علمائے دیوبند کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ اپنے ہم مسلک طالبان کی مدد کریں۔ اصول وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے عطا فرمایا: مسلمان بھائی کی مدد کرو، وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
آثار یہی ہیں کہ ریاست طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر چکی۔ ریاست اگر یک سو ہو جائے تو پھر ایک ہی نتیجہ ممکن ہے۔ تاریخ میں کوئی ایک شہادت ایسی نہیں کہ کسی مسلح گروہ نے ریاست پر قابو پایا ہو۔ پاکستان میں اگر آج تک یہ نہ ہو سکا تو اس کا سبب ریاست کا ابہام تھا، طالبان کی طاقت نہیں۔ ریاستی ادارے اپنے بنائے ہوئے جال میں الجھے رہے۔ اب لگتا ہے کہ انہوں نے اس جال کو کاٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے علم بردار پھر متحرک نہ ہوئے تو اس معرکے کا انجام معلوم ہے۔ اب صرف بہادری کی یک طرفہ داستانیں لکھی جا سکتی ہیں یا چند مزید بے گناہوں کے لہو سے ہاتھ رنگے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں انجام میرے لیے اور شاید اس قوم کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ میں تو اسامہ کی موت پر بھی اداس ہوا تھا کہ کیسا صاحبِ عزیمت تھا جو 'تعبیر کی غلطی‘ کا نشانہ بن گیا۔ علمائے دیوبند کے پاس آج موقع ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو بچا لیں جن کی جوانیاں کسی نیک مقصد کے کام آ سکتی ہیں۔
یہ مقدمہ دم توڑ چکا کہ یہ امریکہ کی لڑائی ہے۔ آج قاتل مسلمان ہیں اور مقتول بھی۔ ہلاک ہونے والے پاکستانی ہیں اور شہدا بھی۔ جس سرزمین پر یہ معرکہ برپا ہے وہ بھی پاکستان ہے۔ امریکہ ایک تماشائی ہے۔ اس کو قاتل سے زیادہ دلچسپی ہے نہ مقتول سے۔ تماشائی کا مزاج یہی ہوتا ہے؛ تاہم اس تماشائی کی تاریخ یہ ہے کہ وہ تماشے کو اپنے مفاد سے جوڑ لیتا ہے۔ اس معرکے کے فریق اگر چاہیں تو تماش بینوں کو مایوس کر سکتے ہیں۔ قوم کو بھی اب ماننا ہوگا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے۔ یہ مقدمہ اب قائم ہو جانا چاہیے کہ فتح ہو یا شکست، دونوں پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ عامۃ الناس کی حد تک یکسوئی لازم ہے۔ قوم کو معلوم ہو جائے کہ امن اس کی ضرورت ہے اور یہ جنگ ہم نے امریکہ کے لیے نہیں، اپنی بقا اور سلامتی کے لیے لڑنی ہے۔
اگر فیصلہ اب تلوار سے ہونا ہے‘ اور یہی اندیشہ ہے‘ تو پھر علمائے دیوبند کو نکلنا اور ان لوگوں کو بچانا ہو گا جو اس کی نذر ہونے والے ہیں۔ ان کو بچایا جا سکتا ہے‘ اگر یہ ریاست کی اتھارٹی کو تسلیم کر لیں۔ اس وقت علمائے دیوبند کا موقف بدقسمتی سے غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ایک غلطی تو ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے دین کی ایک عسکری تعبیر پیش کی۔ طالبان نے جب اسے عملاً اپنا لیا تو انہوں نے سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ انہوں نے خود اُس 'اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی معیشت کو اسلامی بنانے کا بیڑا اٹھا لیا جسے طالبان اسلامی نہیں سمجھتے۔ لال مسجد جیسے حادثات سے انہیں اس غلطی کا احساس ہوا لیکن انہوں نے رجوع نہیں کیا۔ علما کی اس مصلحت آ میز خاموشی نے انہیں دفاعی جگہ پہ لاکھڑا کیا۔ علما کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن جیسے اکابر جو کچھ نج کی مجالس میں کہتے ہیں، انہیں کبھی عوام میں نہیں کہہ سکے۔ ان علما سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ریاست اور طالبان میں توازن پیدا کر نے کی کوشش کی۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں کو ایک پلڑے میں رکھنا شرعاً ممکن تھا نہ قانوناً۔ اگر پاکستان کی حکومت جائز ہے تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد ناجائز ہے۔ اور اگر یہ کوئی ناجائز حکومت ہے تو ان پر لازم تھا کہ وہ طالبان کے حق میں فتویٰ جاری کرتے اور اعلانیہ ان کا ساتھ دیتے۔ انہوں نے طالبان کو غلط کہا‘ نہ حکومت کو ناجائز۔ ان سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک فیصلہ کن موڑ پر ان کے گروہی اور شخصی مفادات غالب آ گئے۔ مذاکرات کا مرحلہ آیا تو مولانا سمیع الحق نے اسے مو لانا فضل الرحمٰن سے مسلک کی سیاسی قیادت چھیننے کا موقع جانا۔ دوسرے مولانا کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ انہوں نے اس عمل سے الگ ہو کر اپنی ساکھ کو بچا لیا کہ ان جیسا زیرک انسان ان مذاکرات کے انجام سے واقف تھا۔ دونوں کی پہلی ترجیح ان کا مفاد بن گئی، طالبان یا پاکستان پس منظر میں چلے گئے۔ اس بحث میں اسلام کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔
اگر علمائے دیوبند دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے اور اُن کی سیاسی
قیادت گروہی و شخصی مفادات سے بلند ہو سکتی تو ان غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ جب تک یہ معرکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تھا، اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ اس وقت میدان جنگ افغانستان تھا اور اس باب میں علما کو بتانا چاہیے تھا کہ پاکستان کے شہریوں کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا وہ اپنے نظمِ اجتماعی سے بغاوت کر سکتے ہیں؟ پھر وہ مر حلہ آیا جب تحریکِ طالبان وجود میں آئی اور اس نے ریاست پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ بدقسمتی سے ان علما نے اس وقت بھی راہنمائی فراہم نہیں کی۔ اب یہ معرکہ حتمی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب ان علما کو مصلحت کی چادر اتار کر سامنے آنا اور بالخصوص اپنے ہم مسلک طالبان سے مخاطب ہونا ہو گا۔ طالبان کو آج ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد کیسے کی جا سکتی ہے‘ میں اس ضمن میں چند اقدامات تجویز کرتا ہوں۔
1۔ یہ علما واضح کریں کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف مسلح جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہ بتائیں کہ طاقت کے استعمال میں ریاست اور غیر ریاستی مسلح گروہ کی شرعی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہوتی۔
2۔ وہ طالبان قیادت سے یہ کہیں کہ وہ ریاست کے خلاف یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کریں۔
3۔ وہ ریاست سے یہ ضمانت حاصل کریں کہ جو ہتھیار پھینک دے گا، اسے جان و مال کا تحفظ ملے گا۔
4۔ وہ ریاست سے یہ مطالبہ کریں کہ حکومت ان لوگوں کی صلاحیت اور ہنر کے مطابق روزگار اور ایک باعزت زندگی گزار نے کے لیے اسباب کی فراہمی میں مدد دے۔
5۔ جو لوگ نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں یہ حق ہو گا کہ ملک کے آئین اور دستور کے مطابق کوئی سیاسی جماعت بنائیں یا کسی موجود سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
6۔ یہ علما اس امر کا بھی جائزہ لیں کہ اس وقت مدارس کی فکری فضا کیا ہے اور کیا وہ طالبان کے لیے سازگار ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے کیسے بدلا جائے تاکہ مستقبل میں ان رجحانات کو ختم کیا جا سکے۔
میں ان علما کی خدمت میں، اس سے پہلے بھی بارہا یہی بات، باندازِ دیگر عرض کر چکا ہوں۔ میں نے نجی مجالس میں اُن سے یہ سب کچھ کہا اور اپنے کالموں میں بھی لکھا۔ آج جب آثار یہ ہیں کہ ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے تو میری دلی تمنا ہے کہ ہم دونوں اطراف سے انسانی جانوں کو ممکن حد تک بچا لیں۔ اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں یہی بات طالبان کی قیادت سے براہ راست کہتا۔ میرے پاس دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے یہ بات کہوں جن کی سنی جا سکتی ہے۔ علمائے دیوبند چاہیں تو انسانی لہو کی اس ارزانی کو اگر روک نہ سکیں تو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ انہیں اگر ملک اور قوم کی نہیں تو اپنے ہم مسلک طالبان کی مدد ضرور کر نی چاہیے۔ اصول وہی ہے جو اللہ کے آخری رسولﷺ نے عطا فرمایا: مسلمان بھائی کی مدد کرو، وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جائے۔