ایک طویل عرصے کے بعد 23 مارچ کا دن آزادی کے تازہ احساس کے ساتھ طلوع ہورہا ہے۔اس بہار میں کلیاں ہی نہیں، چہرے بھی کھل اٹھے ہیں۔ کیا یہ نئے عہد کے ظہور کا اعلانِ عام ہے؟
جہاںِ نو، اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ سنگ و خشت سے جنم نہیں لیتا۔ طاؤس و رباب کی اولیت بھی زندگی کو نئے لہجوں سے آشنا نہیں کرتی ۔جہان ِتازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود۔ تاہم زندگی میں بعض باتیں علامتی ہوتی ہیں۔ علامتوںکی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ قوم کے لیے تذکیر کا کام کرتی ہیں۔ علامت کوئی سبق یاد دلادیتی ہے۔ کبھی کسی احساس کے تار چھیڑ دیتی ہے۔کبھی کسی غلطی کی طرف متوجہ کرتی اور اصلاح کی تمہید بن جاتی ہے۔کیا یہ دن ہمیں کسی غلطی کی یاد دلا تا ہے؟
اصلاً تو یہ دن کسی غلطی سے نہیں، ایک عزم سے پھوٹا ہے۔ایک خواب جس نے جہدِ مسلسل پر ابھارا اورپھر ایک تعبیر میں ڈھل گیا۔ ہم اس دن کو یاد کرتے اوراس عزم کی تجدید کرتے ہیں۔ پھر ہم پر یہ دن آیا کہ ہم اپنی علامتوں کو بھول گئے۔ روایت کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹا۔آج سنِ بلوغت میں قدم رکھنے والی نسل کو 23 مارچ کی یاد دلانے کے لیے،اظہار کا صرف ایک اسلوب باقی ہے: 'ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔۔۔‘ہمیں اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ ہم اپنے اُس ماضی کی طرف لوٹ سکیں جس میں امن تھا، روایت کاا حترام تھا اور اس کے ساتھ عزم کا اظہار بھی تھا۔گزشتہ تیس پینتیس سال تو اب ایک تکلیف دن خواب کی طرح ہیں۔ ان کا حاصل وہ بربادی ہے جس نے ہم سے ہماری علامتیں تک چھن لیں۔
زندگی میں مگر نموکا فطری داعیہ ہو تا ہے۔ بقا کی جبلت، برے حالات میں بھی زندہ رہنے کی خواہش کو مرنے نہیں دیتی۔ انسان موت کے کنارے کھڑا ہوکر بھی زندگی ہی کی طرف دیکھتا ہے۔ وہ امید رکھتا ہے کہ کوئی معجزہ،کوئی خرقِ عادت واقعہ اسے واپس لا سکتا ہے۔ زندگی میں عام طور پر معجزے نہیں ہو تے۔ معجزے کی تمنا مگر ہمیشہ رہتی ہے۔اب معجزہ اگر نہ بھی ہو،جینے کی خواہش زندہ رہتی ہے۔ سماج میں یہ خواہش موجود ہو تو وہ زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ بقا کا یہ جبلی تقاضا اور جینے کی خواہش ، معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے احیا کا محرک بن رہے ہیں۔ بہت کچھ گنوا دینے کے بعد بھی، ہم آگے بڑھنے کے عزم سے دست بردار نہیں ہوئے۔ میں اپنے شہر میں جوش و خروش دیکھتا ہوں۔ لوگ 23 مارچ کی پریڈ میں شرکت کے لیے بے تاب ہیں۔
با اثر رشتہ داروں اور جاننے والوں سے رابطہ کررہے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی سوال ہے:کیا پریڈ دیکھنے کا اجازت نامہ مل سکتا ہے۔ میں نے کسی ایک فرد کو نہیں دیکھا جو کسی خوف کو خاطر میں لانے پر آ مادہ ہے۔ خوف سے آ زادی کا پہلا مرحلہ یہی ہے۔'موہوم آزادی‘ میں بھٹو صاحب نے کیااچھی بات لکھی :''خوف محض ایک کیڑا ہے اگر آپ آگے بڑھ کراسے اپنے پاؤں سے کچل دیں، بصورت دیگر ایک عفریت، جو جان کے درپے ہو تا ہے‘‘۔
اگر یہ احیا اور تجدید ہے تو اس میں یہ مفہوم آپ سے آپ شامل ہے کہ ہم رجوع کر رہے ہیں۔ ہم لوٹ رہے ہیں۔ یہ زبانِ حال سے اعتراف ہے کہ ہم غلط راستے کی طرف چل نکلے تھے۔ اگر کسی قافلہ سالارکو یہ اندازہ ہو جائے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی۔ یہ مگر کافی نہیں۔ لازم ہے کہ یہ سوچ پورے قافلے میں پھیلے۔ اگر پیچھے چلنے والے نہیں جانتے کہ میرکارواں نے راستہ کیوں بدلا تو سوالات اٹھتے ہیں اور جواب نہ ملنے پر بدگمانیوں میں ڈھل جا تے ہیں۔ آج ریاست کی سوچ میں آنے والی تبدیلی سے عوام کو باخبر ہو نا چاہیے۔ جن لوگوں کو اس کا شعور ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ راستہ کیوں بدلا گیا؟وہ ان لوگوں کو قائل کریں جو عوام کی شعوری اور نظری تربیت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس محراب و منبر ہیں، خانقاہ ومکتب ہیں۔ ان کے ہاتھ میں قلم اور منہ میں زبان ہے اور دونوں مسلسل رواں رہتے ہیں۔
یہ بات ثابت ہو چکی اور آج یا کل، حق الیقین کے درجے تک پہنچ جا ئے گی کہ ہم نے ریاستی مفادات کی آ بیاری کے لیے جس طرح سماج کو نظراندازکیا، وہ کتنا تباہ کن ثابت ہوا۔ ہم نے گلی اور بازار میں جب لوگوں کو مسلح کیا۔ جب ان کے غول کے غول اسلحہ بردار جتھوں میں گھومتے ہیں تو اس سے عوام کی نفسیات پرکیا اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ جب ایک خطیب مسلح محافظوں کے نرغے میں سٹیج پر نمودار ہوتا ہے تو سامعین کاذہن خطابت سے زیادہ اس ماحول میں الجھ جاتاہے جس سے وہ پہلے واقف نہیں تھا۔ جب مسجد کے منبر سے ہر وقت مرنے اور مارنے کی باتیں ہونے لگیں۔ جب میڈیا ہر وقت ہیجان میں مبتلا کیے رکھے اور جب اخبارات کے صفحات جذبات کے سوداگروں کے ہاتھوں یرغمال بن جا ئیں تو پھر روایات ختم ہو جاتی ہیں ۔ روایت کے باقی نہ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ نظام ِ اقدار باقی نہیں رہا۔ ہم آج جس عالمِ دین سے ملتے ہیں، وہ اس عالم سے یک سر مختلف ہے جسے لوگ 1979ء سے پہلے جانتے تھے۔ آج لوگ جس میڈیا سے واقف ہیں، وہ اپنی ہیئت ہی نہیں، مزاج اور ذوق میں بھی اس میڈیا سے مختلف ہے جو ستر کی دہائی اور اس سے بھی پہلے یہاں پایا جاتا تھا۔
23 مارچ علامت ہے کہ ہم تجدیدِ عزم کر رہے ہیں۔ یہ اعلانِ عام ہے کہ اس سماج میں جینے کی خواہش ابھی زندہ ہے۔ علامت بالعموم ایک ماضی رکھتی ہے۔ پہلے کربلا کا حادثہ ہوتا ہے، پھر وہ ایک استعارے یا علامت میں ڈھلتا ہے۔ تحریکِ پاکستان برپا ہوتی اور ایک منزل تک پہنچتی ہے۔ پھر 23 مارچ اس سارے سفر کی علامت بن جا تی ہے۔آج اس علامت کو ہم نے مستقبل سے جوڑنا ہے تو ماضی کے حوالے کے ساتھ اس کی تفہیمِ نوکر نی ہے۔ اس کے لیے یہ لازم ہے کہ نئی نسل کو بتایا جائے کہ ایک طویل عرصہ تک، یہ علامت ہمارے حافظے سے محو کیسے رہی۔ وہ کیا حادثہ تھا جس نے اسے اخبارات کے صفحات تک محدود کر دیا تھا۔
آج ہم نے اس علامت کو ایک نیا مفہوم دینا ہے۔ ایک خوشگوار مستقبل کی امید بنانا ہے۔ اس کے لیے اس انحراف کی داستان بیان کر نا ہوگی جس نے سماج کی نفسیات، مذہب کی تعلیمات اور سیاست کی حرکیات کو بدل ڈالا۔ اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ نظامِ اقدار، مذہب اور سیاست کو اپنی اصل اساسات پرکھڑا کر دیا جائے۔ قوم ایک نئے جذبے کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے نئے راستوں کی نشا ندہی بھی کرنی چاہیے۔ نئے راستوں کا مطلب ہے: سماج کی تشکیلِ نو، مذہب کی تعبیرِ نو اورریاستی اداروں کی تعمیرِ نو۔ یہ سنگ و خشت کے پہاڑ کھڑا کرنے اور کھیل تماشوں سے نہیں ہوگا۔ اس کے لیے خیالِ تازہ کی ضرورت ہے۔ میرا احساس ہے، جنرل راحیل شریف صاحب نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ اب دوسرے ریاستی، سماجی اور سیاسی اداروں کی قیادت کے دعوے داروں کواُن کا تتبع کر ناچاہیے۔ فوج ہی نہیں، یہاں اہلِ سیاست نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا ہے۔ یہ انحراف کیا کم ہے کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو پنپنے نہیں دیا اور انہیں خاندانی جاگیر یاذاتی ملکیت بنا ڈالا ہے۔ آج ہم سب کوعزمِ نو کرنا ہے۔ یوں 23 مارچ کی علامت، ماضی سے وابستہ رہتے ہوئے مستقبل کی امید بن جائے گی۔