"KNC" (space) message & send to 7575

ایوانِ صدر کی ایک نشست

صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب کے ساتھ یہ میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ ملاقات بھی اجتماعی۔ برادرم فاروق عادل نے اطلاع دی کہ صدر صاحب اہلِ علم و دانش کے ساتھ ایک نشست کے متمنی ہیں۔ میزبان کا حسنِ ظن تھا کہ مجھے بھی اس مجلس کا حصہ ہونا چاہیے۔
غالب نے توجہ دلائی تھی کہ مکیں کو مکان سے نسبت ہوتی ہے‘ مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے۔ میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تو آصف زرداری صاحب یہاں کے مکین تھے۔ ان دنوں میں اِس عمارت کی شہرت کچھ اور تھی۔ در و دیوار اب بھی وہی ہیں‘ لیکن شہرت مختلف ہے۔ شہرت اور حقیقت لازم نہیں کہ ایک ہی ہوں؛ تاہم ہم جیسے ظاہر بین تو ظاہر ہی کی بات کر سکتے ہیں۔ سر دست تو کوئی موازنہ مقصود نہیں، ایک ملاقات میں آپ کو شریک کرنا ہے۔ ممنون صاحب ایک روایتی پاکستانی مسلمان کی مجسم صورت ہیں۔ روایت کے باب میں حساس، ایک تہذیبی سانچے میں ڈھلی شخصیت۔ اس کا اظہار اب ایوانِ صدر کی سرگرمیوں میں بھی ہونے لگا ہے۔ اہلِ دانش اور علما کے ساتھ نشستیں، مشاعرہ اور شعرا کا ہجوم۔ سیاست میں بطور نمائش ان باتوں کا گزر رہتا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ سرگرمیاں میزبان کے ذوق سے بھی ہم آہنگ ہو گئی ہیں۔ یوں مصنوعی نہیں رہیں۔ بناوٹ کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ دیکھیے، یہی بات ظفر اقبال نے کس رنگ میں کہی:
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
ایوانِ صدر کے مکین سے کوئی امید وابستہ کرتے وقت، یہ خیال رہنا چاہیے کہ آئین انہیں کیا ذمہ داریاں سونپتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں صدر وزیر اعظم نہیں ہوتا۔ زرداری صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ پارٹی کے صدر بھی تھے اور صدرِ پاکستان ہونے کے باوجود، وہ عملاً اس منصب سے معزول نہیں ہوئے۔ پارٹی کے امور ایوانِ صدارت ہی میں طے ہوتے تھے۔ یہ ایوان دراصل پیپلز پارٹی کا سیکرٹریٹ تھا۔ اس سے پہلے آئین کی دفعہ 58(2)-B نے پارلیمانی نظام کی صورت بگاڑ رکھی تھی۔ صدر ممنون حسین کا معاملہ یہ نہیں۔ ان سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے دفتر کو مسلم لیگ کا دفتر بنا دیں۔ انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ بایں ہمہ، وہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز بھی نہیں کریں گے۔ ان کی افتادِ طبع ایسی معلوم نہیں ہوتی۔
اہلِ دانش کی اس مجلس سے مگر یہ معلوم ہوا کہ ہمارے یہ معتبر لوگ بھی انہیں ہر چیز پر قادر سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملک کی شرح خواندگی کو سو فی صد تک پہنچانے کے ساتھ، انہیں کرپشن سمیت تمام مسائل حل کرنے چاہئیں۔ یہی نہیں، پوری انسانیت کی بہتری کے لیے بھی ایک لائحۂ عمل دینا چاہیے۔ قومی مسائل کا اصل مخاطب حکومت اور درست تر الفاظ میں وزیر اعظم ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے انہیں ہی مسئول ٹھہرانا چاہیے۔ صدر صاحب سے ہم دو مطالبات کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت میں، وہ ایک قومی بیانیے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ قوم کو ایک وژن کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جہاں سماجی اداروں کی تشکیلِ نو لازم ہے‘ وہاں ریاستی اداروں کو بھی راہنما اصول چاہئیں۔ یہ بھی لازم ہے کہ اس خطے کی ثقافت کو زندہ کیا جائے۔ فنونِ لطیفہ کا فروغ ہو اور اس کے ساتھ یہ دیکھا جائے کہ ہمارے سماجی ادارے بشمول مدرسہ، مکتب، مسجد، خاندان اس انحطاط کا شکار کیوں ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کے لیے اہلِ علم کے ساتھ ایک طے شدہ ایجنڈے پر تجاویز مانگی جائیں تو ایک راستہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ ہم جس مجلس میں مدعو تھے، اس طرح کی مجالس سے متفرق اقوالِ زریں کا ایک مجموعہ تو مرتب کیا جا سکتا ہے، کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکتی؛ تاہم ایک ابتدا کے طور پر اس کی اپنی اہمیت ہے۔
