بستیوں کا بھی ایک ظاہرہوتا ہے اور ایک باطن۔ ان کے باطن میں جھانکنے کے لیے ذوقِ آوارگی چاہیے۔گلیوں بازاروں میں پھرنا اوراِدھر اُدھر تاک جھانک کر نا۔اس آوارگی اور تاک جھانک کا تعلق آپ کی افتادِ طبع سے ہے۔آپ کہاں کہاں گھومتے اور کیسی کیسی دیواروں سے جھانکتے ہیں۔یوں ایک بستی کو لوگ مختلف طرح سے دریافت کرتے ہیں۔سب اپنی جگہ درست ہوتے ہیں۔ فرق منظرمیں نہیں،نظر میں ہوتا ہے۔لوگ مکہ سے سونا لاتے ہیں اور ثواب بھی۔یہ انتخاب ذوق اور توفیق پر منحصر ہے۔
گزشتہ ہفتے مجھے تین دن فیصل آباد میں گزارنے کا موقع ملا۔ ان تین دنوں میں ، میں نے اس بستی کو کسی حد تک دریافت کیا۔ممکن ہے یہ آپ کے مشاہدے یا تجربے سے مختلف ہو،لیکن اس اختلاف کا سبب زاویہ نظر ہے،شہر نہیں۔جس دن میں یہاں پہنچا،مجھے ایک خصوصی لیکچر سننے کا موقع ملا۔مقرر تھے مولانا زاہدالراشدی۔ اس کا اہتمام ادارہ تعلیم و تحقیق نے کیا تھا۔مو لا نا مناظر احسن گیلانی کے بعد،مکتبِ دیوبند کے یہ دوسرے فرزند ہیں،جن کا اسلوبِ تحریر مجھے پسند ہے۔ان کے ہاں ایک سلاست اور روانی ہے جو ان کے مدعا کو کبھی مبہم نہیں رہنے دیتی۔اس پر مستزاد ان کی شائستگی جو اب اہلِ مذہب میں جنسِ نایاب ہو تی جا رہی ہے۔ان کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر کا اصل سبب مگر اورہے اوروہ ان کی شخصیت کااخلاقی پہلوہے۔ماضی قریب میں،بعض معاملات سے نمٹتے ہوئے، انہوں نے اپنے اخلاقی وجود کی جس طرح حفاظت کی، واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں اس کی مثالیں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔
مولانا زاہدالراشدی کے خطاب کا موضوع تھا:سماجی امن اور مذہب۔انہوں نے بتایا کہ مذہب کس طرح سماجی امن کا مظہر ہے فساد کا نہیں۔اس باب میں انہوں نے سیرتِ سرورِ عالمﷺ کے ابواب سے چند مثالیں پیش کی۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں نے سیرت کو مغازی ہی سمجھا ہے۔قتال، سیرت کا ایک جزو ہے جسے کل بنا کر پیش کیا گیا۔اللہ کے آخری رسولﷺ نے ایک سماج بھی تشکیل دیا۔ وہ سماج جہاں مختلف مذاہب کے لوگ آ باد تھے۔اس کا ذکر بہت کم ہو تا ہے۔آپ نے مذاہب کے اس اختلاف کو کبھی سماجی امن کے لیے خطرہ نہیں بننے دیا۔مو لا نا نے حیاتِ طیّبہ کے آ خری باب سے ایک واقعہ نقل کیا۔ غزوہ تبوک سے واپسی پرجب آپﷺ حضرت حذیفہؓ کے ساتھ محوِ سفر تھے تو ایک ویران مقام پر چالیس افراد نے ایک برے ارادے کے ساتھ آپ کا راستہ روکا۔ تلوار بدست یہ لوگ اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے۔اپنے رسولوں کے باب میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ انہیں انکارکر نے والوں کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہو نے دیتا۔یہ قانون نبیوں کے بارے میں نہیں ہے۔اللہ نے ان حملہ آوروں پر آپﷺ کا رعب طاری کر دیا۔آپ نے اللہ اکبر کہا اور ان کے ہاتھوں سے تلواریں گر گئیں۔ وہ بھاگ نکلے۔ آ پ نے حضرت حذیفہ کو بتا یا کہ میں نے انہیں پہچان لیا ہے۔جب انہوں نے اصرار کیا کہ آپﷺ ان کے نام بتائیں تو اللہ کے آخری رسول نے اس شرط پر انہیں یہ نام بتائے کہ وہ کسی سے ان کا ذکر نہیں کریں گے۔بستی میں خبر پھیلی مگر آپ نے کسی سے ان ناموں کا ذکر نہیں کیا۔وجہ صرف یہ تھی کہ اس سے اشتعال پیدا ہو تا اور شہر کا امن پا ما ل ہو تا۔آپ نے صرف سماجی امن کی خاطران لوگوں کو بے نقاب نہیں کیا جو آپ کی جان کے درپے تھے۔آپ ریاست کے سربراہ تھے۔جو حکم دیتے، اس پر عمل ہوتا۔آپ کے ساتھ صحابہ کا تعلقِ خاطر بھی ہر شک و شبے سے بالاتر ہے۔اس کے باوجود آپ نے نظر انداز فرمایا۔ بعد میں بھی سیدنا عمرفاروقؓ نے بہت اصرار کیا مگر حضرت حذیفہؓ نے اللہ کے رسولﷺ سے اپنا وعدہ نبھایا اور ان کے نام کبھی ظاہر نہیں کیے۔
اگلے دن علما کی دو روزہ تربیتی ورکشاپ تھی۔علما نے برادرم وجاہت مسعود جیسے دوستوں کی بات پورے اہتما م کے ساتھ سنی۔سوالات کیے اور کہیں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ وجاہت کے سوچنے کا پیراڈائم غیر مذہبی ہے۔ان کا اسلوبِ نگارش ہی نہیں، اسلوب کلام بھی اہلِ مذہب سے مختلف ہے۔ اس کے با وصف یہ مکالمے کی ایک شاندار نشست تھی۔اسی طرح مسیحی مذہبی قیادت کے ساتھ بھی تما م مکاتبِ فکر کے علما نے با مقصد باتیں کیں اور ایک دوسرے کا پورا احترام پیشِ نظر رہا ۔ایک پادری کی گفتگو پرجامعہ امدادیہ کے مفتی محمد اصغرصاحب کا تبصرہ تھا کہ جیسے اسلام کا ایک عالم کلام کر رہا ہے۔علما کا تعلق مختلف مکاتبِ فکر سے تھا۔مگر ان کے مابین بعض معاملات پر حیرت انگیز یکسانیت تھی۔سب متفق تھے کہ ملک کو سیاسی نہیں، سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔اکثریت کی رائے تھی کہ ملک کا اصل مسئلہ مذہبی نہیں، اقتصادی ہے۔اس پر بھی اتفاق تھا کہ سب مذاہب اور مسالک کے وجود کو تسلیم کر تے ہوئے،باہمی رابطے کو بڑھنا چاہیے کہ بہت سی غلط فہمیاں عدم تعلق سے پیدا ہو تی ہیں۔سب نے مناظرے کو مسترد کرتے ہوئے مکالمے کی بات کی۔
علما کی ورکشاپ ختم ہو ئی تو میں ایک سیمنارمیں شرکت کے لیے بھاگا۔ بین المذاہب ہم آہنگی پر پی ڈی ایف نامی ایک تنظیم نے اس کا اہتما م کیا تھا۔رومانہ بشیر اس تنظیم کی روح و رواں ہیں جو برسوں سے مختلف مذاہب کے لوگوں میں قربت کے لیے کام کر رہی ہیں۔سیمینار کے بعد یہی پیغام ایک تمثیل کے ذریعے بھی پیش کیا جارہا تھا ۔میں شرکت سے محروم رہا۔ وہاں سے شتابی کے ساتھ نکلا کہ 'کارِ جہاں دراز ہے۔‘
ایک مقامی ایم ایف ریڈیومست 103‘نے مجھے انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔یہاں ایک نوجوان غضنفرناطق سے ملاقات ہوئی۔شائستگی کے ساتھ گفتگو کر تا یہ نو جوان مجھے اس ما حول میں اجنبی دکھائی دیا۔اس کی زبان کی صحت اور شائستگی میرے لیے باعثِ حیرت تھی۔معلوم ہوا کہ ریڈیو پاکستان نے تربیت کی۔میرے دل سے ایک آواز ابھری: اللہ کرے نجی ریڈیو اور ٹی وی چینلز میں بھی ان معاملات پر غضنفر جیسی حساسیت پیدا ہو۔اگر ہم نے اپنی زبان اور روایت کو اناڑی اور زبان سے نا آ شنااینکروں اور لکھاریوں کیے حوالے کیے رکھا تو بہت جلدہم اپنی تہذ یبی شنا خت اور اپناوجودکھو دیں گے۔اس کے علاوہ پہلے ہی بہت کچھ عالم گیریت کی زد میں ہے۔
فیصل آ باد کے اس قیام کا حا صل جامعہ امدایہ کا دورہ اور محترم مفتی محمد زاہد صاحب اور مفتی طیب صاحب سے ملاقات تھی۔ اس مدرسے کے مشاہدات لوگ اگر سنیں توحیران ہوںکہ ایک مدرسہ ایسا بھی ہو تا ہے۔یہ مگر ایک تفصیلی کالم کا متقاضی ہے۔انشاء اللہ جلد ہی اس پر بھی لکھوں گا۔اس وقت تو صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک خوشگوار یاد فیصل آباد کے اس سفر سے وابستہ رہے گی۔فیصل آباد کا ایک اور متاثر کن پہلو اس کی مادی ترقی ہے۔ میں نے اس کے ایسے مظاہر یہاں دیکھے،جو اسلام آباد میں بھی کم دکھائی دیتے ہیں جیسے شاپنگ سنٹرز۔پھر یہاں کی منفرد' پیپل باٹا جلیبی‘۔میں سوچتا رہا کہ اگر پاکستان کو صرف امن میسر جائے تویہ سرزمین جنت نظیر بن سکتی ہے۔
تین دن کے بعد جب میں فیصل آباد کی حدوں سے نکل رہا تھا تو ایک سوال میرے ساتھ محوِ سفر تھا:کیا فیصل آباد اتنا ہی ہے جتنا میں نے دیکھا؟پھر مجھے خیال ہوا کہ بستیوںکا باطن چند دن میں ظاہر نہیں ہو تا۔ اس کے لیے ذوقِ آوارگی چاہیے۔ اس کے بعد بھی وہ اتنا ہی ظاہر ہوتا ہے جتنا آپ کی نظر میں سما سکے۔