"KNC" (space) message & send to 7575

سستا تیل اور عالمی سیاست

تیل کی قیمتوں میں کمی، کیا عالمی سیاست کی نئی صورت گری کا نقطۂ آ غاز ہے؟
سات ماہ میں تیل کی قیمت ایک سو دس ڈالر فی بیرل سے کم ہوکر پچاس ڈالر ہوگئی۔ ایسا 1986ء میں ہو چکا اور 1990ء کی دہائی میں بھی۔ یہ اِس وقت عالمی معیشت کی سب سے بڑی خبر ہے۔ سیاست آج بھی معاشی عوامل کی اسیر ہے۔ پولیٹیکل اکانومی نئی کروٹیں لے رہی ہے۔ میرا احساس ہے کہ سرد جنگ کے بعد عالمی سطح پر اب ایک نئی کشمکش کا آ غاز ہو رہا ہے۔ شاید نئی صف بندی، شاید ایک نیا بحران۔ سوال یہ ہے کہ اس کشمکش کے نتیجے میںعالمی سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ جواب کے لیے چند حقائق ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں :
1۔چار ممالک ایسی ہیں جن کی معیشتیں براہ راست خطرات کی زد میں ہیں۔۔۔۔۔ وینزویلا، روس، ایران اورعراق۔ وینزویلا سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔اس کی بیرونی آ مدن کا 96 فیصد تیل کی برآ مد سے متعلق ہے۔ اس وقت وینزویلا میں افراطِ زرکی شرح ساٹھ فی صد ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں اس کی کرنسی پینسٹھ فیصد گر چکی۔ یہ اپنے شہریوں کو تیل پر سبسڈی دیتا ہے جس کے باعث اس ملک میں تیل کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 120ڈالر فی بیرل ہو تو وینزویلا کی معیشت سنبھل سکتی ہے۔ سر دست اس کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ملک کیوبا کی بھی مدد کرتاہے۔ اب یہ سب کچھ ممکن نہیں رہے گا۔ روس کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی کرنسی تیزی سے گر رہی ہے۔ اس کی معیشت کا بڑا انحصار بھی تیل کی برآ مد پر ہے۔آج تیل کی قیمت ایک ڈالر فی بیرل کم ہو تی ہے تو روس کو دو بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر عالمی مارکیٹ میں قیمت 105ڈالر فی بیرل ہو توروس کی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔ اس وقت وہ 30 ڈالر پر تیل بیچ رہا ہے۔ وہ اپنی برآ مد کم کر کے اس خسارے سے بچ سکتا ہے لیکن اس صورت میں اسے ایک بڑی مارکیٹ سے محروم ہو نا پڑتا ہے۔ یوں وہ یہ خسارہ اٹھانے پر مجبور ہے۔ اس پر مستزاد معاشی پابندیاں ہیں۔ ایران کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہے۔ اگر تیل کی قیمت 131 ڈالر فی بیرل ہو تو اس کو معاشی سنبھالا مل سکتا ہے، ورنہ معاشی زوال کا عمل جاری رہے گا۔ عراق بھی مشکل میں ہے، وہاں تیل کے بہت سے کنوئوں پر داعش کا قبضہ ہے۔
2۔ چار ممالک ایسے ہیں جنہیں ان کم قیمتوں کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان میں ایک امریکہ ہے، وہاں ایک عام آ دمی کو 767 ڈالرکی بچت ہوگی۔ وہ اس رقم کو کہیں اور خرچ کر سکے گا جس سے اس کا معیارِ زندگی بہتر ہوگا اور مقامی معیشت بھی۔ اس کے ساتھ امریکہ نے روایتی تیل کا ایک متبادل، شیل آئل(Shale) دریافت کر لیاہے۔ وہ آنے والے دنوں میں اسے برآمد بھی کر سکے گا۔ یوں اس کا انحصار اب مشرقِ وسطیٰ کے تیل پر نہیں رہا۔کم قیمتوں کا فائدہ چین کو بھی ہوگا۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کر نے والا ملک ہے۔ جب تیل کی قیمت میں ایک ڈالر فی بیرل کی کمی ہوتی ہے توچین کو 2.1 بلین ڈالر کی بچت ہوتی ہے۔ بھارت بھی فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہے۔ وہ اس وقت تیل پر کم و بیش 12 بلین ڈالر کی سبسڈی دے رہا ہے، اب وہ قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کو بظاہر نقصان ہے کیونکہ وہ بھی تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود وہ تیل کی رسدکم کرنے کے حق میں نہیں۔ اگر تیل کی قیمت 85 ڈالر فی بیرل ہو جائے تو سعودی عرب کے لیے کوئی مسئلہ نہ رہے؛ تاہم اس کے پاس 700 بلین ڈالرکا ریزرو فنڈ مو جود ہے اور وہ آسانی کے ساتھ اس بحران کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے برخلاف خطے میں اس کے مخالفین اس کی سکت نہیں رکھتے اور یوں امکان ہے کہ جلدی جھک جا ئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاشی صورت ِ حال کے کیا سیاسی اثرات متوقع ہیں۔ چند تو ظاہر و باہر ہیں:
