا راستہ خود صاف کر لیں گے۔ ہماری یادداشت بھلے سے کمزور ہو مگر دریاؤں کی یادداشت شاندار ہے اور انہیں اپنے راستے خوب یاد ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں