مردان سے برادرم شیراز پراچہ کا فون آیا۔ یہ ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت تھی جس کا اہتمام عبدالولی خان یونیورسٹی نے کیا تھا۔ مردان کا ذکر ہوا تو دل کے ایک گوشے میںسالوں سے مقیم ایک درد نے سر اٹھایا اور پورے وجود کا حصار کر لیا۔ میرے لیے مردان ڈاکٹرفاروق خان کا شہر ہے۔ وہ جو شہادت کی خلعت پہنے،اس شہرکی ایک خاموش بستی میںآسودۂ خاک ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ موت ان کے تعاقب میں ہے لیکن وہ اسے سعادت خیال کرتے ہوئے، ہردم استقبال کے لیے آ مادہ رہے :
وہ قتل گاہوں میںشاخِ زیتون لے کے پھرتا رہا ہمیشہ
اگرچہ برسوں سے اپنے قابیل کے ارادوں کو جانتا تھا
مردان کم و بیش بیس سال سے میری یاداشت کا مستقل حصہ ہے۔ یہ میرے تین عزیز ترین دوستوں کا شہر ہے۔ ڈاکٹرحسن الامین، سلیم صافی اور ڈاکٹر فاروق خان۔ حسن الامین اور سلیم اسلام آباد کے ہوگئے۔ ڈاکٹرصاحب نے مردان کو اپنا دائمی مسکن بنا لیا۔ یوں اب میرے لیے وہی اس شہر کا حوالہ ہیں۔ وہ اس خطے میں علم و آگہی کی منفرد آواز بھی تھے۔ سوات میں مذہب کے عنوان سے جب جہالت کی تاریکی پھیلنے لگی توڈاکٹر فاروق خان نے علم کاایک چراغ جلایا۔ یہ سوات یونیورسٹی کا منصوبہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے اپنے لہو سے روشن کیا۔ آج اس ایک چراغ سے ان گنت دیے روشن ہو چکے ہیں۔ مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں عبدالولی خان یونیورسٹی پہنچا۔ محض چند سالوں میں، صرف اس ایک یونیورسٹی میںآٹھ ہزار سے زیادہ طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ علم کے اس شہرکی فصیل ڈاکٹر فاروق خان کے گھر کی دیوار سے زیادہ دور نہیں۔ وہ گھر جہاں وہ آباد تھے اور وہ گھر جہاںاب مقیم ہیں۔
میں یونیورسٹی پہنچا تو صحافی کارکنوں اور میڈیا مالکان کے مابین دھواں دار مکالمہ جاری تھا۔ دودن سے جاری کانفرنس اپنے اختتامی مراحل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کے بعد ایک ہی اجلاس ہونا تھا، مجھے جس میں شرکت کرنا تھی۔گزرے دنوں کی بازگشت احباب کی زبانی سنی۔ معلوم ہوا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک دنیا کے معروف لوگ شریک ہوئے۔ تاثر یہی تھا کہ میڈیا سے وابستہ شخصیات کا ایسا اجتماع کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شیراز پراچہ کی محنت اور حسنِ طبیعت کے مظاہر میں نے اپنی آ نکھوں سے بھی دیکھے۔ وائس چانسلر ڈاکٹراحسان علی اختتامی اجلاس میں ہمارے ساتھ شامل رہے۔ یہ ان کی شخصی دلچسپی کا مظہر تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک ادارے کا سربراہ جب رسمی دائرے سے نکلتا اورکسی کام کو ذاتی تجربہ بنا دیتا ہے تو پھرکارکنوں میں جوش پیدا ہوتا اور ان کی کارکردگی پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔
میں جس سیشن میں شریک ہوا، اس کا مو ضوع کالم نگاری تھا۔ اس فن سے وابستہ نامور افراد اس میں شریک تھے۔ محترم ارشاد احمد عارف، برادرم عامر خاکوانی اور میں ایک عرصے سے''دنیا ‘‘ کا حصہ ہیں۔ خاکوانی صاحب اور میں تو ہیں ہی 'ایک پیج‘پر۔ اس کے باوجودیہ میری ان کے ساتھ پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ برادرم رئوف طاہر سے تعلقِ خاطر کو بیس سال ہوگئے۔ افتخار مجازسے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ اصلاً ادب کے آدمی ہیں لیکن پی ٹی وی کے ساتھ طویل عرصہ وابستہ رہے اوریوں میڈیا کا حصہ ہیں۔ اب کالم بھی لکھتے ہیں۔ صائمہ بتول کی شرکت سے خوشی ہوئی ورنہ منتظمین پر صنفی امتیازکا الزام عائد ہو سکتا تھا۔ برادرم فرخ گوئندی اس مذاکرے کے میزبان تھے۔ ان کی گفتگو سن کر میں سوچتارہا کہ ایک ٹاک شوکا میزبان ابلاغ کے ساتھ اگرمطالعے اورتجزیے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو تو ہمارے ٹی وی ٹاک شوکتنے بامعنی ہو جائیں۔ میری تو حسرت ہی رہی کہ میڈیا مالکان پر بھی یہ رازکھل سکے۔
جس اجلاس میں اس طرح کے لوگ شریک ہوں، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ صحافت کے طلبا و طالبات کے لیے، اس کی کتنی افادیت ہوگی۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اس کانفرنس کے ہر سیشن میں شریک رہی۔ اس اجلاس میں کالم کی فنی تعریف سے لے کر اس کے عصری مظاہرتک، بہت سے پہلوئوںپر بات ہوئی۔کالم نگاروں نے اپنے تجربات کا حاصل سامنے رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ کالم کی صنف گزشتہ بیس پچیس سال میں ارتقاکے جن مراحل سے گزری،اس کی کوئی مثال مو جود نہیں۔ اس میں وقت گزرنے کے ساتھ مضمون اور تجزیے کے اوصاف پیدا ہوگئے ہیں۔ آج اردوکالم نگاری کے مسائل فنی ہیں اور اخلاقی بھی۔ احباب نے اس پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محترم رحیم اللہ یوسف زئی اگر چہ پینل کا حصہ نہیں تھے لیکن وہ اس بحث میں شریک ہوئے اور انگریزی کالم نگاری کی بات کی۔ یوں کالم کے موضوع پر یہ گفتگو زیادہ بامعنی ہو گئی۔
یونیورسٹی کے طلبا و طالبات جس گرم جوشی کے ساتھ اس بحث میں شریک ہوئے،اس میں میرے لیے خوشی کا پہلو تھا لیکن اس کے ساتھ تشویش کا بھی۔ خوشی اس بات کی کہ نئی نسل ذہنی طور پرآزاد ہورہی ہے۔ اب اسے رسم و رواج، روایت اور بہت سے دوسرے تصورات کی بنیاد پر مزید ذہنی اسیر نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ اس کے ابلاغ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جرأت بھی۔ یہ اس قوم کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ بڑے شہروں سے دوربسنے والی نئی نسل میں محرومی کا احساس بہت گہرا ہے۔ چھوٹے صوبوں کے لوگ اب بھی اس تاثر سے نہیں نکلے کہ پنجاب اور یہاںکا حکمران طبقہ،ان کے حقوق پر قابض ہے۔ یہ تاثر یہاں کے صحافیوں میں موجود ہے اور نئی نسل میں بھی۔ میرا احساس ہے کہ محض حب الوطنی کے لیکچر ان کی شکایات کا مداوا نہیں کر سکتے۔ حکمران طبقے کو سوچنا ہوگا کہ چھوٹے صوبوں کے رہنے والے ان خوانین، سرداروں اوروڈیروں کے تسلط سے نکل رہے ہیں جنہیں چند مراعات کے عوض، ساتھ ملا کر، یہ طبقہ تاثر دیتا ہے کہ وہ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہیںجا ن لینا چاہیے کہ عام آ دمی اب ان کا غلام نہیں۔ اگر مرکز انہیں مطمئن کر نا چاہتا ہے تو اسے براہ راست ان سے بات کر نا پڑے گی۔
اے این پی کی حکومت کا عمومی تعارف کچھ اچھا نہیں رہا۔ کے پی جاکر، لیکن یہ معلوم ہوا کہ ان کے نامہ اعمال میں کچھ کام ایسے بھی درج ہیں جن پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ ان میں یہاں یونیورسٹیوں کا قیام بھی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی اسی کا ایک مظہر ہے۔ ایک یونیورسٹی کا قیام دس فیکٹریوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ایک روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ ہزاروں کنال پر پھیلی اس درس گاہ میں امید کے بہت سے چراغ جل رہے ہیں۔ وہ ایک دیا جو ڈاکٹر فاروق خان نے جلایا تھا، اب چراغوں کے نہ ختم ہونے والا سلسہ بن چکا ہے۔
اس احساس کے ساتھ میں یونیورسٹی سے نکلا توخیال ہوا کہ ڈاکٹرفاروق خان سے ملے بغیر مردان کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ چند منٹ بعد میںاور حسن الامین ڈاکٹرصاحب کی مرقد پر کھڑے تھے۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھے اور پھر سارا شہر دھندلا گیا۔کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ'آنکھ دھندلائی ہوئی تھی، شہر دھندلایا نہ تھا‘۔ ڈاکٹر صاحب کے سرہانے استادِگرامی کا لکھا مرثیہ'مٹی کادیا‘ ایک کتبے کی صورت نصب تھا۔ مرثیہ کیا، یہ تو ان کی قلمی تصویر تھی۔ میں پڑھتا رہا اور ڈاکٹر صاحب کے خد وخال ذہن کے پردے پر ابھرتے بکھرتے رہے۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح ان سے رخصت ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ میں لیکن جانتا تھاکہ دائمی رفاقت تو صرف اللہ کی ہے، جس کی طرف وہ لوٹ گئے اور ہمیں ابھی جانا ہے۔ واپس روانہ ہوا تو ان کی یاد کے جگنوگھر تک چھوڑنے آئے۔ میں 'مٹی کے دیے‘ کو یاد کرتا رہا:
اُسی سے لڑنے نکل پڑا تھا تمام تاریک آندھیوں سے
اگرچہ مٹی کا، اس کے ہاتھوں میں ٹمٹماتا ہوا دیا تھا