"KMK" (space) message & send to 7575

پاکٹ یونین ٹائپ اپوزیشن لیڈر

اس ملک میں جاری سیاسی گھڑمس کی نئی قسط آزاد کشمیر کے وزیراعظم انوار الحق کے خلاف اِن ہاؤس تبدیلی پر مبنی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ ان کے خلاف کروائی جانے والی اندرونی بغاوت کی اصل وجوہات کیا ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان سے کوئی ایسی انہونی غلطی بہرحال وقوع پذیر نہیں ہوئی جو باقی لوگ نہیں کر رہے‘ اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسی انوکھی حرکت کی ہے جو ہمارے سیاسی نظام کیلئے اچنبھے کی بات ہو۔ گمان غالب ہے کہ ملک کو ہمہ وقت سیاسی پریشانی میں مبتلا رکھنے کے شوقینوں نے فارغ بیٹھنے سے تنگ آکر ایک اور شغل تلاش کرتے ہوئے انوار الحق کی حکومت کا تختہ الٹنے جیسی کارآمد مصروفیت میں اپنی صلاحیتوں کو مزید صیقل کرنے کا موقع پیدا کر لیا ہے۔ وہ ایک شعر ہے کہ:
بے کار مباش کچھ کیا کر ؍ کپڑے اُدھیڑ کر سیا کر
ہمارا تمام تر سیاسی نظام اس ایک شعر کی عملی تصویر کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اللہ بخشے ایک میثاقِ جمہوریت ہوا کرتا تھا۔ یہ مرحوم و مغفور معاہدہ مورخہ 14مئی 2006ء کو لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر‘ جو مرحوم رحمان ملک کے فلیٹ میں طے پایا تھا‘ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے مرحومہ بینظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ اس وقت ملک میں بقول خواجہ آصف‘ جو ہائبرڈ نظام حکومت چل رہا ہے‘ اس کی دو بڑی حصہ دار وہی دو سیاسی جماعتیں ہیں جو اس معاہدے کی موجد و بانی تھیں۔ جن لوگوں کو اس معاہدے کی نمایاں شقیں یاد نہیں ان کو یادداشت پر زور ڈالنے سے بچانے کیلئے اس معاہدے کی بنیادی باتیں درج ذیل ہیں:
اس معاہدے کی سب سے اہم شق آئین کی بالادستی اور 1973ء کے آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور اس پر عمل کرنے سے متعلق تھی۔ اس معاہدے کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ دونوں پارٹیاں اس بات پر متفق تھیں کہ اس ملک میں آئندہ کیلئے کسی بھی آمر یا غیر آئینی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور جمہوریت کا بستر گول کرنے کی صورت میں اس کے خلاف مشترکہ مزاحمت کی جائے گی۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ عدلیہ کو سیاسی دباؤ سے آزاد رکھنے‘ اور ملک کے عدالتی نظام کو آزاد و خود مختار رکھنے کیلئے ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا جوڑ کر جدوجہد کی جائے گی۔ اس معاہدے کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں ہر دو پارٹیوں نے ملک میں شفاف الیکشن کیلئے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام‘ غیر جانبدار نگران حکومت کی تشکیل اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضمانت دی تھی۔ اس کے علاوہ ایک جامع چارٹر آف الیکشن کمیشن اور چارٹر آف جوڈیشری تیار کرنے پر اتفاق ہوا۔ اسی معاہدے میں سیاسی رہنماؤں کے خلاف انتقامی مقدمات ختم کرنے اور مصالحت پر مبنی سیاست کو فروغ دینے پر بھی اتفاق ہوا اور ایک دوسرے سے اس پر پابند رہنے کا عہد بھی کیا گیا۔ اس معاہدے کی صرف ایک شق پر انگریزی کے محاورے کے مطابق Letter and Spiritعمل ہوا‘ باقی سارا معاہدہ کھوہ کھاتے چلا گیا۔
اب یہی دو پارٹیاں ملک میں حکمرانی کے نوے فیصد حصے پر قابض ہیں۔ وفاق میں پیپلز پارٹی گو کہ وزارتوں میں حصہ دار نہیں اور اس بنیاد پر پروپیگنڈا بھی کرتی رہتی ہے کہ وہ وفاق میں حکومت کا حصہ نہیں‘ تاہم صدرِ پاکستان اور چیئرمین سینیٹ آف پاکستان دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ دونوں اہم ترین عہدے وفاقی بھی ہیں اور آئینی بھی‘ تاہم پیپلز پارٹی شریکِ حکومت بھی ہے اور انکاری بھی ہے۔ چار میں سے تین صوبوں کے گورنر صاحبان کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔ دو صوبوں میں اس کی حکومت ہے اور آزاد کشمیر کی حکومت پر ہاتھ صاف کرنا چند روز کا معاملہ ہے۔ راوی اس کے بعد چین لکھتا ہے۔ اس کام کیلئے پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے دس کے لگ بھگ ارکان اسمبلی کی بصورت فارورڈ بلاک حمایت حاصل ہے۔ جب میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنے والی پارٹیاں مخالف سیاسی جماعت کی جمہوری حکومتوں کا بستر گول کرنے کیلئے غیرجمہوری‘ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے فارورڈ بلاک نامی لعنت کی اصطلاح ببانگ دہل استعمال کرتی ہیں تو میثاقِ جمہوریت نامی دستاویز پر کیا گزرتی ہو گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
فی الوقت میثاقِ جمہوریت کی موجد و بانی پارٹیوں کے زیر سایہ ان کے اپنے طے کردہ اتفاق یافتہ نکات کی عملی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو میثاقِ جمہوریت کی کسمپرسی پر ترس آتا ہے۔ 1973ء کے آئین کی پاسداری اور بالادستی والی شق پر غور کریں تو اس میں چھبیسویں ترمیم نے جو شب خون مارا ہے‘ اس کے بعد آئین پاکستان کی بالادستی اور اصل روح کے بارے میں بات کرتے ہوئے ضمیر پر جو بوجھ پڑتا ہے اسے اٹھانا صرف انہی دو سیاسی پارٹیوں کا حوصلہ ہے۔ عام صاحبِ ضمیر اس بوجھ کو اٹھانا تو کجا‘ اٹھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ملک میں عملی طور پر آمریت نہ سہی لیکن حقیقی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں مگر اس کا اظہار کرنا ضرور مشکل ہے۔ صورتحال سب کے سامنے ہے اور معاملات اتنے صاف شفاف ہیں کہ سب کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم اس شفافیت پر اگر جمہوریت کی چیمپئن دونوں پارٹیاں راضی ہیں تو بھلا باقی لوگوں کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ سو ہم اس سلسلے میں غیر جانبدار ہیں اور غیر جانبدار بھی اس لیے ہیں کہ فی الوقت جانبدار ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن جتنا آزاد ہے سب کو علم ہے جس کو علم نہیں اس کو گزشتہ الیکشن میں اس کا بخوبی تجربہ ہو چکا ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن کس حد تک آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ الیکشن کمیشن کی آزادی اور خود مختاری وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں زور آوروں کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ عالم یہ ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی مدت مورخہ 26جنوری 2025ء کو یعنی آج سے تقریباً نو ماہ پہلے ختم ہو چکی ہے‘ تاہم وہ اس آئینی عہدے پر تاحال غیر آئینی طور پر براجمان ہیں اور ابھی مستقبل قریب میں بھی ان کی اس عہدے سے رخصتی اور نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ کسی جمہوریت کے چیمپئن کو نہ اس کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی لاحق ہے۔ آئین کی شقوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور میثاقِ جمہوریت والے حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
رہ گئی بات صاف شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کی تو ایماندارانہ الیکشن کی قبر پر فارم 47کے پھول اس بات کے گواہ ہیں کہ الیکشن صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ایماندارانہ بھی تھا۔ جمہوریت کی اخلاقی اقدار کا یہ عالم ہے کہ اتحادی حکومت میں سوائے مسلم لیگ (ن) کے باقی ساری پارٹیاں وکٹ کی دونوں جانب کھیل رہی ہیں مگر دیگر پارٹیوں از قسم پیپلز پارٹی و ایم کیو ایم وغیرہ کے‘ جہاں ان پارٹیوں کی سیاسی دوراندیشی کی حدود ختم ہوتی ہیں‘ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہ جو گزشتہ دو چار ہفتوں سے اسلام آباد چڑھائی کا عندیہ دے کر خود کو اپوزیشن میں فٹ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو ان کے پیش نظر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی خالی کرسی پر قبضہ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح مولانا کو اپوزیشن کا پروٹوکول اور مراعات مل جائیں گی اور حکومت کو پاکٹ یونین قسم کی اپوزیشن مل جائے گی۔ کسی صنعتی ادارے کے مل مالکان کی اپنے زرخرید مزدور رہنماؤں سے اپنے ہی خلاف بنائی گئی ٹریڈ یونین کو عرف عام میں ''پاکٹ یونین‘‘ کہا جاتا ہے۔ امید ہے اب ان کو پاکٹ یونین اپوزیشن لیڈر کا مفہوم سمجھ آگیا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں