ہر دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کی طرح شوکت گجر بھی ملک میں آنے والے ہولناک سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے پریشان ہے۔ بحیثیت ماہرِ زراعت اس کی آنکھ اس تباہی کو وہاں تک دیکھ سکتی ہے جہاں تک مجھ جیسے عام فہم آدمی کی نظر نہیں پہنچتی۔ کھڑی فصلوں کا نقصان اور اس نقصان کے نتیجے میں آئندہ فصلوں کی کاشت کیلئے درکار زرعی مداخل کا خرچہ تو صرف کاشتکار کا نقصان ہے۔ اس سے بڑھ کر چاول اور گنے کی فصل کی تباہی نے جہاں ایک طرف ملکی فوڈ سکیورٹی کا خطرہ پیدا کر دیا ہے وہیں چاول کی برآمد اور چینی کی آئندہ مارکیٹ میں عام آدمی کیلئے قیمت خرید پر بھی تحفظات پیدا کر دیے ہیں۔ گندم اور کپاس کا مسئلہ مزید ٹیڑھا ہے۔ پہلے سے مسلسل تنزلی کی طرف رواں کپاس کی کاشت کو اس سیلاب نے مزید دھچکا پہنچایا ہے۔
پاکستان میں کسی زمانے میں تحصیل میلسی کپاس کی کاشت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ پوری تحصیل میں چند سو ایکڑ سے زیادہ کپاس کاشت نہیں ہوئی۔ لے دے کر بہاولنگر میں اس سال کپاس کاشت ہوئی تھی۔ اندازہ ہے کہ اس تحصیل میں اسی‘ نوے ہزار ایکڑ کپاس کاشت ہوئی تھی اور اس میں سے اسی فیصد یعنی تقریباً ساٹھ‘ ستر ہزار ایکڑ کپاس کی فصل حالیہ سیلاب میں تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ ادھر جنوبی پنجاب میں سیلاب نے مجموعی طور پر تباہی کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سیلاب میں پانی ان جگہوں‘ شہروں اور قصبوں میں پہنچا ہے جہاں پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ تحصیل جلالپور پیروالا اور علی پور میں ناقابلِ یقین بربادی ہوئی ہے لیکن اس ساری تباہی میں بہاولنگر میں دریائے ستلج کے پانی سے ہونے والی تباہی پر توجہ کم رہی ہے۔ آپ پانی کی آمد اور اخراج کے سلسلے میں دریائے ستلج کا ڈیٹا دیکھیں تو بڑی حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے۔
پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے ستلج پر پہلا بیراج گنڈا سنگھ والا ہے۔ بار پندرہ روز پہلے اس بیراج سے پانی کا اخراج تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ کیوسک کے درمیان رہا ہے ‘ اس کے بعد دوسرا بیراج سلیمانکی ہے۔ وہاں پر پانی کی آمد اور اخراج ایک سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک کے لگ بھگ رہا ہے۔ یعنی پہلے بیراج سے گزرنے والے پانی کی مقدار ساڑھے تین لاکھ کیوسک کے لگ بھگ تھی جبکہ اس کے اگلے بیراج پر پانی کی آمد ڈیڑھ لاکھ کیوسک کے قریب تھی۔ مطلب یہ کہ پہلے اور دوسرے بیراج کے درمیان دو لاکھ کیوسک پانی غائب ہوا ہے۔ یہ پانی کہاں گیا؟ بڑی صاف اور سادہ سی بات ہے کہ یہ پانی درمیان میں سیلاب کی صورت پھیل گیا تھا۔ کھیت‘ باغات اور آبادیاں اس پانی میں ڈوب گئیں اور پانی کا ہیڈ گنڈا سنگھ والا اور ہیڈ سلیمانکی کے درمیان میں تباہی پھیلانے کا یہ سلسلہ مسلسل کئی دن جاری رہا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں اس سال کسی حد تک کپاس کاشت ہوئی تھی‘ جو ساری ملیا میٹ ہو گئی ہے۔
اس سیلاب نے جہاں ایک طرف ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے وہیں سیلاب زدہ علاقوں میں جو مواصلاتی انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہوا ہے‘ اس کی بحالی اگر اگلے کئی سال میں بھی مکمل ہو جائے تو اسے غنیمت سمجھیں کہ تباہی کا پیمانہ اس حد تک زیادہ ہے کہ ہم اپنے وسائل سے اسے شاید پورا ہی نہ کر پائیں۔ شوکت گجر کو سیلاب کی پریشانی کے ساتھ ساتھ ایک پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ سیلاب کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر ابھی تک کسی طرف سے مالی امداد کا ایسا کوئی قابلِ ذکر اعلان سنائی نہیں دیا جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے اور خاص طور پر برادر عرب ممالک کی طرف سے بھی بالکل خاموشی ہے۔ لگتا ہے انہیں اس سیلاب سے ہونے والی ہماری تباہی کی رتی برابر پروا نہیں ہے۔
میں نے کہا: شوکت میاں! اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ خود عرب برادر ممالک کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ نے مل کر ان کو لوٹنے کا جو پروگرام بنا رکھا ہے وہ اس حد تک کامیاب ہے کہ تینوں فریقوں کو ادھر سے ہی فرصت نہیں۔ امریکہ اسرائیل کو بھی اسلحہ دے رہا ہے اور عربوں کو بھی اسلحہ بیچ رہا ہے۔ اسرائیل کو عربوں کو دبانے‘ ڈرانے اور کھڑکانے کا اجازت نامہ بھی عطا کر رہا ہے اور عربوں کو تسلی و تشفی اور آئندہ کیلئے سکیورٹی کی گارنٹی بھی دے رہا ہے۔ اسرائیلی مفادات کا بھی پورا تحفظ کر رہا ہے اور عربوں کو بھی حفاظتی گارنٹی دے رہا ہے۔ انہیں ایسا اسلحہ بیچ رہا ہے جو وہ خود اپنی مرضی سے چلا بھی نہیں سکتے۔ ادھر امریکہ بہادر نے اسرائیل کے تحفظ کی قسم بھی کھا رکھی ہے اور عرب ممالک میں ان کی حفاظت کیلئے اپنے اڈے بھی قائم کر رکھے ہیں جن کا سارا خرچہ عرب ممالک برداشت کرتے ہیں اور عالم یہ ہے کہ ان حفاظتی اڈوں کی موجودگی کے باوجود دس اسرائیلی جہاز سارے سعودی عرب‘ شام اور اردن وغیرہ کو عبور کرتے ہوئے قطر پہنچے اور بمباری کرکے بخیرو خوبی بحفاظت واپس اسرائیل پہنچ گئے۔ شنید ہے ان بمباروں کو ہوا میں فیول بھرنے کیلئے امریکی جہازوں نے عرب سرزمیں سے اڑان بھری۔ شام میں اس وقت بائیس‘ عراق میں بارہ اور کویت میں آٹھ مقامات پر امریکی فوجی تنصیبات ہیں۔ سعودی عرب میں پانچ باقاعدہ اڈے ہیں۔ اردن میں ان اڈوں کی تعداد دو‘ عمان میں چھ‘ بحرین میں تین‘ متحدہ عرب امارات میں تین اور خود قطر میں ایک عدد امریکی اڈہ موجود ہے جو اس علاقے میں شاید امریکی افواج کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اب ان سب کا خرچہ ہمارے برادر عرب ممالک اٹھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ صاحب مئی میں قطر اور سعودی عرب کے دورے کے دوران لگ بھگ ایک ٹریلین ڈالر تاوان بصورت سرمایہ کاری زور زبردستی سے وصول کرکے چلتے بنے ہیں۔ اب ایسے میں ہمارے عرب برادر ممالک ہماری کیا مدد کریں؟ اونٹوں سے دوستی کریں تو گھر کے دروازے اونچے رکھناپڑتے ہیں۔ بڑے گھروں کو جگا اور تاوان دینا پڑ جائے تو چھوٹے گھروں کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ تمہیں ایک قصہ سناؤں جو مجھے شاہ جی نے سنایا ہے:
ملتان میں ثقافتی‘ ادبی اور سماجی کاموں کیلئے صنعتکار وغیرہ اس طرح اپنا حصہ نہیں ڈالتے جس طرح دوسرے شہروں میں رواج ہے۔ فیصل آباد لٹریری فیسٹیول اس کی روشن مثال ہے۔ خیر ملتان میں اس طرح کے گنتی کے دو چار لوگ ہیں جن کے دم سے شہر میں سماجی سرگرمیوں کا نام زندہ ہے۔ ان دو چار لوگوں میں جو خیراتی اداروں سے لے کر عوامی بہبود کے غیرسرکاری اداروں اور طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں سے ادبی اور ثقافتی تقریبات کو سپانسر کرتے ہیں‘ ان میں سے ایک شخص اس سلسلے میں خاصا فعال تھا اور بڑھ چڑھ کر ان معاملات میں تعاون کرتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ ایک بڑے سیاسی خاندان کے ہتھے چڑھ گیا۔ اب خاندان کی چالاک اور کائیاں بچہ پارٹی نے اس نیک دل آدمی کو جو بنیادی طور پر بیبا اور ہمدرد ٹائپ تھا‘ احساس دلایا کہ فی زمانہ ایسے کاموں میں پیسہ لگانے سے جہاں سے کوئی منافع نہ مل رہا ہو کارِ بیکار ہے۔ اس لیے اسے وہاں خرچ کرنا چاہیے جہاں اسے دنیاوی فوائد حاصل ہوں۔ اس کے کاروبار کو تحفظ ملے۔ سرکاری محکموں کے اٹھائی گیروں سے نجات مل سکے۔ سیاسی پشت پناہی حاصل ہو جو اس کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ سو وہ اب بڑے گھر کے خرچے‘ مطالبے‘ تاوان اور تحفوں میں ایسا پھنسا ہے کہ اسے اب اور کچھ کرنے کی نہ تو فرصت ہے اور ہی استطاعت رہ گئی ہے۔ ہاتھیوں کوپالنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ بڑے لوگوں کے خرچے جیب میں ایسا سوراخ کر دیتے ہیں کہ یہ بھرتے نہیں بھرتی۔شوکت ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا: چلیں زکوٰۃ ہی دے دیں۔ میں نے کہا: جب بندہ خود صاحبِ نصاب نہ رہے تو اس پر زکوٰۃ دینا بھی فرض نہیں رہتا۔ برادر عرب ممالک کی حالت کا آپ خود اندازہ لگا لو‘ اور ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھو۔ اب مانگے تانگے سے گزارا کرنے والا موسم سمجھو ختم ہونے پر آ گیا ہے۔