دوسرا کام جو صدرِ مملکت کر سکتے ہیں، وہ ریاستی اداروں کو ان کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی ہے۔ اس کے لیے وہ جہاں ان اداروں کے سربراہوں اور ذمہ داران سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کر سکتے ہیں، وہاں ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے اگر میڈیا واچ ہی کا اہتمام کر لیا جائے اور اس کے نتیجے میں ان اداروں کو ایوان صدر کا تاثر پہنچتا رہے تو میرا خیال ہے کہ یہ منصب ایک اخلاقی دباؤ کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں وہ سماجی اداروں اور سماج کے مخیر اور دردِ دل رکھنے والے افراد کو سماجی تعمیر کے کاموں میں شرکت پر آ مادہ کر سکتے ہیں۔ یوں وہ فکری تشکیلِ نو سے لے کر عوامی فلاح و بہبود تک، بہت سے کاموں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک مضبوط نظام ِاقدار ہماری زندگی کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔
برادرم فاروق عادل کے اسثنا کے ساتھ، میں صدر صاحب کی ٹیم سے واقف نہیں ہوں کہ وہ کسی ایسے کام کے لیے کس حد تک صدر صاحب کے دست و بازو بن سکتے ہیں۔ فاروق عادل صاحب کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ وہ اس کام کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سماجی تعمیر کی اہمیت سے بھی باخبر ہیں۔ میرا حسنِ ظن ہے کہ صدر صاحب کے دوسرے رفقائے کار بھی ایسے ہی ہوں گے۔ اگر یہ چاہیں تو ایوانِ صدر سے احیائے سماج کی ایک تحریک اٹھ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ میرا خیال ہے کہ وہ پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، اقبال اکیڈمی اور بہت سے دوسرے ادارے ان کے دست و بازو بن سکتے ہیں۔ یہ ادارے اگرچہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تحت ہیں مگر صدر، ریاست کے سربراہ کی حیثیت میں، یہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں ایک وژن دیں اور سماجی و تہذیبی احیا کے لیے ان کی سرگرمیوں کو منظم کرنے میں ان کی راہنمائی کریں۔
صدر صاحب کے اپنے مشاہدات اور تجربات بھی کم نہیں جو اس کام میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ جب وہ گورنر سندھ تھے تو جدید سنگاپور کے معمار اور بانی لی کیون یو نے، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا، پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کی یاد تازہ کرتے ہوئے صدر صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے ساتھ مہمان نے کراچی بندرگاہ کا دورہ کیا۔ وہاں ان سے سوال کیا گیا: کراچی بندرگاہ کو بہتر بنانے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اس سوال پر وہ کھکھلا کر ہنس دیے اور دیر تک ہنستے رہے۔ پھر انہوں نے کہا: ''آپ مجھ سے مشورہ مانگ رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے سنگاپور پورٹ کس نے تعمیر کی؟ یہ سعید نام کا ایک پاکستانی تھا‘‘۔ صدر صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستان میں صلاحیت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اس کلچر کی تبدیلی کے لیے وہ اپنے منصب کا اخلاقی استعمال کر سکتے ہیں۔
اس کام کے لیے جس اخلاقی اثاثے کی ضرورت ہے، اللہ کا شکر ہے کہ وہ موجود ہے۔ صدر صاحب کی گفتگو سے واضح تھا کہ فرد کے ساتھ وہ ریاست کی اخلاقی ساکھ کے بارے میں بھی حساس ہیں۔ ریاست اداروں کا نام ہے۔ اگر یہ ادارے اور ان کے ذمہ داران بھی حساس ہو جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ سماج اپنی اقدار پر کھڑا ہوتا ہے۔ صدر اگر اس کی شعوری بیداری کے لیے ایک علامت بن سکیں تو یہ ان کی بڑی قومی خدمت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں