اللہ کی امان کے طفیل شہروں اور گھروں میں محفوظ و مامون لوگ یہ اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مخلوقِ خدا کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ لاتعلق انسان کی تو بات چھوڑیں‘ حساس سے حساس اور درد مند شخص بھی اس مشکل کا شاید ادراک بھی نہیں کر سکتا جس سے متاثرینِ سیلاب ان دنوں گزر رہے ہیں۔ اس وقت باہر بارش ہو رہی ہے اور اپنے گھر کے آرام دہ کمرے میں سکون سے بیٹھے ہوئے مجھے یہ مسئلہ ہی بہت پریشان کن لگ رہا ہے کہ بارش کے شروع ہوتے ہی بجلی چلی گئی ہے۔
دوسری جانب خیموں میں پناہ گزین سیلاب زدگان کو آسمان سے برستی پانی کی بوچھاڑ سے یہ خوف لاحق ہے کہ جس جگہ ان کے خیمے لگے ہوئے ہیں کہیں وہ جگہ بھی پانی کے نیچے نہ آ جائے۔ جن کے سر پر خیمہ تک نہیں ہے ان کی مصیبت کا اندازہ لگانا تو ممکن ہی نہیں کہ سہولت میں مصیبت کا اندازہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے صحتمند آدمی بیماری کا تصور کرے اور امیر شخص خیالی غربت سے گزرے۔ نیچے پانی ہے اور اوپر سے بھی پانی برس رہا ہے۔ نہ سر پر چھت ہے اور نہ پاؤں کے نیچے زمین ہی ہے۔
ظاہر ہے سیلاب اور بارش نہ تو انسانی کنٹرول میں ہیں اور نہ ہی ان کا انتظام حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کو روکنا تو شاید کسی کے بس میں نہ ہو کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کے پاس بھی اس قدرتی آفت کا کوئی حل نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ وہ ان سے ہونے والے نقصانات اور تباہ کاری کو بہتر منصوبہ بندی سے بہت حد تک کم کر لیتے ہیں۔ حکومتوں کا یہی کام ہوتا ہے اور ہمارے ہاں حکومتیں اپنے اس فرض کو سرانجام دینے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔ آج ہونے والے نقصانات یقینا 2024ء کے انتخابات اور بعد ازاں فارم 47کے طفیل سریر آرائے سلطنت ہونے والے حکمرانوں کی نالائقی کا نتیجہ نہیں ہیں کہ درپیش مسائل ایک دو سال کے نہیں بلکہ عشروں پرانے ہیں اور ان کی بنیادیں بہت گہری ہیں۔
پوائنٹ سکورنگ کی بات الگ ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کی اخلاقی اور قانونی حیثیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اور فارم47 سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس سیلاب کے دوران ممکنہ حد تک کوششوں کی بات کی جائے تو صورتحال کسی حد تک اطمینان بخش ہے لیکن یہ اطمینان صرف کوششوں کی حد تک ہی ہے۔ نتائج اتنے حوصلہ افزا ہرگز نہیں ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا سیلاب سے بچاؤ کا انفراسٹرکچر‘ ہمارے بیراج‘ حفاظتی بند‘ دریائی گزر گاہیں اور آفات سے بچاؤ پر مامور محکموں کی صلاحیت ہی اس قابل نہیں کہ وہ اس صورتحال میں کوئی قابلِ فخر کارکردگی دکھا سکیں۔
ضلع ملتان کی تحصیل جلالپور پیروالا میں صورتحال یہ ہے کہ چناب کا حفاظتی بند ٹوٹ چکا ہے اور پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوششیں اور شہریوں کے انخلا کا عمل بیک وقت جاری ہے۔ لوگ گزشتہ دو راتوں سے جاگ رہے ہیں اور ممکنہ حد تک محفوظ علاقوں کی طرف جا رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی باک نہیں کہ اس سلسلے میں محدود وقت اور محدود تر وسائل کے باوجود ضلعی انتظامیہ ممکنہ حد تک اس صورتحال میں انسانی جانوں اور املاک کو بچانے کیلئے پوری طرح مصروفِ عمل ہے لیکن مزید برسنے والے بادل ان کاوشوں کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم جیسے محفوظ و مامون لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اس بارش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ہر تیسرے سال دریاؤں کا پانی ہمیں یہ چتاؤنی دیتا ہے کہ کچھ کر لیں وگرنہ میں خود اس سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھا لوں گا اور وہ ایسا کرتا بھی ہے مگر ہم اتنے ڈھیٹ اور موٹی کھال کے حامل ہیں کہ ہم ہر دوسرے‘ چوتھے سال معمول کی‘ اور سات آٹھ سال بعد غیر معمولی تباہی سے گزرنے کے باوجود کوئی قابلِ عمل اور دور رس نتائج کے حامل کسی منصوبے پر عمل کرنا تو رہا ایک طرف‘ منصوبہ بنا ہی نہیں سکے۔ اس کا ملبہ 2024ء اور 2018ء اور اس سے قبل والے الیکشنوں میں ہیر پھیر کے طفیل اور منصوبہ سازوں کی زور زبردستی کے نتیجے میں بننے والوں حکمرانوں اور خود زور زبردستی سے مسندِ اقتدار پر قابض ہونے والے آمروں پر یکساں طور پر ڈالا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی اس سلسلے میں بری الذمہ نہیں۔
اگر مطلق العنان آمر حکمران عدالتوں سے اپنے حقِ حکمرانی کے سلسلے میں ایسی سہولتیں لے سکتے تھے جو انہوں نے مانگی ہی نہیں ہوتی تھیں اور اپنے اقتدار کے دوام کے لیے آئین سے کھلواڑ کر سکتے تھے تو بھلا اس ملک کی بہتری اور لانگ ٹرم مفاد میں دیگر فیصلے بشمول ڈیمز کی تعمیر اور دریائی تجاوزات کا مکمل خاتمہ وغیرہ جیسی معمولی چیزیں کیوں نہیں کر سکتے تھے؟ لیکن یہ باتیں ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھیں۔ اور سیلاب بھلا کون سے گزشتہ آٹھ دس یا بارہ پندرہ سال سے آ رہے ہیں۔ میرے ہاتھ باون سال پرانے اخبار میں شائع ہونے والا اشتہار لگا ہے۔ یہ اشتہار سیلاب زدگان کی امداد کیلئے کراچی میں ہونے والے فلمی ستاروں کے دنگل سے متعلق ہے۔ یہ اشتہار مورخہ 12ستمبر 1973ء کو اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اشتہار ہے:
''فلمی دنگل‘ بمقام ہاکی سٹیڈیم۔ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے۔ پاکستان میں پہلی بار فلمی ستاروں کے مابین یادگار کشتی آج پانچ بجے شام زیر سرپرستی رستم زماں بھولو پہلوان (نیچے فلمساز رنگیلا اور سلطان راہی کی تصاویر ہیں) فلمی جوڑ: رنگیلا‘ پٹھا الیاس کاشمیری۔ سلطان راہی‘ پٹھا لالہ سدھیر۔ غیر فلمی جوڑیاں (یہاں بارہ پہلوانوں کے نام ہیں) شرح ٹکٹ عام: 3روپے‘ کرسی: 10روپے اور صوفہ: 50 روپے۔ ٹکٹیں تمام سینما گھروں اور بڑے ہوٹلوں کے علاوہ ریس کورس سے بھی دستیاب ہیں۔ اشتہار (نیازی فلمز لمیٹڈ) کراچی‘‘۔
قارئین آپ کو اس اشتہار سے اندازہ ہو گیا ہوگا کہ سیلاب اور سیلاب زدگان کے لیے چندہ اکٹھا کرنا‘ ان کی بحالی کے لیے اپیلیں کرنا‘ صاحبِ ثروت افراد سے مالی معاونت طلب کرتے کرتے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں اور دوست ممالک سے مالی مدد اور عالمی اداروں سے قرضوں کے حصول تک پہنچ گئی ہے۔ ہر چوتھے سال کشکول اٹھا کر عالمی چکر لگانے والے ہمارے حکمرانوں سے تنگ آکر اب دوست ممالک نے بھی اس سلسلے میں ہاتھ کھینچ لیا ہے کہ ہر بار ایک ہی چورن آخر کتنی بار بیچا جا سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اول تو اس ملک میں بہت سی چیزوں سے متعلق قانون سرے سے ہی موجود نہیں ہے‘ اگر قانون ہے تو اس میں سو طرح کے ایسے ابہام اور چک پھیریاں ہیں کہ زور آور اس کو موم کی ناک کی مانند جس طرف اور جیسے چاہیں موڑ لیں۔ حکم امتناعی ایک ایسا سہولتی امرت دھارا ہے کہ اس کی آڑ میں جو چاہیں کر لیں۔ اندازہ لگائیں کہ ایک عدالت نے ایک کیس میں کسی سرکاری محکمے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے اس کو ایک ماہ کے لیے مدعی کے کام میں مداخلت سے روک دیا۔ ایک ماہ بعد جب اصولی اور قانونی طور پر حکم امتناعی غیر مؤثر ہو چکا تھا اس محکمے نے کارروائی شروع کی تو اسے توہین عدالت کا نوٹس مل گیا۔ عدالت میں بتایا کہ حکم امتناعی کو ایک ماہ سے زیادہ گزر گیا تھا اس لیے اسے غیر مؤثر سمجھتے ہوئے کارروائی کی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے فیصلے میں درج ایک ماہ کی مدت گزر گئی تھی مگر عدالت نے بہرحال اس حکم امتناعی کو خارج بھی تو نہیں کیا۔
جس ملک میں قانون کی ایسی انوکھی تشریحات کی جاتی ہوں بھلا وہاں کوئی قانون بن بھی گیا تو اس کا کیا حشر ہو گا۔ سمجھ نہیں آتی بندہ کس کس چیز کو روئے؟ فیر کہندے نیں بوٹا گالہاں کڈھدا اے۔