1۔ عالمی سیاست پر امریکہ کی گرفت مزید مضبوط ہو گی۔ اس کے تمام مخالفین کمزور تر ہوں گے جن میں روس اور ایران سرِ فہرست ہیں۔ روس معاشی طور پرکمزور ہوگا تو مشرقِ وسطیٰ میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ ایران اس کے نتیجے میں نیوکلیئر ڈیل پر مجبور ہوگا اور اس کے ساتھ حزب اللہ کے لیے بھی اس کی معاشی مدد جاری نہیں رہ سکے گی۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر امریکی گرفت مضبوط ہوگی۔
2۔اس وقت عراق میں بہت سے تیل کے کنوئوں پر داعش کا قبضہ ہے۔کہا جارہا ہے کہ وہ ان کنوئوں سے بلیک مارکیٹ میں تیل فروخت کر رہے ہیں اور یوں تین ملین ڈالر روزانہ کما رہے ہیں۔گویا ان کی مزاحمتی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور وسائل کی کمی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ یہ بات بہت سی قوتوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
3۔ وینزویلاکیوباکو15 بلین ڈالرسالانہ کی امداد دیتا ہے، یہ اب ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوبا نے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے لاطینی امریکہ کی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ شاویز کے دور میں حزب اللہ کے ساتھ وینزویلا کے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ ان کے جانشین مودوروکو داخلی سطح پرسیاسی بحران کا سامنا ہے، اب ان کے لیے ممکن نہیں ہو گا کہ اپنے ملک سے باہر کہیں دیکھ سکیں۔ 
4۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ روایتی تیل اور غیر روایتی تیل کے مابین بھی ایک کشمکش شروع ہو جائے۔ روایتی تیل کا مرکز مشرق وسطیٰ ہے اور غیر روایتی (Shale)کاامریکہ۔ آنے والے دنوں میں یہ کشمکش بڑھ سکتی ہے۔
گویا ایک پر پیچ صورت ِ حال ہے جس کی طرف دنیا بڑھ رہی ہے۔ چند نتائج البتہ ایسے ہیں جو واضح ہیں۔ ایک یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کو سرِ دست کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ سر مایہ دارانہ معیشت کاکوئی متبادل عملاًکہیں مو جود نہیں۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کی عالمی قیادت بھی قائم رہے گی۔ اگر کچھ عوامل اس کے خلاف ہیں تو زیادہ اس کے حق میں ہیں۔ چین کے سوا اسے کوئی چیلنج نہیںکر سکتا اور چین کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ سرِ دست چین کی معیشت کا بڑا انحصار امریکہ پر ہے۔ اس کی سب سے بڑی سرمایہ کاری امریکہ میں ہے۔ اس کا پیسہ امریکی بینکوں میں ہے۔ اس کی کرنسی کی قدر بھی ڈالر ہی سے متعین ہو تی ہے۔ تیسرا یہ کہ عالمی سیاست کی باگ بدستورمعاشی عوامل کے ہاتھ میں رہے گی۔ تہذیبی اور دوسرے عوامل بھی اہم ہیں لیکن عالمی سیاست کی صورت گری میں فیصلہ کن حیثیت سرمائے اور معیشت کو حاصل رہے گی۔
ہم نے سرد جنگ کے دنوں میں عالمی سیاست کا صحیح ادراک نہیں کیا، اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کیا آج ہم حالات کا درست تجزیہ کر رہے ہیں؟اس کا انحصار سیاسی قیادت کے وژن پر ہے۔ اس کے جو مظاہر اب تک سامنے آئے ہیں، زیادہ حو صلہ افزا نہیں ہیں۔ اہلِ سیاست حکومت میں ہوں یا اس سے باہر، خیال ہوتا ہے کہ کسی اور دنیا کے مکین ہیں۔اہلِ دانش کا معاملہ یہ ہے کہ وہ برسوں سے سرمایہ داری کے زوال کی بشارت دے رہے ہیں۔ ایک دنیا بشارتوں اور پیش گوئیوں کی ہے۔ ایک دنیا وہ ہے جو عالم ِ اسباب میں ترتیب پا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس دنیا کے مکین بننا چاہتے ہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں