فرد ہو یا اجتماع، یہ اُس کی اپنی خوبیاں ہیں جو آبادرکھتی ہیں اور یہ اپنی ہی کمزوریاں ہیں جواسے برباد کرتی ہیں۔ ہم بربادی سے بچ سکتے ہیں اگر اپنی کمزوریوں کا ادراک اور ان سے نجات کا اہتمام کر لیں۔ ہم سب اس قانون فطرت کے پابند ہیں، شریف خاندان بھی ۔
شہباز شریف صاحب امیرِ قطر سے پاکستان کو درپیش توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے، کس حیثیت میں؟ کیا اب پرویز خٹک امریکی حکام سے ملاقات کریں گے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ کس طرح ہماری مدد کر سکتا ہے؟ کیا اب قائم علی شاہ منشیات کی روک تھام کے لیے عالمی برادری سے بات چیت کریں گے؟ کیا عبدالمالک صاحب اب عالمی اداروں سے طے کریں گے کہ پاکستان کے دفاعی معاملات کیسے حل کیے جائیں؟ اگر ایسا ہو گا تو پھر مرکزی حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ کیا فیڈریشن اسی طرح کام کرتی ہے؟
شریف خاندان کی جو کمزوری اُن کے سیاسی زوال میں مرکزی کردار ادا کرے گی، وہ خاندان میں اختیارات کا ارتکاز ہے۔ مرکز میں بیٹھے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی حکومت بھی شہباز شریف صاحب کے گرد گھومتی ہے۔ اس خیال کو ان مشاہدات سے تقویت ملتی ہے جب چین، ترکی اور قطر ، ہر جگہ ہمیں شہباز شریف صاحب پاکستان کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے بعد اگر کسی دوسرے فرد کا نام لیا جاتا ہے جو اقتدار کے حقیقی نمائندہ ہیں تو وہ اسحاق ڈار صاحب ہیں۔ وہ بھی اسی خاندان کے ایک فرد ہیں۔ اس فہرست میں مزید اگر کچھ نام شامل کیے جائیں گے تو کیپٹن صفدر اور حمزہ شریف کے اسمائے گرامی سر فہرست ہوں گے۔ روز اول سے خیر خواہ توجہ دلا رہے ہیں۔ افسوس کہ شریف خاندان ابھی تک اس کمزوری کا ادراک نہیں کر سکا۔
بطور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف صاحب کی کارکردگی دوسرے وزراء اعلیٰ سے بہت بہتر ہے۔ مجھے اُن کے انداز حکومت پر ایک بنیادی اعتراض ہے، لیکن اس سے صرف نظر کر لیا جائے تو بھی ،وہ ہرموازنے میں بہتر قرار پاتے ہیں۔ بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی کارکردگی بھی متاثر کن ہے۔معیشت کے حالات دو سال میںبہتر ہو گئے۔ روپیہ مستحکم ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر پندرہ بلین سے زیادہ ہو چکے۔ برآمدات اور در آمدات میں توازن کا امکان پیدا ہو چلا ہے۔ اگر یہ حضرات اپنے اپنے دائرے میں اس حسن کار کردگی کا مظاہرہ کرتے رہیں تو وہ حکومت اور ن لیگ کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی وہ اپنی حدود سے بے نیاز ہوتے ہیں تو اعتراضات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ایسے اعتراضات جنہیں بے بنیاد نہیں کہا جا سکتا۔
میں شریف خاندان کی کارکردگی پر جب بھی نظر ڈالتا ہوں ، مجھے احساس ہوتا ہے کہ اسے ایک ہی بڑی کمزوری لاحق ہے اور وہ اختیار کے ارتکاز کی بے قابو خواہش ہے۔ سی پی این ای کے اجتماع میں محترم مجیب الرحمن شامی صاحب نے توجہ دلائی کہ حکومت ابھی تک بہت سے اہم محکموں کے سربراہ مقرر نہیں کر سکی۔ اس کے پیچھے بھی در اصل یہی خواہش جلوہ گر ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کی تلاش میں ہے جو اگر ان کے خاندان سے نہ ہوں تو کم از کم خاندان کے وفا دار ضرور ہوں۔ گڈ گورننس کا اصول یہ ہے کہ اہلیت اور دیانت جیسے اوصاف تلاش کیے جائیں۔ یہاں حسب نسب یا شخصی وفاداری پر توجہ مرتکز ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اداروں کی کار کر دگی پر پڑتا ہے اور پھر یہ حکومت کے نامہ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ عوام اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ زرداری صاحب کی مثال زیادہ پرانی نہیں۔ افسوس کہ کوئی عبرت نہیں پکڑتا۔
ساکھ کے ساتھ حکومت کو اس حکمت عملی سے ایک دوسرا نقصان بھی ہو رہا ہے۔ یہ ن لیگ کی تنظیم کا تحلیل ہونا ہے۔ خاندانی وابستگی کو ترجیح بنانے کی پہلی زد سیاسی وابستگان پر پڑتی ہے۔ خاندانی لوگ ان کی جگہ لے لیتے ہیں جو سیاسی سفر میں ہم سفر ہوتے ہیں اور
یوں انہیں دور کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس تجربے سے گزر چکی۔ زرداری صاحب نے جماعت کو شخصی اور خاندانی مدار ہی میں متحرک رکھنا چاہا اور سندھ میں ہنوز اسی روش پر سفر جاری ہے۔ سب جانتے ہیں جس دن دیہی سندھ کو متبادل قیادت میسر آ گئی، یہ آشیانہ بکھر جائے گا۔ خاندانی سیاست کا شریف خاندان کو دو طرح سے نقصان ہو رہا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی سیاسی بنیاد، ن لیگ بطور سیاسی جماعت کمزور ہو رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے بارے میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ وہ ایک صوبے کے حکمران اور نمائندے ہیں۔ پاک چین تجارتی راہ داری کے تناظر میں اٹھنے والی بحث در اصل اس تاثر کا شاخسانہ ہے۔ اگر ارباب اختیار قومی حکومت اور پاکستان کی نمائندگی کا تاثر پیدا کرتے تو شاید یہ خدشات زیادہ جڑ نہ پکڑتے کہ اس راہ داری میں پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے خیبر پختون خوا کو محروم کیا جارہا ہے۔
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ خیبر پختون خوا‘ جہاں سے مسلم لیگ کو سب سے بڑا سیاسی چیلنج درپیش ہے، میں حکومت نے اپنا سیاسی وجود ثابت کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اگر کچھ کیا بھی تو ہزارہ کی حد تک، جہاں پہلے ہی اسے برتری حاصل ہے۔ یہ خطہ تو وہ ہے جس نے تاریخ کے نازک ترین مرحلے میں، اپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈالا اور یہ اس وقت ہوا جب خان عبدالغفار خان جیسی سیاسی شخصیت ایک مختلف موقف کے ساتھ
کھڑی تھی۔ اس خطے کے مکینوں نے بعد میںیہ بھی ثابت کیا کہ وہ کسی خاندان یا جماعت کی غلامی کو قبول نہیں کرتے۔گزشتہ چندسالوں میں پاکستان کے کسی علاقے میں اتنے سیاسی تجربات نہیں ہوئے جتنے خیبر پختون خوا میں ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تحریک انصاف ہی ان کی منزل نہیں ہے۔ اگر کوئی سیاسی اعتبار سے بہتر متبادل ثابت ہو سکتا ہے تو یہاں کے عوام کے دروازے ان کے لیے بھی کھلے ہیں۔ شریف خاندان کی سیاست میں اس بات کا ادراک بھی شامل نہیں۔
شہباز شریف صاحب کے ساتھ، خبر یہ ہے کہ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان صاحب بھی تھے؛ تاہم اس کی حیثیت متن کے حاشیے سے زیادہ نہیں تھی۔ میڈیا میں جس طرح یہ دورہ رپورٹ ہوا ہے، اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ یہ انداز سیاست جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے نہ شریف خاندان اور ن لیگ کے لیے۔ نواز شریف صاحب کو اب خصوصی طور پر اپنے بارے میں قائم اس تصور پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اس وقت مرکزی حکومت ایک خاندان کے پاس ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ فرد ہو یا قوم ، اپنی کمزوریوں کے بوجھ سے گرتے ہیں۔ اس وقت حکومت کو کسی خارجہ دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ اگر اسے نقصان پہنچے گا تو اپنی ہی کمزوری سے۔ فرد ہو یا اجتماع، اصلاح کا راستہ ایک ہی ہے، اپنی کمزوری کا ادراک اور پھر اسے دور کرنے کی سنجیدہ کوشش!
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے