"KMK" (space) message & send to 7575

یہاں ہو کیا رہا ہے؟

حکومت اس وقت بڑے بڑے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ ان بڑے کاموں میں آنے بہانے سے امریکی صدر ٹرمپ سے ملنا شاید سب سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ غزہ میں دو سال تک خون کی ہولی کھیلنے اور 68 ہزار سے زائد بے گناہوں کو شہید کرنے والی اسرائیلی حکومت کو اس کی خواہش کے مطابق اسلحہ فراہم کرنے والے امریکی صدر کیلئے بار بار امن کے نوبیل انعام کی سفارش کرنا اور بلامقصد غیر ملکی دورے کرنا شامل ہے۔ جن بڑے اور اہم بین الاقوامی کاموں میں ہمارے حکمران اس وقت تن من دھن سے مصروف دکھائی دے رہے ہیں‘ حقیقت میں ان سارے کاموں میں ان کا کوئی عملی کردار ہی نہیں۔ ہمارے حکمران اس وقت ایک بینڈ ویگن میں سوار ہیں اور ان کی حیثیت شامل باجا بجانے والے سے زیادہ نہیں لیکن وہ خوش ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس وقت پوری دنیا کو سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وزیر خارجہ عرف نائب وزیراعظم اسمبلی میں یہ فرماتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا پیش کردہ بیس نکاتی ڈرافٹ وہ ڈرافٹ ہرگز نہیں جو ہم نے منظور کیا تھا‘ مگر ہمارے وزیراعظم اسی امریکی ڈرافٹ پر‘ جس کو اسمبلی کے فلور پر جناب اسحاق ڈار مکمل طور پر مسترد کر چکے تھے‘ دستخط کرکے ایسے فخر و انبساط کا مظاہرہ کر رہے ہیں گویا انہوں نے امریکی صدر کے حکم نامہ نما ڈرافٹ پر نہیں بلکہ امریکی صدر نے ان کے ڈرافٹ کردہ معاہدۂ امن پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وائٹ ہاؤس میں اس وقت ہمارے حکمرانوں کی کتنی پذیرائی ہو رہی ہے کیونکہ عام آدمی کو حکمرانوں کی عالمی منظرنامے پر عزت بذریعہ ''جھولی چُک‘‘ پروگرام سے زیادہ ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے غرض ہے جن سے وہ دوچار ہیں۔
ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل کیا ہیں؟ وہ چاہتے ہیں انہیں عدل و انصاف میسر ہو‘ تحفظ ملے‘ تھانہ اور پٹوار کلچر سے نجات حاصل ہو ‘ تعلیم و صحت کی سہولیات ملیں اور روزگار تک ان کی رسائی ہو۔ ان کے علاوہ عام آدمی کو بھلا کیا درکار ہے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جو دنیا کی ہر ریاست اپنے شہریوں کو دینے کی پابند ہے۔ یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی نظام کے ذریعے فراہمی ہی دراصل ریاست کے قیام کو اخلاقی اور قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔ اگر معاشرے کو یہ سب کچھ حاصل نہیں تو ریاست کا قیام اور حکومت کی تشکیل بے معنی ہے۔ ریاست ایک گاڑی ہے تو حکمران اس کے لیے ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے فرائض کی انجام دہی پر مامور عملہ ہے۔ تاہم ایک عرصہ سے وقتاً فوقتاً سول اور فوجی حکمرانوں کی صورت آنے والے نالائق ڈرائیوروں اور نااہل کنڈیکٹروں نے گاڑی کے انجن آئل‘ فلٹر اور پرزوں کی بروقت تبدیلی‘ مسلسل سروس‘ ٹائروں میں ہوا اور ریڈی ایٹر میں پانی کا دھیان رکھنے کے بجائے اس کے موبل آئل کو غتربود کرنے‘ ملاوٹ شدہ پٹرول ڈلوانے‘ پرزے چوری کرنے‘ بغیر ٹکٹ مسافر بٹھانے اور اوور لوڈنگ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا‘ لہٰذا یہ کھٹارا جو کبھی ایک شاندار گاڑی تھی‘ کی موجودہ حالت آپ کے سامنے ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے قوم کو خوشخبری سنائی جا رہی تھی کہ ملکی فلیگ کیریئر ایئر لائن یعنی پی آئی اے کی یورپ اور امریکہ کیلئے براہِ راست پروازیں شروع ہونے والی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے اسمبلی کے فلور پر نہایت ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘ بلکہ میں کہوں گا کہ باقاعدہ اس ملک سے دشمنی کرتے ہوئے بلا تصدیق بیان داغ دیا کہ ملکی ایئر لائن کے پائلٹوں کی اکثریت کے لائسنس جعلی ہیں۔ اس پر ہمارے تب کے حکمران تو ٹھنڈے پیٹوں بیٹھے رہے‘ تاہم دنیا بھر کی ایو ایشن انڈسٹری میں اس بیان پر ایک بھونچال سا مچ گیا اور یورپ وغیرہ سے اس سلسلے میں بہت شدید ردِعمل آیا۔ ظاہر ہے وہاں کی حکومتیں میرٹ کا صرف دعویٰ ہی نہیں کرتی ہیں‘ اس پر عمل کرکے دکھاتی ہیں۔ میرٹ کے دعویدار عمران خان نے اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان پر ایکشن لینا تو کجا‘ اپنے وزیر کی سرزنش تک نہ کی۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ خان صاحب نے اس ''اعترافِ جرم‘‘ کو مغربی ممالک کے تناظر میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے مطابق پرکھتے ہوئے اپنے وزیر باتدبیر غلام سرور خان کی باقاعدہ پیٹھ ٹھونکی ہو اور اسے شاباش بھی دی ہو کہ اس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر حق سچ کا پرچم بلند کرتے ہوئے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اس کارنامے کے طفیل یورپ وغیرہ میں پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگ گئی۔ یاد رہے کہ یہ واقعہ جون 2020ء میں پیش آیا۔ اس کے بعد پانچ سال تک راوی چین لکھتا ہے۔
خدا خدا کرکے اب کہیں جا کر یہ مسئلہ حل ہوا ہے لیکن اب لگتا ہے کہ ہماری پروازوں پر لگنے والی پابندی نے ہمیں تو پوری دنیا میں رسوا کر دیا تھا مگر ہماری قومی ایئر لائن کی عزت بچا رکھی تھی کہ اب جبکہ پروازیں بحال ہو چکی ہیں‘ قومی ایئر لائن کی خراب اندرونی صورتحال وہ کچھ سامنے لے آئی ہے جو ابھی تک پردۂ غائب میں تھا اور ایئر لائن کی عزت محفوظ تھی۔ لاہور سے پیرس کیلئے جون 2025ء میں براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں۔ قوم کو اس خوشی کی خبر پر مبارکباد بھی دی گئی‘ تاہم ابھی اس مبارکباد کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی صرف تین ماہ بعد ستمبر کے وسط میں یہ پروازیں بند کردی گئیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے کے پاس اس روٹ پر سفر کرنے کیلئے دراصل ہوائی جہاز ہی میسر نہیں تھے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پی آئی اے کا کل بیڑا تقریباً 32 جہازوں پر مشتمل ہے۔ ان میں تین جہاز ATR‘ سترہ ایئر بس اور بارہ بوئنگ 777کے مختلف ماڈلز ہیں۔ ایک ذرائع کے مطابق ان 32جہازوں میں سے فی الوقت قابلِ پرواز جہازوں کی تعداد صرف 21ہے۔ اس سلسلے میں کوئی قابلِ اعتبار ذریعہ تو میسر نہیں کہ ادارہ اس سلسلے میں مختلف اور مشکوک بیانات دیتا ہے جس سے اصل حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی۔ تاہم میسر ذرائع کے مطابق 32 میں سے تقریباً 11 جہاز قابلِ مرمت یا ناقابلِ پرواز حالت میں ہیں۔ پانچ سال ایئر لائن پر بہت سے بین الاقوامی روٹس پر پابندی تھی اور اس دوران ہم مسلسل اس پابندی کے خاتمے کیلئے تو بھاگ دوڑ کرتے رہے مگر یہ کسی کے ذہن میں نہ آئی کہ اگر یہ پابندی ختم ہو گئی تو ان روٹس پر ہم چلائیں گے کیا؟
ایک دوست کے بقول یہ ساری بھاگ دوڑ صرف یہ نمبر ٹانکنے کیلئے تھی کہ پی ٹی آئی کے وزیر باتدبیر کی نالائقی کے باعث جو پابندی لگی تھی وہ ہماری قابلیت کے باعث ختم ہو گئی ہے۔ معاملہ صرف پیرس کے فلائٹ آپریشن کی معطلی تک ہی محدود نہیں‘ گزشتہ ماہ کے وسط میں پی آئی اے نے اپنا کینیڈا کا آپریشن بھی معطل کر دیا ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ایئر لائن نے ان بنیادوں پر کیا کام کیا کہ اگر پابندی ختم ہو گئی تو ہمارا فلائٹ آپریشن کیسے چلے گا؟
ایک والد نے اپنے بیٹے کو کہا کہ اگر اس نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تو وہ اسے انعام میں موٹر سائیکل لے کر دے گا۔ جہاں یہ سن کر بیٹا خوش ہوا وہاں باپ بھی بیٹے کے متوقع رزلٹ کے بارے میں مطمئن ہو گیا لیکن جب رزلٹ آیا تو بیٹا فیل ہو گیا۔ باپ نے بیٹے سے کہا کہ میں نے تمہیں پاس ہونے کی صورت میں موٹرسائیکل لے کر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن تم فیل ہو گئے ہو۔ آخر تم اس دوران کیا کرتے رہے ہو؟ بیٹے نے کہا کہ وہ موٹر سائیکل چلانا سیکھتا رہا ہے۔ ہمارے منصوبہ ساز اس لڑکے سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ وہ لڑکا بھلے سے فیل ہو گیا مگر بہرحال اس نے موٹرسائیکل چلانا تو سیکھ لی تھی لیکن ہم نے تو اس دوران موٹرسائیکل چلانا بھی نہیں سیکھی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہاں ہو کیا رہا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں