ایک طرف سیلاب کے ریلے سب کچھ بہائے چلے جا رہے ہیں‘ دوسری طرف دو ارب آبادی اور 57ممالک پر مشتمل بے آسرا امت اپنے بزدل اور بے حمیت حکمرانوں کے باعث ذلت کے بحرِ بے کنار میں غوطے کھا رہی ہے۔ عالم یہ ہے کہ قطر پر حملے کے بعد ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں پندرہ کے پندرہ ارکان نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کا نام تک نہیں لیا۔ ان پندرہ ممالک میں چین‘ فرانس‘ برطانیہ‘ روس اور امریکہ مستقل ارکان ہیں جبکہ دیگر دس غیر مستقل ارکان کو بھی اس ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کا نام لینے کی اسی طرح جرأت نہیں ہوئی جس طرح کبھی کراچی میں الطاف حسین کا نام لے کر مذمت کرنا ممکن نہ ہوتا تھا۔ اسرائیل کی حیثیت بھی اس وقت ایسی ہی ہے۔
قطر میں مقیم حماس کی اعلیٰ قیادت پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب ممالک کی بے حمیتی کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا عسکری سطح پر جواب دینا تو رہا ایک طرف‘ جن عرب ممالک نے اسرائیل کو امریکی دبائو پر تسلیم کر رکھا ہے انہوں نے ان تعلقات کو ختم کرنا تو کجا محدود کرنے کا بھی اعلان نہیں کیا۔ بے بسی اور لاچاری کا یہ عالم ہے کہ ٹرمپ کے دورے پر قطر نے 96 ارب ڈالر پر مشتمل 160بوئنگ جہازوں کے ساتھ 243 ارب ڈالر کے دیگر معاہدوں کے علاوہ 38ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے بھی کیے تھے۔ صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے تقریباً 400 ملین ڈالر (ایک کھرب تیرہ ارب دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے) کا جہاز تحفے میں دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ قطر پر اسرائیلی حملے کو صدر ٹرمپ کی اشیرباد حاصل تھی۔ صدر ٹرمپ بیشک اس پر گول مول تردید کریں مگر یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل امریکی رضا مندی کے بغیر یہ قدم اٹھاتا۔
ادھر قطر کے پاس فضائی اور ہوائی حملوں کو روکنے کیلئے تقریباً 19 ارب ڈالر مالیت کے کئی حفاظتی تہوں پر مشتمل ایئر ڈیفنس سسٹم موجود ہے۔ اس میں امریکی پیٹریاٹ PAC-3‘ ناروے سے خریدا گیا NASAMS‘ امریکن THAAD اینٹی بیلیسٹک میزائل سسٹم‘ برطانیہ کا بنا ہوا Rapier اور فرانس وجرمنی کا مشترکہ Roland دفاعی نظام موجود ہے۔ اس تہہ در تہہ فضائی حفاظتی انتظامات کے علاوہ قطر میں موجود اس خطے کا سب سے بڑا امریکی اڈا اور خود قطر کی فضائیہ میں موجود 36 فرانسیسی رافیل‘ 33 امریکی F15‘ فرانسیسی میراج 2000 کے علاوہ دیگر جدید جنگی ہوائی جہاز ہیں لیکن سب کے سب طیارے اور دفاعی نظام بیکار ثابت ہوا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ قطر یوں کو یہ سب کچھ چلانے کی ہمت ہی نہ ہوئی یا یہ سب کچھ جو مغربی ٹیکنالوجی پر مشتمل تھا‘ اسرائیلی حملے کے دوران عملی طور پر ناکارہ بنا دیا گیا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 19ارب ڈالر پر مشتمل سارا فضائی دفاعی نظام اور کھربوں ڈالر پر مشتمل ساری قطری جنگی مشینری اس حملے کے دوران کوڑے کا ڈھیر ثابت ہوئی۔
نہ جہاز ہی اڑ سکے اور نہ ہی فضائی دفاع پر مامور خودکار دفاعی نظام فعال ہوا۔ اسرائیلی جہاز آئے اور مزے سے کارروائی کرکے بخیریت واپس چلے گئے۔ مرشدی مشتاق یوسفی کی ایک سطری تحریر یاد آ گئی۔ فرماتے ہیں: بیگمات سے بحث کرنے کے دو نہایت مجرب طریقے ہیں لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تو ایک بھی کام نہیں آتا۔ سو قطر کے ساتھ یہی ہوا۔ اب ہمارے وزیراعظم قطری امیر کو دم دلاسا دینے گئے ہیں۔ ہم بھی صرف دم دلاسے کے قابل رہ گئے ہیں تاہم فی الوقت عالمی تناظر میں یہ بھی بہت ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ چند روز کے دوران چھ ممالک پر؛ جن میں فلسطین‘ لبنان‘ شام‘ یمن‘ تیونس اور قطر شامل ہیں‘ حملہ کیا ہے۔ اسرائیل کا حوصلہ بڑھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسرے ملک پر حملے کی صورت میں ہم صرف اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ جب ہم پر حملہ ہوتا ہے تو باقی بھی اسی طرح خاموش رہتے ہیں جس طرح ہم خاموش تھے۔ ہر حملے پر جوابی خاموشی سے اسرائیل اگلی بار زیادہ بڑھ کر شدت سے حملہ کرے گا۔ اس پر ایک مرغ کی کہانی یاد آ گئی۔ اس مرغ کے مالک نے یہ تو سوچ لیا تھا کہ اس نے ہر حال میں مرغ کو ذبح کرنا ہے تاہم کوئی جواز بنانا چاہتا تھا۔ اس نے مرغ کو کہا کہ اگر اس نے صبح اذان دی تو وہ اسے ذبح کر دے گا۔ صبح اٹھ کر مرغ نے پَر پھڑپھڑائے مگر عین اسی وقت اسے مالک کی تنبیہ یاد آ گئی اور وہ شدت سے دل کرنے کے باوجود اذان دینے سے باز رہا۔ مالک کو اس روز جب جواز نہ ملا تو اس نے مرغ کو حکم دیا کہ وہ اپنی مردانہ نشانی یعنی قلغی سے نجات حاصل کر لے ورنہ وہ کل اسے ذبح کر دے گا۔ مرغ نے کسی طرح اپنی قلغی بھی کاٹ پھینکی۔ اب مالک نے آخری بہانہ تراشتے ہوئے اسے حکم دیا کہ کل وہ انڈہ دے وگرنہ وہ اسے ذبح کر دے گا۔ ظاہر ہے انڈہ دینا مرغ کے بس سے باہر تھا۔ اگلی صبح جب مالک اسے ذبح کرنے جا رہا تھا تو اس نے سوچا کہ اس طرح بے غیرتی سے مرنے سے بہتر تھا کہ وہ پہلے روز اذان دے کر ذبح ہوتا نہ کہ اس طرح ذلیل ہو کر ذبح ہوتا۔ یہی حال فی الوقت مسلم امہ کا ہے۔ سب حکمران اور ممالک امریکہ کی کاسہ لیسی کر رہے ہیں اور ٹرمپ کے احکامات مانتے ہوئے سر تسلیم خم کر رہے ہیں۔ کوئی جہاز خرید رہا ہے تو کوئی جہاز تحفے میں دے رہا ہے۔ کوئی اگلے چار سال میں 600 بلین کی سرمایہ کی یقین دہانی کروا رہا ہے اور کوئی شتابی میں اپنی معدنیات امریکی کمپنیوں کو بخشنے پر راضی ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ خوشی سے نہیں لیکن خوش کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ یہ سب کچھ ایسے ہی زور زبردستی اور دھکے سے وصول کر رہے ہیں جس طرح ہمارے کچے کے ڈاکو اغوا شدگان سے تاوان وصول کرتے ہیں۔
ایک روایت ہے (اللہ جانے سچ ہے یا گھڑی گئی ہے) کہ چنگیز خان نے جب نیشاپور فتح کیا تو وہاں خون کی ایسی ہولی کھیلی کہ ہر طرف خوف و دہشت پھیل گئی۔ جب اس نے نیشاپور کے بعد ہمدان فتح کیا تو مخلوقِ خدا خوف سے لرز رہی تھی۔ ہر طرف موت کا خوف چھایا ہوا تھا۔ چنگیز خان نے سارے شہر کو میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ سب کو خیال تھا کہ وہاں ان کا قتل عام کیا جائے گا۔ جب سب لوگ آ گئے تو چنگیز خان نے کہا کہ ہمدان کے لوگوں کی عقل ودانش کا بڑا شہرہ ہے۔ میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا اگر اس کا جواب درست ملا تو سب کو امان مل جائے گی بصورت دیگر تم سب کے سر تن سے جدا سے کر دوں گا۔ چنگیز اور اس کے سوال کا سامنا کون کرے گا؟ عالم‘ فاضل‘ دانشور اور صاحب علم سب خوفزدہ اور خاموش تھے کہ ایک چرواہا جواب دینے کیلئے آگے آ گیا۔ چنگیز نے پہلے تو اسے حیرت سے دیکھا پھر سوال کیا کہ بتائو میں یہاں خدا کی مرضی سے آیا ہوں یا اپنی مرضی سے۔ چرواہے نے ایک لمحہ سوچا پھر کہنے لگا: نہ تم خدا کی طرف سے آئے ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے۔ تمہیں تو ہمارے اعمال یہاں کھینچ لائے ہیں۔
ایک کروڑ آبادی والے اسرائیل کو دو ارب مسلمانوں پر اللہ نے نہیں‘ ہماری نالائقیوں‘ علم وحکمت سے دوری‘ سائنس سے لاتعلقی‘ محنت سے فرار‘ جھوٹ‘ مکر اور فریب زدہ اعمال‘ خوفِ خدا سے محرومی‘ دنیا داری‘ مال وزر کی محبت‘ موت کے خوف اور کمزوری نے مسلط کیا ہے۔ ہمارے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ہمارے اعمال ہیں۔ اور ان اعمال کا تعلق صرف ان اعمال سے نہیں جنہیں ہم نے مذہب سے جوڑ رکھا ہے بلکہ ان سے اعمال سے بھی بدرجہ اتم ہے جو دنیا میں قیادت کرنے کیلئے عالمِ اسباب میں درکار ہیں۔ کالم ختم ہوا تاہم ایک ستم ظریف کا جملہ آپ کی نذر ہے : اگر امیر قطر اپنا قیمتی لگژری ہوائی جہاز صدر ٹرمپ کے بجائے ہماری سی سی ڈی کو دیتے تو اب تک نیتن یاہو کے نیفے میں اڑسے ہوئے پستول سے گولی خود بخود چل کر اسے 'ناقابلِ تلافی نقصان‘ پہنچا چکی ہوتی۔